صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
نانگا پربت کے جھرنوں میں
ڈاکٹر محمد اقبال ہماؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
{ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان}۔۔ اقتباس
مناظرِ فطرت سے لطف اندوز ہونے کا ذوق انسانی جبلّت میں شامل کر دیا گیا ہے اور ہر انسان فطری طور پر اِس ذوق کی تسکین کا خواہاں ہے۔ مختلف النّوع جذبوں کی طرح یہ بھی ایک ایسا جذبہ ہے جو ہر انسان میں کسی نہ کسی وقت ضرور ظاہر ہوتا ہے۔ اس جذبہ کی شدت میں کمی بیشی تو فطری ہے، اس کے وجود سے یکسر انکار ممکن نہیں ۔
پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے بلند و بالا پہاڑ، وسیع و عریض سبزہ زار اور پُر شور دریا اللہ تعالیٰ کی صنّاعی کا دلفریب شاہکار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی قدرت کاملہ پر ایمان کو مزید پختہ کر دیتے ہیں ۔ ہر شخص اپنے روزمّرہ کے ماحول سے فرار حاصل کر کے جب فطرت کے طلسمِ ہوشربا میں داخل ہوتا ہے تو ماحول کے سحر میں گرفتار ہو کر کچھ وقت کے لئے دُنیا کی اُلجھنوں سے آزادی حاصل کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلک بوس چوٹیوں سے آراستہ وطنِ عزیز کے کچھ علاقے جو اپنی خوبصورتی اور کشش کے باعث پوری دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، اوائلِ مئی سے ستمبر کے آخر تک کوہ نوردوں اور کوہ پیماؤں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں ۔ دنیا کے مختلف ممالک سے ہزاروں افراد سیزن کے دنوں میں ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں ۔ ان علاقوں کو کوہ نوردوں اور کوہ پیماؤں کی ارضی جنت سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔
ایک معروف یورپین ایڈوینچر رائٹر ’’ڈیوڈرچ‘‘ نے دنیا کے خوبصورت ترین پہاڑی مقامات کا موازنہ کیا ہے،اپنے تجزیہ میں وہ لکھتا ہے:
’’اگر دنیا کے ایسے خوبصورت ترین پہاڑی مقام کے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہو جہاں لوگ اپنی تفریحی چھٹیاں گزارنا پسند کرینگے تو جو مقامات فائنل کے لئے کوالیفائی کریں گے وہ غالباً یہ ہوں گے:
فرانس،سوئٹزرلینڈ اور اٹلی کے کوہِ ایلپس
نیپال کے اناپورنا اور ایورسٹ
سپین کا کوہِ سیرانویدا
جنوبی امریکہ میں ہزاروں میل میں پھیلا ہوا کوہِ اینڈیز
چلّی اور شمالی امریکہ کے آتش فشاں
نیوزی لینڈ میں جنوبی کوہِ ایلپس
واشنگٹن سے کولوراڈو تک پھیلے ہوئے راکی ماؤنٹینز
لیکن پاکستان کا وہ خطہ جہاں دنیا کی چودہ بلند ترین چوٹیوں میں سے پانچ موجود ہیں ، یہ انتخاب بلا مقابلہ جیت لے گا کیونکہ ان چوٹیوں کا دامن ان گنت خوبصورت جھیلوں ، قطبین کے بعد عظیم ترین گلیشیئرز اور دنیا کے بلند ترین وسیع و عریض سبزہ زاروں سے بھرا ہوا ہے۔ ‘‘
جانِ فردوس ہیں تیرے کوہ و دمن
زندہ باد اے وطن زندہ باد اے وطن
پاکستان کے یہ سحر انگیز علاقے اپنے چاہنے والوں کو قصّۂ حاتم طائی کے کوہِ ندا کی مانند ہر سال پکارتے ہیں اور یہ ممکن ہی نہیں کہ اس پکار پر دھیان نہ دیا جائے، چنانچہ ہزاروں پروانے بے بس ہو کران کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں ۔ مشہور سکاچ کوہ نورد، ما ہر ارضیات اور مصنّف جان موئر ایک جگہ لکھتا ہے:
’’ پہاڑ مجھے پکارتے ہیں تو مجھے جانا ہی پڑتا ہے۔ ‘‘
مجھے ان پروانوں میں شامل ہونے کا نہ تو دعویٰ ہے اور نہ ہی ہمت،البتہ زمانۂ طالب علمی میں چترال،سوات اور ناران سے شناسائی ہوئی تو شمالی علاقہ جات کی زیارت کا شوق پیدا ہوا جو غم روزگار کی بھول بھلیّوں میں گم ہو گیا۔ پانچ سال پہلے اسی خوابیدہ شوق نے انگڑائی لی تو گلگت اور ہنزہ کا رُخ کیا۔ راکا پوشی کے جلووں کی چھاؤں میں گزرے ہوئے یہ لمحات کتابِ زندگی کا ناقابلِ فراموش باب بن چکے ہیں ، لیکن اُسی دوران ایک خواہشِ ناتمام نے بھی دل میں بسیرا کر لیا تھا جو بار بار سر اُٹھاتی اور سختی سے کچلی جاتی رہی۔
میں ہارون آباد سے گلگت کے لئے روانہ ہونے لگا تو محترم ڈاکٹر ارشد صاحب ڈینٹل سرجن، اور ڈاکٹر محمد اسلم صاحب ڈپٹی۔ ڈی۔ ایچ۔ او نے نصیحت فرمانے کی کوشش کی :
’’دیکھو یار گلگت جا رہے ہو تو فیری میڈوز ضرور جانا۔ ‘‘
’’فیری میڈوز کیا چیز ہے اور کہاں ہے؟‘‘
’’تم نے فیری میڈوز کے بارے میں معلومات حاصل نہیں کیں ؟‘‘
ـ ’’نہیں ۔ ‘‘
’’پھر گلگت کیا کرنے جا رہے ہو؟‘‘
میں خاموش رہا۔
جواب میں ’’جھک مارنے ‘‘ کہتا تو ارشد صاحب کے ناراض ہونے کا خدشہ تھا۔ وہ بہت زود رنج انسان۔ ۔ ۔ ۔ سوری۔ ۔ ۔ ۔ زود رنج ڈاکٹر ہیں ۔
’’فیری میڈوز کا مطلب ہے پریوں کا مسکن !بلکہ پریوں کی چرا گاہ ! اور یہ نانگا پربت کے دامن میں ایک وسیع و عریض سبزہ زار ہے جو سیزن کے دِنوں میں پھولوں کے تختوں سے ڈھکا ہوتا ہے اور اپنے حسن و جمال کے لئے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ ‘‘ اسلم صاحب نے بتایا۔
’’آپ نے دیکھا ہے فیری میڈوز؟‘‘ میں نے ان کی معلومات سے مرعوب ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’ہم نے گزشتہ سال کوشش کی تھی لیکن تاتو گاؤں سے آگے نہ جا سکے، کیونکہ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے راستہ بند تھا۔ لیکن سُنا یہی ہے کہ فیری میڈوز قابلِ دید مقام ہے،اُسے خواہ مخواہ ہی تو پریوں کے مسکن سے تشبیہ نہیں دی گئی۔ ‘‘
٭٭٭