صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


نامکمل

اطہر فاروقی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

ہندستان کے انگریزی نظامِ تعلیم میں اردو نصاب کا مسئلہ


یہ مضمون اسکولوں کے اردو نصاب کے ان مختلف زاویوں کا احاطہ کرتا ہے جو بالخصوص چھٹی جماعت سے بارھویں جماعت کے سیاق و سباق میں اہمیت رکھتے ہیں۔ ہندستان کے اسکولوں کے نظام میں اردو کی تعلیم بالخصوص دو سطحوں پر دی جاتی ہے :
۱۔ بہ حیثیت ذریعۂ تعلیم
۲۔ ایک اختیاری مضمون کے طور پر
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اختیاری مضمون کے طور پر اردو زبان کی تعلیم بہ حیثیتِ زبانِ اول، دوم اور سوم دی جاتی ہے۔
تناظر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہندستان کے ان اسکولوں میں جہاں ذریعۂ تعلیم اردو نہیں ہے ، وہاں عموماً اور انگریزی ذریعۂ تعلیم کے  —  خصوصاً پبلک اور کونونٹ اسکولوں میں — اردو تیسری زبان کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ اردو تعلیم کا نظم اسکول انتظامیہ اور والدین کی خواہشات کے تابع ہوتا ہے۔
اسکول کی سطح پر نصاب کے سلسلے میں اردو اور دیگر زبانوں کے ذریعۂ تعلیم والے اسکولوں میں اختیاری مضمون کے طور پر اردو کی تعلیم و تدریس کا جائزہ اس مضمون کا بنیادی موضوع ہے۔ اگر انگریزی میڈیم کے اسکولوں میں اردو تعلیم کے نظم کی مجموعی سہولیات کا جائزہ لیا جائے تو لامحالہ انگریزی زبان کی تدریس کے لیے موجود مواد کا معیار اور دیگر متعلقہ پہلو زیرِ بحث آئیں گے۔ انگریزی میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اردو ہی نہیں بلکہ کسی بھی دوسری زبان کے نصاب اور اس کی تدریس کو اسی روشنی میں دیکھیں گے جو ان اسکولوں میں تعلیم کا عمومی معیار ہے۔ اگر اردو کی تدریس کا معیار وہ نہیں ہو گا جو ان اسکولوں میں پڑھائی جانے والی کسی بھی دوسری زبان کاہے ، تو طلبہ اردو کا مطالعہ نہیں کریں گے۔ اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ جو یائے علم ہوتے ہیں ، اردو سیاست کے شقاوت پسند شناور نہیں۔
بعض لوگ کہہ سکتے ہیں کہ اردو اور انگریزی کے تدریسی نظام کا موازنہ بے تکی بات ہے۔ یہ بات بالعموم وہ لوگ کہیں گے جنھوں نے کبھی اسکول کے نظام میں اردو کی تعلیم کے سوا ل پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا ہے۔ اردو اور انگریزی کے تدریسی نظام کا موازنہ بالکل فطری اس لیے بھی ہے کہ ہندستان  —   اور بیرونی ممالک کے ان اسکولوں میں بھی — جن کا الحاق ہندستان کے سیکنڈری اور سینئر  سیکنڈری بورڈوں سے ہے ، وہاں اردو اور انگریزی دونوں ہی پہلی، دوسری اور تیسری زبان کے طور پر پڑھائی جاتی ہیں۔
اگر ہم ہندستان میں اردو زبان کے موجودہ نصاب کا جائزہ لیں تو بلا تکلف اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ایسا تدریسی مواد تیار کرنے کی کوئی کوشش کی ہی نہیں گئی جو اردو زبان کی فہم اور اردو ادب کو سمجھنے میں اسکولوں میں زیرِ تعلیم طلبہ کی مدد کر سکے۔
