صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


نقدیات


ڈاکٹر  عتیق اللہ

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

ساختیات ، پس ساختیات اور مشرقی شعریات

یاردو ادب میں گزشتہ کم وبیش چالیس برسنظر یاتی تنازعات سے وابستہ رہے ہیں۔بالخصوص اس نظر یے کو بار بار تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جس کا خمیر سماجی‘ سیاسی اور اقتصادی متعلقات سے تیار ہو ا تھا، ان نظریات پر بھی کبھی کبھار گرفت کی گئی ہے جن کی نمود، نفسیات اور جمالیات وغیرہ تجربی اور علمی سیاق سے ہوئی تھی۔لسانیات نے علم زبان کی حدود سے نکل کر اسلوبیات کی نئی تعبیر یں وضع کیں اور معنیات اور نشانیات کے حوالے سے ادبی تنقید کے دانش ورانہ کُرے کو وسیع کر نے میں کافی مدد گار ثابت ہوئی۔
نشانیات semiology جس کی ر‘و سے زبان ایک نظام نشانات ہے ۔ زبا ن نام ہے ایک خود مختار اور تہذیبی طور پر معیّن نظام نشانات کا کہ خارجی حقیقت سے کسی بھی قسم کے ذاتی یاطبعی رشتے کے بغیر الفاظ ومعانی کے رشتے وجود میں آتے ہیں۔اس تصور کامخرج فرڈی نیا نڈڈی سوسیئر کا فلسفۂ لسان ہے کہ زبان nomenclatureتسمیہ یعنی اشیاء کو نام دینے والا نظام نہیں ہے بلکہ زبان افترقات کا نظام ہے‘جس میں کوئی مثبت عنصر نہیں۔
سوسیئر کا اسی بنا پر جدید لسانیات کا باوا آدم بھی کہاجاتا ہے خصوصاً عصری امریکی و فرانسیسی ماہرین ساختیات نے معیار سازی بلکہ بنیادی معیار سازی میں سوسیئر ہی کے تصورات پر بنائے ترجیح رکھی ہے۔
ماہرین لسانیات کے علاوہ ادبی نقاّدوں‘ ماہرین بشریات ‘ فلسفیوں اور نفسیات دانوں وغیرہ کا ایک بڑا حلقہ ہے جو اپنے آپ کو ساختیاتی کہتاہے۔ ان کے پہلو بہ پہلو ان نکتہ طرازوں کی بھی کمی نہیں ہے جو ساختیات ہی کے منکر ہیں یا لسانیاتی تصورات کا طریقِ اطلاق ہی ان کے نزدیک صیح نہیں ہے۔ ماہرین ساختیات کا مختلف النوع علوم سے تعلق ہونے کی بنا پر اس کی نہ تو کوئی حتمی فرہنگ تیار ہوسکی ہے اور نہ ہی معروضی بنیاد پر واضح اصول بندی عمل میں آئی ہے۔ شاید اس لیے کہ ان کے نزدیک اصول بندی بالآخر کلیّت پسندی یا جبریت کی طرف لے جاتی ہے۔ تاہم مختلف علوم کے ماہرین کے اختلاف میں ایک عمومی وحدت کی جستجو ضرور کی جاسکتی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم جسے ساختیات کہتے ہیں اسے نئی ساختیاتی شعر یات سے بھی مو سوم کیاجاسکتا ہے اور اس حوالے سے ادب کی نئی تھیوری کا امکان بھی اس میں مضمر ہے۔
