صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
نقد دل و جاں کا حساب
شرافت عباس ناز
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
کتاب میں پھر رکھا ہی کیا ہے
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
کہ اس سے ملنا ہو یا بچھڑنا
مرے لئے سب ہے ایک جیسا
وہ میری نس نس میں، میری رگ رگ میں
میری سانسوں میں موجزن ہے
وہ میری فطرت میں جذب ایسے
کہ جیسے خو شبو گلاب میں ہو
کہ جیسے مستی شراب میں ہو
یا جیسے کوئی اچھوتا قصہ
بہت ہی دلکش، بہت ہی پیارا
یا جیسے کوئی غزل مرصّع کتاب میں ہو
وہ میری فطرت میں، میری رگ رگ میں
میری نس نس میں یوں رچی ہے
وہ میری سانسوں میں یوں بسی ہے
کہ وہ نہ ہو تو یہ شاخ جاں ایک سوکھی ٹہنی
یہ جسم کاغذ کا پھول ٹھہرے
کہ وہ نہ ہو تو یہ دل کی مستی ، یہ میری ہستی
فضول ٹھہرے
غزل سے گر کوئی ذکر اس کا نکال دے تو
کتاب میں پھر رکھا ہی کیا ہے
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
کہ اس سے ملنا ہو یا بچھڑنا
مرے لئے سب ہے ایک جیسا
***
غزل
گلوں کی چاہ میں اندیشۂ قفس نہ کیا
سفر کڑا تھا مگر ہم نے پیش و پس نہ کیا
اسی پہ آج یہ افتادِ سنگ ہے جس نے
کبھی نظر کو بھی آلودۂ ہوس نہ کیا
وہ زخم کیا تھا جو پچھلے برس نہیں مہکا
وہ چاک کیا تھا رفو جس کو اس برس نہ کیا
نشاں بہت سے سجے سینکڑوں عَلَم اٹھے
ترے پھریرے کو ہم نے کسی سے مس نہ کیا
پھر اس کے بعد مری لاش کو کیا پامال
عدو نے صرف مرے قتل ہی پہ بس نہ کیا
وہ کیا جری تھا کہ چوبِ صلیب کہتی ہے
مجھے کسی نے بھی یوں مسکرا کے مس نہ کیا
***