ہندستان میں ایسے کئی ادارے ہیں جو مختلف ریاستوں میں مختلف تعلیمی بورڈوں کے لیے نصابی کتابیں تیار کراتے ہیں۔ این۔سی۔ای۔آر۔ٹی۔ National Council of Educational Research and Training کے نام سے سبھی واقف ہیں جو دہلی اور ملک کے دیگر مقامات پر خاص طور سے سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن CBSE سے الحاق شدہ اسکولوں کے لیے کتابیں نہ صرف تیار کراتی ہے بلکہ انھیں چھاپ کر رعایتی نرخ پر طلبہ کو فراہم بھی کرتی ہے۔ اردو نصاب کی کتابیں تیار کرانے کا کام مختلف صوبوں میں مختلف محکموں کے ذریعے ہوتا ہے۔NCERT ہی نہیں ، ریاستی حکومتوں کے مختلف محکموں کی جانب سے تیار کردہ نصابی کتابوں کو دیکھ کر صرف رونا آتا ہے۔ اگر دوسری زبانوں کے اس تدریسی مواد سے جو این۔سی۔ای۔آر۔ٹی۔ اور ایس۔سی۔ای۔آرٹیز جیسے ادارے شائع کرتے ہیں ، اردو کی نصابی کتابوں کا موازنہ کیا جائے تو معیار میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ نصاب کی کتابیں تیار اور شائع کرنے والے ادارے حکومت کے سیاسی مقاصد بھلے ہی پورے کر دیتے ہوں لیکن ان کا تیار کردہ نصاب طلبہ میں اردو زبان کی فہم تو کیا اس کے ادب میں دل چسپی پیدا کرنے میں بھی قطعی ناکام رہا ہے۔ اردو کی کتابوں کا مواد ہی نہیں ان کی چھپائی وغیرہ بھی نہایت گھٹیا درجے کی ہوتی ہے۔ یہ کتابیں ان لوگوں کے ذریعے تیار کرائی جاتی ہیں جو اسکولی سطح پر کلاس روم میں پڑھانے کے طریقوں اور بچوں کی نفسیات سے قطعاً ناواقف ہوتے ہیں ، جنھوں نے Pedagogy کا لفظ بھی کبھی نہیں سنا اور اسکولی سطح پر نصاب کے معیار کا کوئی تصور جن کے ذہن میں نہیں۔
حکومت کے ذریعے نصاب سازی کرنے والے اداروں کے لیے اردو کتابوں کو تیار کرنے والے بالعموم اردو کے نام نہاد نقاد اور یونیورسٹی ٹیچر ہوتے ہیں (ہندستان کی کسی یونیورسٹی میں اردو کا ٹیچر بن جانا ہی نقاد ہونے کا دعویٰ کرنے کے لیے کافی ہے )۔ یہ حضرات نصاب کی کتابیں تیار کرنے کے کام کو محض پیسے کمانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ جو لوگ اسکولی سطح پر اردو پڑھانے کا کام کرتے ہیں ان میں سے اکثر اس بات پر کڑھتے رہتے ہیں کہ آخر وہ کیوں کسی یونیورسٹی میں اردو کے استاد کی نوکری پانے کا شرف حاصل کرنے سے محروم رہ گئے۔ اسکول کی سطح پر اردو کی تدریس سے وابستہ حضرات کی اکثریت اس نوکری کو اپنے لیے ایک سزا تصور کرتی ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ جس شخص کے پاس بھی اردو میں کوئی ڈگری ہے ، وہ یونی ورسٹی ٹیچر بننے یا کم از کم کسی ایسے کالج میں اردو ٹیچر (عرفِ عام میں لیکچرر، ریڈر اور پروفیسر) بنسنا او ووmرمائیں۔میری دستخط کی جگہ قی کتابیں‘ ایک ایک ای بک بنا دوں ہے۔ ے ماخوذ ہے                                              نے کی آرزو کرنے کے سوا کسی دیگر نوکری کی خواہش ہی نہیں کرتا۔ یہ خبط اس لیے بھی پیدا ہوتا ہے کیوں کہ اعلا تعلیمی اداروں میں اردو کا بر سرِ کار استاد طلبہ کو پڑھانے کے علاوہ دنیا کا ہر کام کرتا ہے۔ اردو کے ان اساتذہ کے اس عمل سے اردو گریجویٹوں کی ایسی نسلیں مستقل پیدا ہو رہی ہیں جن کی اکثریت اردو ٹیچر بننے کے ’سیاسی عمل‘ سے گزر کر مسلمانوں کی ’رہ نمائی‘ کے خواب دیکھنے لگتی ہے۔ بعد میں یہ جہلا ہی اردو کے پروفیسر بن جاتے ہیں۔ زبان کی تدریس جو کسی بھی استاد کا فرضِ اولین ہے ،زبان کی عمارت میں بنیاد کی اینٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس مرض کا احساس اب کالج اور یونیورسٹیوں میں بر سرِ کار اردو کے استادوں میں ختم ہوئے نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ گذر چکا ہے۔
ہندستان میں اردو کا ناقص تدریسی مواد انگریزی میڈیم اسکولوں میں اردو پڑھنے کے خواہش مند طلبہ کو اردو کی بجائے غیر ملکی زبانوں مثلاً فرانسیسی یا جرمن سیکھنے کی طرف زیادہ راغب کرتا ہے۔ غیر ملکی زبان ہونے کے باوجود ایک اختیاری مضمون کے طور پر فرنچ اور جرمن جیسی زبانوں کی تعلیم کے لیے ہندستان میں بے شمار اعلا درجے کی کتابیں اور دیگر سہولیات موجود ہیں۔ طلبہ محسوس کرتے ہیں کہ فرنچ اور جرمن اگرچہ ان کی زبانیں نہیں ہیں اور ہندستان میں یہ کہیں بولی بھی نہیں جاتیں ،1؎  پھر بھی ان زبانوں کی روح اور ان کے ادب کی تفہیم میں انھیں اس لیے سہولت ہو گی کیوں کہ ان زبانوں کے مطالعے کے لیے وہ سب کچھ موجود ہے جو کسی بھی زبان کی تعلیم کو مثالی بناتا ہے۔ جب ان غیر ملکی زبانوں میں ایک دفعہ طلبہ کی دل چسپی پیدا ہو جاتی ہے تو ان کے لیے نہ صرف کلاس روم کی تعلیم کا حصول آسان ہو جاتا ہے بلکہ متعلقہ سرگرمیوں مثلاً ٹرم پیپرز (Term Papers)، ہفتہ وار ٹیسٹ اور سالانہ امتحان میں بھی ان کی کار کردگی زیادہ بہتر ہوتی ہے ، جو اولاً ان طلبہ کے لیے کسی بھی اچھی یونیورسٹی کے بی۔اے۔ آنرز کورس میں داخلے اور بعدہٗ بہتر کیرئیر کے مواقع کی ضامن بن جاتی ہے۔ اچھی یونیورسٹیوں میں ان غیر ملکی زبانوں کے گریجویٹ کورسز میں طلبہ کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ انھیں اچھی نوکریاں بھی بہ آسانی مل جاتی ہیں اور اردو گریجویٹوں کے مقابلے میں ان کے حالات بھی نسبتاً بہتر ہوتے ہیں۔ دہلی جیسے شہر میں بھی کسی انگلش میڈیم اسکول کو جرمن یا فرنچ جیسی زبانوں کے اساتذہ کی تلاش میں بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ، غیر ملکی زبانوں کے ان ٹیچروں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے بڑی رقم بھی خرچ کرنی پڑتی ہے اور بالعموم یہ لوگ ہفتے میں صرف تین دن ہی پڑھانے آتے ہیں۔ غیر ملکی زبان کا ٹیچر علاحدہ سے سیاحوں کے لیے ترجمان اور مختلف ایجنسیوں کے لیے مترجم کے طور پر کام کر کے بھی اچھی خاصی کمائی کر لیتا ہے۔
***

ڈاؤن لوڈ کریں  

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں  مشکل؟؟؟

یہاں  تشریف لائیں ۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں  میں  استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں  ہے۔

صفحہ اول