اِسی وحدت کی جستجو کی ایک تازہ نظیر گوپی چندنارنگ کی جحیم وضخیم تصنیف ’ساختیات ‘ پس ساختیات اور مشرقی شعریات ‘ ہے۔ نارنگ کا یہ بلند کوش کام ایک دوبرس کے تفکر کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس عمل میں گذشتہ دس بارہ برس کی سعی وکاوش بکار آئی ہے۔ یعنی جب انھوں نے اردو میں اسلوبیات کو روشناس کر ایا تھا تب ہی ان کے ذہن میں ایک مبسوط منصوبے کے خطوط بھی قائم ہو چکے تھے۔ ممکن ہے انھیں اس بات کا احساس نہ ہو مگر ایک تسلسل ہے جو ان کے مضامین کے سنین اشاعت سے تدریجی ارتقا کا پتہ دیتا ہے۔ روسی ہیئت پسندی سے لے کر پس ساختیات تک کی مختلف کڑیاں مغرب میں لفظ ومعنیٰ اور ان کے رشتوں کے ان مباحث کو ایک نیا نام دینے کی سعی کی مترادف ہیں‘جس کی پہلی تمہید ار سطو نے باندھی تھی۔
گوپی چند نارنگ نے وحدت کی جستجو کادائرہ اس معنی میں وسیع تر کیا ہے کہ انھوں نے مشرق کے ان کم وبیش گم شدہ ادبی تصورات یا شعری لسانیات کی باز یافت کی ہے جن کا مغربی تصورات کے دباؤ کے تحت ارتقا رُک گیا تھا یا ہم ہی نے انھیں آثار قدیمہ کا نام دے کر طاقِ نسیاں کی زینت بنا دیا تھا۔ اِسی لیے ہم انھیں تاہنوز اپنی فہم کا حصہ نہیں بنا سکے۔ تاہم مشرق تا مغرب روایت ودانش کا یہ عظیم تسلسل عالمی تہذیبی اور بشر یاتی باہمی مبادلے اور اساسی وحدت کی توثیق کر تا ہے۔
گوپی چند نارنگ اگر محض ساختیات وپس ساختیات کے یوروپی مباحث ہی سے روشناس کراتے تو اس کی بھی ایک اہمیت تھی‘ لیکن وحدت کی جستجو میں انھوں نے عربی وفارسی اور سنسکرت شعریات کے بحرذخّار کی بھی خاطر خواہ غوّاصی کی ہے اور نتیجۃً جو گوہر ہائے مرادوہ اپنے دامن میں سمیٹ لائے ہیں ان کی تب وتاب سے یقینا ہمارے ذہن کدے منور ہوئے ہیں۔
اس مطالعے میں چین کی کمی ضرور کھٹکتی ہے کیوں کے چین کے تصورات فن عظیم تر مشرق ہی کے اہم باب ہیں۔ مغرب میں لفظ وہیئت کے جدید اولین نکتہ شناسوں میں ایذرا پاؤنڈبھی تھا جو نگارخانہ چین کی جلوہ سامانیوں سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکا۔خود آئی ۔اے۔ رچر ڈزکا synaesthesisکا تصوراصلاً کنفیوشس کے ینگ اور یانگ کے تصور سے ماخوذتھا۔چینی جمالیات کے مطابق تعادل اور ہم آہنگی جیسی ذہنی حالتیں فن اور زندگی میں بھی اسی قدر لازمی ہیں۔ یہ دونوں اوصاف موادومافیہ کے بجائے ہیئت سے پیدا ہیں۔ اس طرح اگر کوئی فن یا شاعری تعادل اور ہم آہنگی مہیاّ کر تی ہے تو اس کا مصدر ہیئت ( معنی جس کا مقدر ہے) ہوتی ہے نہ کہ مواد۔
قطع نظر اس بحث سے بلا شبہ گوپی چند نارنگ نے ماضی بعید کو صیغۂ حال سے بڑی خوبی کے ساتھ ربط دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کا بنیادی تھیسس (موقف) بھی یہی ہے کہ ایک طرف مغرب میں ساختیات کے بنیاد ی آثار ارسطو‘ اور رومی نقاّدوں کے یہا ں کار فرما ہیں مگر افلاطون اور اس کے پیروں کاروں کے اثرات بھی اس میں گھلتے ملتے رہے۔ نتیجتہً یہ دونوں رجحانات ادب وتنقید کی تاریخ میں کبھی پہلو بہ پہلو اور کبھی ایک دوسرے پر سبقت لیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم ارسطو‘ جسے استادوں کا استاد کہا گیا ہے‘ تقریباً ہر دور میں کسی نہ کسی صورت سے اپنی قوّت کا احساس دلا ہی دیتا ہے، جس کی ایک صورت ساختیاتی شعر یات میں عمل آور ہے۔ دوسری طرف مشرقی شعریات جو ( سنسکرت ‘ عربی اور فارسی روایات پر مبنی ہے) کے تسلسل کی وہ تاریخ ہے جس کا ایک سِرا قبل مسیح سے جا کر ملتا ہے۔
گوپی چند نارنگ اس حوالۂ معترضہ کے ساتھ کہ فکر کا رویہ ایشیائی ذہنی اکتسابات کے ساتھ ( بالعموم ) افسوس ناک حد تک جانبدار انہ رہا ہے‘ ایڈورڈ سعید کے ہم خیال ہیں۔ وہ نہ صرف یہ ثابت کر تے ہیں کہ جدید مغربی ساختیاتی تصورات اور مشرقی شعریات میں بہ یک وقت عدم استحکامِ معنی یا زیر دستی معنی اور بالا دستی لفظ جیسے ہم مشابہ تصورات ایک دوسرے کے موَثق ہیں بلکہ لفظ ومعنی یا لسان کی بحث کے ذیل میں تصورِ لفظ سے متعلق جو تر جیحات ساختیات وپس ساختیات نے قایم کی ہیں ان کا سر چشمہ اصلاً دانش مشرق میں موجود ہے جسے ہم نے بھلا دیا ہے اور جس کی بازیافت کی ضرورت ہے۔
مشرق میں سنسکرت شعر یات وفلسفہ لسان اور نحویات کی تاریخ از یاسک (تقریباً ۴۰۰ قبل مسیح ) تا جے دیو( ۱۳ ویں صدی عیسوی) کم وبیش ۱۷ سوبرسوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ ان قواعد دانوں ‘ مفکّروں ‘ ناٹیہ شاستروں اور شعریات کے اساس گروں نے اپنے اپنے صیغوں میں جن تصورات کی تشکیل کی ہے گوپی چند نارنگ نے ان میں سے صرف انھیں کو اپنے موقف کا حوالہ بنایا ہے جن میں ساختیات وپس ساختیات کے بنیاد ی معائر ہم مشابہ تھے۔
سوسیئر کا تصور لسان المعروف بہ ساختیات اصلاً سنسکرت قواعدداں پاننی (۴۰۰قبل مسیح ) کی عطا ہے۔ جس میں لفظ کی حیثیت حکم کی ہے۔ میما نساوالے بھی اسی تصور پر قائم ہیں‘ نیا یے روایت ‘ میں سوسیئر کی مانند لفظ ومعنی کے رشتے کو خود مختار ‘ خودرو اور غیر منطقی قرار دیتے ہیں۔ویا ڈی اور بھر تری ہر ی کا تصور ورویہ ‘ لانگ Langueسے مماثل ہے۔ دریداکا تصور رد تشکیل میں معنی کی تفریق یعنی نظر یہ افترا قیت ، بودھی نظر یہ اپوہ سے مطابقت رکھتا ہے اور ناگا ر جن ( بودھی مفکر) کا تصور شونیہ ‘ بھی دریدا کے معنی کے دوسرے پن otherness کے موافق ہے کہ ہر معنی اپنے ماسوا کی نفی پر استوار ہے۔اس لیے اس کی قدر محض امکان سے قائم ہوتی ہے جو ہمیشہ صیغۂ غیاب میں ہو تا ہے۔ شونیہ‘ کے تصور میں بھی ہر معنی اپنے معنی کار د ہے اور جس کی انتہا شونیہ ہے‘ گویاشونیہ ہی منتہا ئے حقیقت ہے۔گوپی چند نارنگ کے علاوہ رابرٹ میگلیو لا بھی شونیہ اور دریدا کی رد تشکیلی فکر میں گہری مماثلت دیکھتا ہے۔ اس طرح تصور رس جس کی اساس جذبے اور تاثر کے تفاعل پر رکھی گئی ہے بقول نارنگ قاری الاصل اور ڈراما کو ذہن میں رکھتے ہوئے ناظر الاصل ہے۔ کیوں کہ بھاؤ کا اثر رس نہیں ہے بلکہ بصارت ‘ سماعت یا قر أت کے حوالے سے جو حظ اور انبساط کی کیفیت یا احساس بر انگیخت ہو تا ہے وہی رس ہے‘ جو مطلق نہیں ہو تا بلکہ بصیرتوں کے اختلاف کے ساتھ اس کی نوعیت میں بھی تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔
گوپی چند نارنگ نے نئے علمی تناظر میں نہ صرف سنسکر ت شعریات کو نئے معنی اور نیا ربط دینے کی سعی کی ہے بلکہ اسی اندازِ فکر کے ساتھ عربی اور فارسی نظام شعریات کی تاریخ کو بھی بالکل نئی نظر سے دیکھا ہے۔ محض تاریخ کی بازگوئی ایک محدود عمل ہے جسے دوسروں نے بھی انجام دیا ہے۔ گوپی چند نارنگ نے ایک طرف ساختیات کی روایت سے اس کے ڈانڈے ملائے ہیں اور سنسکرت شعریات کی طرح اسے بھی ساختیات کا بعیدی پیش رو قرار دیا ہے‘ بلکہ ان تضادات اور تنا قضات کو بھی رفع کر نے کی سعی کی ہے‘ جو مشرق کی عظیم تر وحدت علمی کے تصور میں ہار ج ہیں۔ گویا ضمنی اور ذیلی اختلافات کے باوجود عرب وعجم تا برّ صغیر ہند ایک وسیع تر ذہنی یک جہتی پائی جاتی ہے۔
عربی میں قتیبہ ( تیسری صدی ہجری) اور جاحظ (تیسری صدی ہجری) لفظ کو مقتدر ‘ حَکَم اول اور افضل مانتے ہیں۔ جاحظ تو یہاں تک کہتا ہے کہ معانی پیش پا اُفتادہ ہو تے ہیں۔ معنی پر لفظ مر جح ہی نہیں بلکہ معنی اس کاتابع محض ہے۔ جب کہ قدامہ بن جعفر ( چوتھی صدی ہجری) معنی پر دلالت کر نے کو شعر کا لا زمہ قرار دیتا ہے۔ اس کا قو ل کہ کلام موزوں ومقفی جو کسی معنی پر دلالت کر ے شعر ہے ہمارے لاشعور کاحصہ بن چکا ہے نیز یہ کہ سب سے بہتر شعر وہ ہے جس میں میں سب سے زیادہ جھوٹ ہو تا ہے، بھی معنی کی طرف راجع ہے۔ مگر اس نے ان خیالات کا اظہار جس میں اخلاق اور عریانی ومضمون کی پستی جیسے مسائل بھی زیر بحث آگئے ہیں‘ معنی کے تحت کیا ہے نیز لفظ ‘ وزن اور قافیے کے ساتھ معنی کو بھی شعر کا عنصر قرار دیا ہے۔ لفظ کی بحث میں اس نے الفاظ کو شعر کی روح کے نام سے یاد کیا ہے اور طرز بیان کہ جس کا تعلق شعری تلفیظ poetic dictionاور اسلوب سے ہے شعر کا اصلی جزو قرار دیا ہے۔ یہاں بھی وہ صریح طور پر ترجیحِ لفظ کی طرف راجع ہے۔ ابن رشیق‘ لفظ ومعنی کو جسم وجاں کے رشتے سے تعبیر کر تا ہے کہ معنی اس کا جزو لا زم ہے۔ عبدالقادرجر جانی بہ قول نارنگ وہ پہلا شخص ہے جس نے اپنی معرکۃ ُالآرا تصنیف موسومہ’ دلائل الاعجاز‘ میں لفظ ومعنی کی بحث میں سوسیئر کی پیش رَوی کی ہے۔ اس ضمن میں اس کا موقف واضح ہے کہ لفظ ومعنی میں کوئی لازمی یامنطقی ربط نہیں ہو تا۔ اجتماع کے ما بین معنی کا ربط محض make-believe کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ ابن خلدون ( آٹھویں صدی ہجری) کے تصورات شعر میں بھی ترجیح لفظ کا موقف زیادہ حاوی ہے۔ مقدمہ کے باب بہ عنوان ’’فنی ان صناعۃ النظم والنثر انما ہی فی الالفاظ لا فی المعانی۔‘‘ میں وہ قطعی وضاحت کے ساتھ معنی کے مقابلے میں لفظ کو مر جح قرار دیتا ہے۔ وہ لکھتا ہے:
’’ماہرین کلام کو نظم ونثر میں جو خوبیاں بر تنی پڑتی ہیں یا اسالیب استعمال کر نے پڑتے ہیں وہ از قسم لفظ ہیں، معانی کی قسم سے نہیں ہیں۔ اصل تو الفاظ ہیں اور معانی ان کے تابع ہیں۔ اسی لیے نظم ونثر میں ملکہ پیدا کر نے والا پوری توجہ الفاظ پر لگاتا ہے ۔ ۔ ۔ اور ظاہر ہے زبان اور گویائی کا تعلق الفاظ سے ہے نہ کہ معنی سے۔ کیوں کہ وہ تو دل میں ہوتے ہیں‘ زبان وگویائی سے انھیں کوئی مطلب نہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ معانی کچھ نہ کچھ ہر ایک کے ذہن میں ہو تے ہیں، جو وہ اپنی فکر ی طاقت کے مطابق ظاہر کر سکتا ہے‘ ان کے سیکھنے کے کچھ معنی نہیں۔ ان کو الفاظ کاجامہ پہنا نا اور کلام کی شکل دینا یہ البتہ ایک صنعت ہے، جس کی مشق کرنی پڑتی ہے۔‘‘(ترجمہ: سید محمد ہاشم)
اس کے بعد ابن خلدون پانی اور ظروف کی اس مثال کے ذریعے الفاظ ومعانی کی بحث کوآگے بڑھا تے ہیں جس کا حوالہ حالیؔ نے اپنے مقدمے میں دیا ہے۔ خلدون کا اصرار محض اس امر پر ہے کہ ۔ ۔ ۔ معانی ایک ہی ہو تے ہیں۔اپنے حسن بیان سے ہر شخص اپنی لیاقت وصلاحیت کے مطابق مختلف ظروف کی طرح الفاظ کے مختلف سانچوں میں معانی کوڈھال لیتا ہے۔
فارسی میں نظامی عروضی سمر قندی اور وطواط بھی جہاں صنائع کے کر دار پر بحث کر تے ہیں بہتر شعر اسے مانتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ معنی آفرینی کا جو ہر اور اثر کی قوت رکھتا ہے۔ اس طرح مجازواستعارہ بھی ادائے معانی کی صورتیں ہیں۔ اِبداع ‘ اختراع ‘ یا تولید کے تحت معنی آفرینی بھی معنی کے بسط کو وسیع تر کر نے کی سعی سے عبارت ہے۔
شعر کو مشرق ومغرب میں جہاں من جملہ فن اور صناعی سے تعبیر کیا گیا ہے اور اسے شعور کے تابع بتایا گیا ہے وہاں اُلو ہی فیضان کا بھی اقرار ملتا ہے۔ مشرق میں جسے آمد کہا گیا ہے اسے ہم لاشعور کی عمل آور ی کانتیجہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ابن قتیبہ نے اس قسم کی شاعری کو مطبوع کے تحت اخذ کیا ہے اور وہ شاعری جو بہ ظاہر سعی وارادے نیز فکر وصناعت کے ذیل میں آتی ہے اسے صنائع اور متکلّف کے تابع بتا یا ہے۔ تخلیق شعر میں عمل وارادے کے باوجود ذہنی سرگرمی کی محسوس حالتو ں کو یکسر تفا عل عقلی کا نام نہیں دیا جاسکتا ہے۔
متذکر ہ ہردو صورت میں ایک طرف زبان کا از خود عمل‘ تخلیق شعر کا موجب ہے اور زبان موجود حقیقت کو نا م دینے کے بجائے نئی حقیقت کی جنم داتا ہے۔ دوسری طرف معنی کی وہ صورتیں پیدا ہیں جو نہ قطعی ہیں اور نہ ہی غیر مبدّل ۔ اس طرح تنقید وتفہیم شعر اتنا آسان عمل نہیں رہ جاتا ۔
اس میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں کہ معنی کی کوئی تشریح ‘ تفہیم یا تعبیر آخری نہیں ہو تی۔ بالخصوص ادبی متن میں معنی اپنے جلو میں کثرت معنی کا حامل ہو تاہے اور مختلف بصیرتوں کے ساتھ اس کی ترسیل بھی مشرو ط ہو تی ہے گو یا تاثیر معنی اصلاً ترسیل معنی کی ایک سطح ہے اور یہ عمل اتنا محسوس وغیرہ محسوس طور پر رونما ہو تا ہے کہ بہت کچھ کو فہم کا حصہ بنا نے کے باوجود یہ ایک دعویِمحض ہی ثابت ہو تا ہے کہ ہم نے سب کچھ پا لیا ہے۔ اس معنی میں متن ایک مسلسل ومستقل سر چشمہ معنی بھی ہے اور ہر صاحب تجربہ کے ساتھ اس کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے‘ گویا وہ متن پھر وہ متن نہیں رہتا جسے مصنف نے خلق کیا تھا بلکہ تبدیلی کی حد تک قاری کا زائدہ ہو جاتا ہے۔ یہ تمام بحثیں نارنگ نے قاری اساس تنقید کے تحت اٹھا ئی ہیں۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ تصور کہ لفظ اور بالخصوص تخلیقی لفظ اندر متن ‘ یکتائی معنی کے رد سے عبارت ہے اور نیو کر ٹسزم کے نظر یہ سازوں نے تفاعل متن کے آزاد کر دار پر بنائے فوقیت رکھی تھی۔ اس کے پیچھے بھی گنجینۂ معنی کا تصور کار فرما تھا۔ مگر اس خصوص میں متن مبدٔ سلسلہِ معنی تھا جب کہ ساختیات نے مبدئِ معنی کا سرچشمہ قرأت کے حوالے سے قاری کو ٹھہرایا۔اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ مصنف کے درجے اور متن کے تعلق سے تمام ماہرین ساختیات یک زبان ہیں۔(مصنف پر بحث آگے ہے)یہ تمام دانشور دور ان قرأت قاری کے اس ذہنی تفاعل اور سر گرمی کو بھی تشکیل معنی کے عمل میں شریک کر تے ہیں جو متن کو اپنی ہر قرأت کے ساتھ ایک نیا مفہوم عطا کر تاہے۔ اس معنی میں صرف تاکید بدلی ہے‘ مصنف کا کلی ردّ ہر گز نہیں ہے۔اس کا معنی کا مقتدر اعلی ہو نا چیلنج ہوا ہے نیز یہ کہ متن مصنف بذاتہٖ موضوع نہیں ہے بلکہ وہ ایک مستقلاً معروض ہے‘ وہ کسی خاص لمحہِ زماں میں ادا کیا ہوا خیال‘ کوئی کیفیت ‘ کوئی حقیقت یا سیاّل ونا میاتی حقیقت ہے۔ مصنف کا کام متن کی آخری سطر کے آخری لفظ پر ختم ہو جاتا ہے۔ معنی ملفوظ کی گر ہیں کھولنے والا محض قاری ہوتا ہے،اس طور پر وہ گرہ کشا ئیِ معنی بھی کر تا ہے اور نئے معنی بھی قایم کرتاہے۔گذشتہ قایم شدگیِ معنی کو مسترد بھی کر تا ہے اور سابقہ میں توسیع واضافہ بھی کر تا ہے۔ اس طرح نئے معانی کی یافت کے حوالے سے تبدیل شدہ متن کا خالق قرأت کا تفاعل ہے نہ کہ وہ مصنف جو اپناکام ختم کر کے پر دۂ غیاب میں چلا گیا ہے۔
سوال یہ اٹھتاہے کہ قرأت اگر مبدئِ متن ہے تو مصنف کا درجہ کیا ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مصنف فرد واحد ہے اور اس کے مقابلے میں قرأت کے تفاعل کی حیثیت سلسلۂ جاریہ کی ہے جو ہر تاریخی ‘ تہذیبی ‘ سماجی اور لسانی تناظر میں برقرار رہتی ہے۔ عالمی ادب کے تناظر میں ان تخلیقات وتصنیفات کی تعداد کا بھی کوئی شمار نہیں ہے جو نا معلوم الاسم مصنفین کی ذہنوں کا کرشمہ ہیں۔ ان تخلیقات وتصنیفات نیز اساطیر‘ مہماتی وتلمیحاتی قصوں اور داستانوں ‘ رومان پاروں romancesاور نظموں کے بنیادی تھیم ‘ فضا‘ کرداروں اور اسالیب کو یونانی کلاسیکس سے لے کر عہدِ موجود تک اخذو مقتبس کیا جاتا رہا ہے۔ ان کی تفہیم وتحلیل ایک علاحدہ باب ہے۔ اسطوری اور باستانی قصص‘ آر تھرین رومان پاروں یا تمثیلی اور نیم تمثیلی بیانیہ قصوں وغیرہ پر فلپ وہیل رائٹ ‘ نارتھروپ فرائی ‘ کے۔ کے رتھرین ‘ جان ۔ بی ۔ وِکری یا جان اسٹیونس وغیرہ کے محاکموں اور سی۔ جی یُنگ‘ ‘ جمیس فریزر ‘ ما ڈباڈ کن اور جیسی ویسٹن وغیرہ کی ماضی فہمی ‘ اسطور فہمی اور تہذیب وتاریخ کے نئے رشتوں کی دریافت میں اخد نتائج کے اعتبار سے باہمی مماثلتو ں کے علاوہ جو بعد واختلاف پایا جاتا ہے وہ ان نقادوں کے اپنے علمی وذہنی پس منظر اور تحلیلی طریق رسائی کا نتیجہ ہے۔ تاریخ و ماقبل تاریخ کا ادب اس لیے بھی دلچسپی کا ایک اہم ترین اور مسلسل موضوع رہا ہے کہ اس کے بیش تر مصنفین تا ہنوز پر دئہ غیاب میں ہیں۔
بالعموم نا معلوم الاسم مصنفین کی تصنیفات کی تفہیم کسی بھی قسم کی عصبیت سے پاک ہو تی ہے۔ ادب کی بنیادی قرائن conventionsسازی اور روایت کا ری میں ہمیشہ اس نوع کی مشتبہ apocryphal تصنیفات زبر دست حوالے کا حکم رکھتی ہیں‘ جنھیں ان کے نقاّدوں (قاریوں ) نے ممکن وموجود بنایا ہے۔مصنف کی معدومیت کے معنی قطعی یہ نہیں ہیں کہ تصنیف اپنے درجے میں کوتاہ ہو گئی ہے۔ اگر زبدۃ الرموز یا دیوانِ مخفی یا یوسف وزلیخا کے اصل مصنفین نامعلوم یا مشتبہ ہیں تو ان تصنیفات کی ادبی قدر بھی مشتبہ نہیں ہو گئی ہے۔ محمد حسین جاہ اور احمد حسین قمر جو طلسم ہوش ربا کی آٹھوں جلدوں کے بیان کنندہ ہیں، انھیں لفظی پیرائے میں منتقل کر نے والے میراحمد علی اور میر قاسم علی تھے‘ داستان میں تقریر سے لے کر تحریر تک تلفیظ dictionمیں کیا کچھ تبدیلیاں واقع ہو ئی ہیں یہ ایک علاحدہ تحقیق کا موضوع ہے۔ کسی تصنیف کے ایک سے زیادہ مصنف ہیں یا کسی تصنیف کے مصنف کانام ہی مشتبہ یا نا معلوم ہے یا کسی ادیب نے کسی موجود اور پہلے سے ادا کر دہ خیال‘ بنیادی تھیم یا کردار کو اخذومقتبس کر لیا ہے اس قسم کے تشابہات analoguesاقلیم ادب میں عام ہیں اور اساتذہ وعلمائے بلاغت نے اسے معیوب نہیں قرار دیا ہے۔ البتہ مشروط ضرور ہے کہ یا تو وہ اس معنی میں کسی نئے معنی کا اضافہ کر تاہو یا پیرایہ اظہار پہلے کی نسبت خوب وبہتر ہو۔

٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول