صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
نئی صدی کا عذاب
افسانے
ایم مبین
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
یودھا
حوالات میں جو شخص داخل ہوا اُسے دیکھ کر دونوں حیرت میں پڑگئے ۔
" مگن بھائی ..... ! " دونوں کے منہ سے نکلا ۔
اپنا نام سن کر مگن بھائی نے چونک کر اُنھیں دیکھا اور پھر گھور اُنھیںکر پہچاننے کی کوشش کرنے لگا
دونوں مگن بھائی کے لئے نا آشنا تھے ۔ اِس لئے مگن بھائی کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں اُبھرا ۔ اُس نے ہاتھ میں پکڑے موبائیل فون پر ایک نمبر ڈائل کیا اور کسی سے بات کرنے لگا ۔
" ہیلو ..... میں مگن بھائی ہوں اور حوالات سے بول رہا ہوں ۔ کیا میری گرفتاری کی خبر ٹی وی پر نہیں دیکھی ۔؟ ارے حوالات مجبوری ہے ۔ سی ۔ ایم سے میں نے بات کی ہے ۔ اُنھوں نے مجھے سمجھایا کہ تمہارا معاملہ بہت بگڑ چکا ہے ، پورے ملک میں اِس سے ہنگامے ہورہے ہیں ۔ حالات کے تقاضے کے تحت تمہاری گرفتاری بہت ضروری ہے ۔ اِس لئے جاکر دو تین دِن تک حوالات میں آرام کرو ۔ بعد میں سارا معاملہ کس طرح ختم کیا جائے ؟ میں دیکھ لوں گا ۔ اِس لئے گرفتاری دینی پڑی اور حوالات میں ہوں ۔۔۔ ارے فکر کرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ یہاں مجھے ہر طرح کی سہولت مہیا کی جاے گی ۔ فون کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر مجھ سے ملنا ہو تو آزاد نگر پولس اسٹیشن آجانا ،سمجھے ۔ "
ابھی مگن بھائی نے موبائیل بند بھی نہیں کیا تھا کہ دو سپاہی گادی اور ضروری سامان کے ساتھ حوالات میں داخل ہوئے ۔ اُنھوں نے گادی فرش پر بچھا دی ، کُرسی ایک کونے پر رکھ دی ۔
" مگن بھائی اور کچھ چاہئے ؟ " دونوں نے بڑے ادب سے پوچھا ۔
مگن نے جیب سے سو روپے کا نوٹ نکال کر اُن کی طرف بڑھا یا ۔
ایک 555کا سگریٹ کا پیکٹ لے آنا ، باقی تم رکھ لینا ۔ "
دونوں سپاہیوں نے مگن بھائی کو سلام کیا اور حوالات کے باہر چلے گئے ۔ مگن بھائی گادی پر لیٹ کر سگریٹ پھونکنے لگا ۔
اُسی وقت موبائیل فون بجا ۔
" ہاں مگن بول رہا ہوں ۔ جو کچھ دیکھا سُنا سب سچ تھا ۔ اِس وقت حوالات میں ہوں ۔ ارے یہ سب ناٹک اور دِکھاوا ہے ۔ اپوزیشن اور عوام کے غصے کو ٹھنڈا کرنا ضروری تھا ۔ اگر میں چاہوں تو کل ہی گھر چلا جاؤں گا ، کاغذ پر میرا ریمانڈ رہے گا اور میں بنگلے میں آرام کروں گا ۔ سب سیٹنگ ہوگئی ہے ، گھبرانے کی کوئی بات نہیں ۔ "
اس کے بعدمسلسل آٹھ دس فون آئے ۔ سب سے مگن بھائی نے اِسی طرح کی باتیں کی ۔
دونوں ایک کونے میں بیٹھے چپ چاپ مگن بھائی کا تماشہ دیکھتے رہے ۔ اُنھیں مگن بھائی کو حوالات میں دیکھ کر بڑی خوشی ہورہی تھی ، وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے ۔ وہ آج حوالات میں اُس کمرے میں ہیں جس میں مگن بھائی بھی ہے ۔ لیکن آج ایک بات دِل کو کچوک رہی تھی ۔
مگن بھائی جس طرح حوالات میں تھا اور اُسے حوالات میں جو آرائشیں میسّر تھیں ، اُنھیں اس پر شدید غصہ آرہا تھا ۔
حوالات میں تو وہ بھی تھے ۔
سویرے اُنھیں گرفتار کرکے حوالات میں ڈالا گیا تھا لیکن اُنھیں نہ پینے کے لئے پانی ملا تھا اور نہ کھانے کے لئے کھانا ۔
اُن کے لئے گھر سے جو کھانا آیا تھا ، ڈیوٹی پر تعینات سپاہی چٹ کرگئے تھے ۔
اور مگن بھائی کو ..... ؟
دونوں کے جرائم میں زمین آسمان کا فرق تھا ۔ اُنھوں نے ایک معمولی جھگڑا اور مارپیٹ کی تھی جو کوئی سنگین جرم نہیں تھا ۔ مگر جس کے ساتھ مارپیٹ کی تھی اُس کا اثر و رُسوخ بہت زیادہ تھا ۔ اور اِس وقت ریاست میں سیاسی رسُوخ کا ہی راج تھا ۔ اِس لئے اُنھیں فوراً گرفتار کرلیا گیا ۔ راستے بھر پٹائی ہوتی رہی ، حوالات میں ڈالنے کے بعد تو سپاہیوں نے اُنھیں اور بھی زیادہ بے دردی سے مارا تھا ۔
" سالو ..... حرام زادو ! پریم جی بھائی سے اُلجھتے ہو ، جانتے ہو ، پریم جی بھائی کون ہے ؟ سی ۔ ایم کا خاص آدمی ہے ۔ تم لوگوں نے سی ۔ ایم کے خاص آدمی سے مارپیٹ کی ؟ اگر سی ۔ ایم کا فون آیا تو فساد کے الزام میں پوٹا لگا کر زندگی بھر جیل میں سڑا دیں گے ۔ تمہارے ایریی میں فساد میں مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا ہے ۔ سیکڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا ہے ۔ لیکن اوپر سے آئے حکم کے مطابق ہم نے ابھی تک ایک بھی فسادی گرفتار نہیں کیا ہے ۔ اگر پریم جی بھائی نے کہہ دیا تو تمہیں فساد کے جرم میں گرفتار کرلیں گے ۔ ہمارے لئے ایک پنتھ دو کاج ہوگا ۔ لیکن تم اپنا انجام سوچ لو ........... ! "
پریم جی بھائی سے اُلجھتے وقت اُنھیں اندازہ تھا کہ اس کا انجام کیا ہوسکتا ہے ۔ ان عام باتوں کے لئے اُنھوں نے اپنے آپ کو پہلے سے تےّار کرلیا تھا ۔ ان سے ڈر کر کام نہیں چل سکتا تھا ۔ پریم جی بھائی کو سبق سکھانا بہت ضروری تھا ۔ اِس لئے وہ اُس سے اُلجھ پڑے ۔
اِس لئے اُن کے ساتھ جو کچھ ہو رہا تھا اس کو وہ برداشت کررہے تھے ۔ لیکن اُنھیں یہ بات کچوک رہی تھی کہ اُنھوں نے کوئی سنگین جرم نہیں کیا تھا ۔ پھر بھی اُن کے ساتھ جانوروں سا سلوک کیا جارہا ہے ۔ لیکن ایک سنگین جرم کرنے والے وحشی ، درندے کو شاہانہ ٹھاٹ باٹ سے حوالات میں رکھا گیا ہے ۔
اُنھوں نے سویرے پریم جی بھائی سے مارپیٹ کی اور آدھا گھنٹے کے اندر حوالات میں تھے ۔
مگن بھائی نے جو جرائم کئے اُنھیں مہینوں ہوگئے ہیں پھر بھی وہ آزاد تھا ۔ ایک ماہ پہلے شکیلہ نے ایک اپوزیشن لیڈر کے سامنے بیان دیا تھا کہ مگن بھائی نے اُس کے ساتھ وحشیانہ غیر انسانی سلوک کیا ہے ۔
شکیلہ کے اس بیان کو کئی ٹی وی چینل کے کیمروں نے قید کیا تھا ۔اور پھر اس بیان کو ساری دُنیا میں بتایا گیا تھا ۔
اس اپوزیشن کے لیڈر نے اس بات کو پارلیمنٹ میں اُٹھایا تھا اور وزیر داخلہ سے مگن بھائی کی گرفتاری کی مانگ کی تھی ۔
لیکن ریاست کے سی ۔ ایم اور خود وزیر داخلہ نے اُسے مگن بھائی کے خلاف ایک سازش قرار دے کر گرفتاری کی درخواست مسترد کردی تھی ۔
جب کئی ممبران نے اُس کے خلاف آواز اُٹھائی تو وزیر داخلہ نے اعلان کردیا ۔ ہم اِس معاملے کی تحقیقات کررہے ہیں اور اگر مگن بھائی کو خطا وار پایا گیا تو اُس کے خلاف ضروری قانونی کاروائی کی جائے گی ۔
ہر کوئی جانتا تھا کہ مگن بھائی خطا وار ہے ۔ اُس نے بڑے بھیانک انسانیت سوز جرائم کئے ہیں کہ اگر اُسے دس بار بھی پھانسی پر لٹکایا گیا تو بھی اُس کی سزا کم ہوگی ۔
لیکن مگن بھائی کا تعلق سی ۔ ایم اور وزیر داخلہ کی پارٹی سے تھا ۔ وہ اُن کی پارٹی اور اُس کی ذیلی پارٹیوں کا سرگرم رُکن تھا اور اِس بات پر فوراً عمل کرتا تھا جس کا حکم اُس کی پارٹی یا ذیلی تنظیمیں دیتی تھیں ۔ پھر بھلا ایسے سرگرم رُکن کے خلاف کس طرح کوئی کاروائی کی جاسکتی ہے اور اِن کی پارٹی اور ذیلی تنظیموں کی نظر میں تو مگن بھائی نے کوئی جرم ہی نہیں کیا تھا ۔
انسانیت اور قانون کی نظر میں مگن بھائی کے کارنامے شاید گھناونے ، وحشیانہ اور سنگین جرائم ہوں گے ۔ لیکن اُن کی پارٹی کی نظر میں یہ کوئی جرم نہیں تھا ۔ کیونکہ اُن کی پارٹی کی نظر میں اِس طرح کی حرکتوں کا اِرتکاب دھرم کا پالن تھا ۔ اور مگن بھائی نے پارٹی تنظیم کے دھرم کا پالن کیا تھا ۔ اِس لئے ایسے دھرم یودھا کی حفاظت کے لئے پارٹی اور تنظیم فولادی دیوار بن کر کھڑی تھی ۔
دُنیا کے تمام اخلاقیات کے اُصول ، درس بالائے طاق ۔ ہمارے یودھا نے جو کچھ کیا وہ دُرست ۔ ہم بھلے اپنے آپ کو بہت با اخلاق ، باکردار ظاہر کریں لیکن اپنے مفاد ، اپنے مقصد کے حصول کے لئے سارے اخلاقی ، انسانی ، قانونی ضوابط کو روندنا ہمارا مقصد ہے ۔
جس پارٹی کے اُصول ہی یہ ہوں وہ مگن بھائی جیسے یودھا کیوں نہ پیدا کریں ؟ اور یہ یودھا مگن بھائی جیسے کارہائے نمایاں انجام کیوں نہ دیں ۔
ساری دُنیا جن کاموں پر تھوکیں ، اُن کاموں کو انجام دینے میں بھی نہ تو کوئی جھجھک محسوس کرے نہ دُنیا کے تھوکنے پر شرم آئے ، نہ غیرت محسوس ہو ، نہ اپنے کسی کام پر پشیمانی محسوس ہو ۔ مگن بھائی جیسے یودھاؤں کو جب تےّار کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے اُن کے ضمیر کو ختم کردیا جاتا ہے ۔تاکہ کسی کام کو کرتے وقت وہ اُنھیں اس کام کو کرنے سے نہ روکے اور نہ ہی وہ ضمیر کی آواز پر لبیک کہیں ۔
لبیک کہیں تو صرف پارٹی اور تنظیم کی آواز، اُن کے حکم پر ۔ اِس لئے سارے ملک اور دُنیا کے کئی ممالک سے شور اُٹھتا رہا ۔ حقوق انسانی کی تنظیمیں واویلا مچاتی رہی ۔ پھر بھی مگن بھائی دندناتا ہوا گھومتا رہا ۔ وزیر داخلہ سے سی ۔ ایم تک اِس کی ہر بات کا دفاع کرتے رہتے ۔
روزانہ نئے نئے چینل شکیلہ کے انٹرویو دِکھاتے ۔ اخبارات شکیلہ کی کہانی کو کوراسٹوری بناتے اور مگن بھائی کے گناہ تازہ ہوجاتے ۔ انسانیت کے پرستار اِس حیوانیت کے خلاف آواز اُٹھاتے اور مگن بھائی اسے کتوں کا بھونکنا قرار دیتا ۔ پارٹی اپنے یودھا کا دفاع کرتی ۔
لیکن ایک دِن آخر وہ ہولناک منظر سامنے آہی گیا جس کی اب تک لوگوں نے کہانیاں سُنی تھیں۔ اب تک شکیلہ اپنے ہر انٹرویو میں بتاتی تھی کہ کس طرح مگن بھائی نے اُس کے گھر کے ہر فرد کو زندہ جلایا ہے ۔ اُس کے بوڑھے باپ کے سینے میں ترشول مار کر اُسے دہکتی آگ میں پھینکا۔ اُس کی ماں کو جلتی آگ میں ڈال دیا ۔ اُس کے دونوں بھائیوں کو ترشولوں سے مار مار کر جلتی آگ میں ڈھکیلا ۔ اُس کی چھوٹی بہنوں کے نسوانی اعضاء کو ترشول سے گھائل کیا اور پھر اُنھیں آگ دِکھا دی ۔
اور اس کے ساتھ ۔
اس کے ساتھ تیس چالیس یودھاؤں نے بلاتکار کیا ۔
اور مگن نے اپنے ہاتھ سے اُس کے سینے پر چاقو سے " جے شری رام "لکھا ۔وہ اس لئے نہیں ماری گئی کیونکہ اسے یودھاؤں کی حیوانیت کو سیراب کرنا تھا ۔
وہ اس لئے بچ گئی کہ آخری یودھا جب اس سے سیراب ہوکر گیا تو دوسرے یودھا کے آنے میں تھوڑی تاخیر ہوگئی ۔ اِس دوران اُس نے خود کو سنبھال لیا اور موقع ملتے ہی اس جگہ سے بھاگ نکلی اور کسی طرح گرتے پڑتے ایک اسپتال پہونچ گئی ۔
جہاں علاج کرنے کے بعد اُس کی جان بچا لی گئی ۔
لیکن اپنے اس آخری انٹرویو میں اس نے اپنا سینہ کیمروں کے سامنے کردیا ۔
ایک جوان لڑکی کا نرم گداز سینہ ۔
جس پر چاقو کی نوک سے لکھا " جے شری رام " صاف دِکھائی دے رہا تھا ۔
اُسے دیکھ کر ہر کوئی دہل اُٹھا ۔
یہ ہے اُس درندے مگن بھائی کے گناہ کا ثبوت ... جسے یودھا قرار دے کر وزیر داخلہ سے سی ۔ ایم تک بچانے کی کوشش کررہا ہے ۔
اِس منظر کو دیکھ کر انسانیت کانپ اُٹھی ۔ جس نے بھی ٹی وی پر تصویروں میں شکیلہ کا سینہ دیکھا ، کانپ اُٹھا ۔
ایک جوان لڑکی کا گداز سینہ دیکھ کر بھی کسی کے دِل میں ہوس کا جذبہ پیدا نہیں ہوا ۔
ہر کسی نے لعنت ملامت کی اور غم اور غصے کی ایک لہر پورے ملک میں دوڑ گئی ۔ اور آخر ارباب اقتدار کو مگن بھائی کی گرفتاری کا آرڈر دینا پڑا ۔ مگن بھائی گرفتار کیا گیا اور ان کے ساتھ حوالات میں تھا ، کس طرح تھا ؟ اُنھیں خود شرم آرہی تھی ۔
دونوں شکیلہ کو بہت اچھی طرح جانتے تھے ۔
شکیلہ ایک اسکول میں ٹیچر تھی ، اُن کے محلے میں ہی رہتی تھی ۔
اور دونوں کے بچے اُس کے پاس ٹیوشن پڑھنے جاتے تھے ۔
جب بھی سامنا ہوتا تھا ۔ مسکراکر ان سے ملتی تھی ۔ اور اُن کے بچوں کے بارے میں بتاتی تھی ۔
" اشوک بھائی ! اتُل میتھس میں تھوڑا کمزور ہے ، میں اسے ٹھیک کرلوں گی ، لیکن گجراتی پر بھی دھیان دیں ۔ "
" وِنے بھائی ! وِملا کی انگریزی اچھی نہیں ہے ، بہت محنت کرنی پڑے گی ۔ "
اس شکیلہ کے ساتھ اور اس کے خاندان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اچھی طرح جانتے تھے ۔
اُنھیں تو بہت بعد میں معلوم ہوا کہ شکیلہ کے اور اس کے خاندان والوں کے ساتھ کیا ہوا ہے ۔ مگر اُنھیں علم تھا کہ اگر اُنھیں اس وقت بھی معلوم ہوجاتا جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو بھی وہ کچھ نہیں کرپاتے۔
یودھاؤں کی پوری فوج انسانیت کو تاراج کرکے اپنے افکار کا جھنڈا گاڑنے نکلی تھی ۔ اور اِس فوج کے ساتھ حکومت ، مشنری ، اقتدار سب کچھ تھا ۔ اِس لئے جو کچھ ہوا اُس پر صبر و شکر کرلینا کافی ہے ۔ شاید اس سے بھی زیادہ کچھ ہوجاتا .... یا ہوسکتا تھا ۔
اِس ےُدھ کاایک یودھا مگن بھائی حوالات میں تھا ۔
اور اس یودھا کو اس کی شان کے مطابق ہی اعزاز مل رہا تھا ۔
دونوں ایک دُوسرے کو کبھی بے بسی سے دیکھتے تو کبھی غصے سے مگن بھائی کو ۔ جو اِس وقت آرام سے سو رہا تھا ۔
ابھی کچھ دیر قبل اُس نے آخری موبائیل کال وصول کی تھی ۔
" ارے تم فکر کیوں کرتی ہو ؟ بولا نہ کل تک سب ٹھیک ہوجائے گا ۔ ایک دو دِنوں میں گھر آجاؤں گا ۔ سی ۔ ایم اور وزیر داخلہ سے بات ہوگئی ہے ۔ اِس حرامی لڑکی شکیلہ کا کچھ دِنوں کے بعد قصہ ہی ختم کرلیا جائے گا ۔ اسے آئی ۔ ایس ۔ آئی کا ایجنٹ قرار دے کر گرفتار کرلیا جائے گا دُنیا کو بتادیا جائے گا کہ مگن بھائی ، اس کی پارٹی ، تنظیم کو بدنام کرنے کے لئے یہ آئی ۔ ایس ۔ آئی کی سازش تھی ۔
دونوں دیر سے مگن بھائی کے اس کال پر غور کر رہے تھے ۔
مگن بھائی نے کہہ دیا تو ایسا ہی ہوگا ۔ اگر ایسا ہوا تو پھر شکیلہ ... انصاف ... انسانیت ....... !
اُنھیں لگا جیسے چاروں طرف وحشی ناچ رہے ہیں ۔ دھرتی پر وحشیوں کا راج آگیا ہے ۔ اب ان کے پاس دوہی راستے ہیں ۔ وہ بھی وحشی بن جائیں یا پھر انسان ہونے کا ثبوت دیں ۔
" اشوک ... ! "
" وجے ..... ! "
" ہمیں انسان ہونے کا ثبوت دیناہے ۔ "
" ہاں نہیں تو تاریخ ہم کو معاف نہیں کرسکے گی ۔ "
دونوں ایک دُوسرے کی آنکھوں میں دیکھ کر بولے ۔
" آؤ ... حساب کریں ۔ "
دونوں اُٹھ کر مگن بھائی کے پاس پہونچے ۔ اُسے نیند سے جھنجھوڑا .....
" کیا بات ہے، مجھے نیند سے کیوں جگایا .... ؟ اشوک ، وجے ! تم کیا چاہتے ہو ؟ "
" رات کے دو بج رہے ہیں سارے سپاہی سو چکے ہیں تم اگر ذبح ہونے والے بکرے کی طرح بھی چیخو تو تمہاری چیخ اُن تک نہیں پہونچ پائے گی ۔ لیکن یہ بھی یاد رکھو ۔ اگر تمہارے منہ سے ہلکی سی چیخ بھی نکلی تو ہم تمہیں سچ مچ کسی بکرے کی طرح ذبح کردیں گے ۔ انجام جو کچھ ہوگا دیکھا جائے گا ۔
اور وہ کسی بھوکے شیر کی طرح مگن بھائی پر ٹوٹ پڑے ۔
اپنے جسم کی ساری طاقت جمع کرکے مگن بھائی پر وار کرنے لگے ۔
مگن بھائی کے منہ سے ہلکی سی آواز بھی نکلتی تو ان کا اگلا وار دُوگنا طاقت کا ہوتا ۔ اس وار سے بچنے کے لئے مگن بھائی نے چیخنا تو درکنار کراہنا بھی بند کردیا ۔
ایک گھنٹے تک اُنھوں نے مگن بھائی کی اتنی پٹائی کی کہ ان کے ہاتھ پیر اور پورا جسم درد کرنے لگا ۔ سستانے کے لئے وہ تھوڑی دیر رُک گئے ۔
اُنھوں نے طے کرلیا تھا کہ مگن بھائی کے ساتھ یہ عمل اُنھیں رات بھر دہرانا ہے ۔
ننگ دھڑنگ مگن بھائی حوالات کے ایک کونے میں دُبکا ، اپنے جسم پر اُبھرے زخموں کے نشان اور مار کی ٹِیسوں کو برداشت کرنے کی کوشش میں سسک رہا تھا ۔
مگن کو دی گئی کُرسی پر اشوک بیٹھا اُس کے موبائیل سے کھیل رہا تھا اور وجے مگن کو دئے گئے نرم بستر پر لیٹا سستا رہا تھا ۔
" مگن بھائی ..... ! " دونوں کے منہ سے نکلا ۔
اپنا نام سن کر مگن بھائی نے چونک کر اُنھیں دیکھا اور پھر گھور اُنھیںکر پہچاننے کی کوشش کرنے لگا
دونوں مگن بھائی کے لئے نا آشنا تھے ۔ اِس لئے مگن بھائی کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں اُبھرا ۔ اُس نے ہاتھ میں پکڑے موبائیل فون پر ایک نمبر ڈائل کیا اور کسی سے بات کرنے لگا ۔
" ہیلو ..... میں مگن بھائی ہوں اور حوالات سے بول رہا ہوں ۔ کیا میری گرفتاری کی خبر ٹی وی پر نہیں دیکھی ۔؟ ارے حوالات مجبوری ہے ۔ سی ۔ ایم سے میں نے بات کی ہے ۔ اُنھوں نے مجھے سمجھایا کہ تمہارا معاملہ بہت بگڑ چکا ہے ، پورے ملک میں اِس سے ہنگامے ہورہے ہیں ۔ حالات کے تقاضے کے تحت تمہاری گرفتاری بہت ضروری ہے ۔ اِس لئے جاکر دو تین دِن تک حوالات میں آرام کرو ۔ بعد میں سارا معاملہ کس طرح ختم کیا جائے ؟ میں دیکھ لوں گا ۔ اِس لئے گرفتاری دینی پڑی اور حوالات میں ہوں ۔۔۔ ارے فکر کرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ یہاں مجھے ہر طرح کی سہولت مہیا کی جاے گی ۔ فون کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر مجھ سے ملنا ہو تو آزاد نگر پولس اسٹیشن آجانا ،سمجھے ۔ "
ابھی مگن بھائی نے موبائیل بند بھی نہیں کیا تھا کہ دو سپاہی گادی اور ضروری سامان کے ساتھ حوالات میں داخل ہوئے ۔ اُنھوں نے گادی فرش پر بچھا دی ، کُرسی ایک کونے پر رکھ دی ۔
" مگن بھائی اور کچھ چاہئے ؟ " دونوں نے بڑے ادب سے پوچھا ۔
مگن نے جیب سے سو روپے کا نوٹ نکال کر اُن کی طرف بڑھا یا ۔
ایک 555کا سگریٹ کا پیکٹ لے آنا ، باقی تم رکھ لینا ۔ "
دونوں سپاہیوں نے مگن بھائی کو سلام کیا اور حوالات کے باہر چلے گئے ۔ مگن بھائی گادی پر لیٹ کر سگریٹ پھونکنے لگا ۔
اُسی وقت موبائیل فون بجا ۔
" ہاں مگن بول رہا ہوں ۔ جو کچھ دیکھا سُنا سب سچ تھا ۔ اِس وقت حوالات میں ہوں ۔ ارے یہ سب ناٹک اور دِکھاوا ہے ۔ اپوزیشن اور عوام کے غصے کو ٹھنڈا کرنا ضروری تھا ۔ اگر میں چاہوں تو کل ہی گھر چلا جاؤں گا ، کاغذ پر میرا ریمانڈ رہے گا اور میں بنگلے میں آرام کروں گا ۔ سب سیٹنگ ہوگئی ہے ، گھبرانے کی کوئی بات نہیں ۔ "
اس کے بعدمسلسل آٹھ دس فون آئے ۔ سب سے مگن بھائی نے اِسی طرح کی باتیں کی ۔
دونوں ایک کونے میں بیٹھے چپ چاپ مگن بھائی کا تماشہ دیکھتے رہے ۔ اُنھیں مگن بھائی کو حوالات میں دیکھ کر بڑی خوشی ہورہی تھی ، وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے ۔ وہ آج حوالات میں اُس کمرے میں ہیں جس میں مگن بھائی بھی ہے ۔ لیکن آج ایک بات دِل کو کچوک رہی تھی ۔
مگن بھائی جس طرح حوالات میں تھا اور اُسے حوالات میں جو آرائشیں میسّر تھیں ، اُنھیں اس پر شدید غصہ آرہا تھا ۔
حوالات میں تو وہ بھی تھے ۔
سویرے اُنھیں گرفتار کرکے حوالات میں ڈالا گیا تھا لیکن اُنھیں نہ پینے کے لئے پانی ملا تھا اور نہ کھانے کے لئے کھانا ۔
اُن کے لئے گھر سے جو کھانا آیا تھا ، ڈیوٹی پر تعینات سپاہی چٹ کرگئے تھے ۔
اور مگن بھائی کو ..... ؟
دونوں کے جرائم میں زمین آسمان کا فرق تھا ۔ اُنھوں نے ایک معمولی جھگڑا اور مارپیٹ کی تھی جو کوئی سنگین جرم نہیں تھا ۔ مگر جس کے ساتھ مارپیٹ کی تھی اُس کا اثر و رُسوخ بہت زیادہ تھا ۔ اور اِس وقت ریاست میں سیاسی رسُوخ کا ہی راج تھا ۔ اِس لئے اُنھیں فوراً گرفتار کرلیا گیا ۔ راستے بھر پٹائی ہوتی رہی ، حوالات میں ڈالنے کے بعد تو سپاہیوں نے اُنھیں اور بھی زیادہ بے دردی سے مارا تھا ۔
" سالو ..... حرام زادو ! پریم جی بھائی سے اُلجھتے ہو ، جانتے ہو ، پریم جی بھائی کون ہے ؟ سی ۔ ایم کا خاص آدمی ہے ۔ تم لوگوں نے سی ۔ ایم کے خاص آدمی سے مارپیٹ کی ؟ اگر سی ۔ ایم کا فون آیا تو فساد کے الزام میں پوٹا لگا کر زندگی بھر جیل میں سڑا دیں گے ۔ تمہارے ایریی میں فساد میں مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا ہے ۔ سیکڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا ہے ۔ لیکن اوپر سے آئے حکم کے مطابق ہم نے ابھی تک ایک بھی فسادی گرفتار نہیں کیا ہے ۔ اگر پریم جی بھائی نے کہہ دیا تو تمہیں فساد کے جرم میں گرفتار کرلیں گے ۔ ہمارے لئے ایک پنتھ دو کاج ہوگا ۔ لیکن تم اپنا انجام سوچ لو ........... ! "
پریم جی بھائی سے اُلجھتے وقت اُنھیں اندازہ تھا کہ اس کا انجام کیا ہوسکتا ہے ۔ ان عام باتوں کے لئے اُنھوں نے اپنے آپ کو پہلے سے تےّار کرلیا تھا ۔ ان سے ڈر کر کام نہیں چل سکتا تھا ۔ پریم جی بھائی کو سبق سکھانا بہت ضروری تھا ۔ اِس لئے وہ اُس سے اُلجھ پڑے ۔
اِس لئے اُن کے ساتھ جو کچھ ہو رہا تھا اس کو وہ برداشت کررہے تھے ۔ لیکن اُنھیں یہ بات کچوک رہی تھی کہ اُنھوں نے کوئی سنگین جرم نہیں کیا تھا ۔ پھر بھی اُن کے ساتھ جانوروں سا سلوک کیا جارہا ہے ۔ لیکن ایک سنگین جرم کرنے والے وحشی ، درندے کو شاہانہ ٹھاٹ باٹ سے حوالات میں رکھا گیا ہے ۔
اُنھوں نے سویرے پریم جی بھائی سے مارپیٹ کی اور آدھا گھنٹے کے اندر حوالات میں تھے ۔
مگن بھائی نے جو جرائم کئے اُنھیں مہینوں ہوگئے ہیں پھر بھی وہ آزاد تھا ۔ ایک ماہ پہلے شکیلہ نے ایک اپوزیشن لیڈر کے سامنے بیان دیا تھا کہ مگن بھائی نے اُس کے ساتھ وحشیانہ غیر انسانی سلوک کیا ہے ۔
شکیلہ کے اس بیان کو کئی ٹی وی چینل کے کیمروں نے قید کیا تھا ۔اور پھر اس بیان کو ساری دُنیا میں بتایا گیا تھا ۔
اس اپوزیشن کے لیڈر نے اس بات کو پارلیمنٹ میں اُٹھایا تھا اور وزیر داخلہ سے مگن بھائی کی گرفتاری کی مانگ کی تھی ۔
لیکن ریاست کے سی ۔ ایم اور خود وزیر داخلہ نے اُسے مگن بھائی کے خلاف ایک سازش قرار دے کر گرفتاری کی درخواست مسترد کردی تھی ۔
جب کئی ممبران نے اُس کے خلاف آواز اُٹھائی تو وزیر داخلہ نے اعلان کردیا ۔ ہم اِس معاملے کی تحقیقات کررہے ہیں اور اگر مگن بھائی کو خطا وار پایا گیا تو اُس کے خلاف ضروری قانونی کاروائی کی جائے گی ۔
ہر کوئی جانتا تھا کہ مگن بھائی خطا وار ہے ۔ اُس نے بڑے بھیانک انسانیت سوز جرائم کئے ہیں کہ اگر اُسے دس بار بھی پھانسی پر لٹکایا گیا تو بھی اُس کی سزا کم ہوگی ۔
لیکن مگن بھائی کا تعلق سی ۔ ایم اور وزیر داخلہ کی پارٹی سے تھا ۔ وہ اُن کی پارٹی اور اُس کی ذیلی پارٹیوں کا سرگرم رُکن تھا اور اِس بات پر فوراً عمل کرتا تھا جس کا حکم اُس کی پارٹی یا ذیلی تنظیمیں دیتی تھیں ۔ پھر بھلا ایسے سرگرم رُکن کے خلاف کس طرح کوئی کاروائی کی جاسکتی ہے اور اِن کی پارٹی اور ذیلی تنظیموں کی نظر میں تو مگن بھائی نے کوئی جرم ہی نہیں کیا تھا ۔
انسانیت اور قانون کی نظر میں مگن بھائی کے کارنامے شاید گھناونے ، وحشیانہ اور سنگین جرائم ہوں گے ۔ لیکن اُن کی پارٹی کی نظر میں یہ کوئی جرم نہیں تھا ۔ کیونکہ اُن کی پارٹی کی نظر میں اِس طرح کی حرکتوں کا اِرتکاب دھرم کا پالن تھا ۔ اور مگن بھائی نے پارٹی تنظیم کے دھرم کا پالن کیا تھا ۔ اِس لئے ایسے دھرم یودھا کی حفاظت کے لئے پارٹی اور تنظیم فولادی دیوار بن کر کھڑی تھی ۔
دُنیا کے تمام اخلاقیات کے اُصول ، درس بالائے طاق ۔ ہمارے یودھا نے جو کچھ کیا وہ دُرست ۔ ہم بھلے اپنے آپ کو بہت با اخلاق ، باکردار ظاہر کریں لیکن اپنے مفاد ، اپنے مقصد کے حصول کے لئے سارے اخلاقی ، انسانی ، قانونی ضوابط کو روندنا ہمارا مقصد ہے ۔
جس پارٹی کے اُصول ہی یہ ہوں وہ مگن بھائی جیسے یودھا کیوں نہ پیدا کریں ؟ اور یہ یودھا مگن بھائی جیسے کارہائے نمایاں انجام کیوں نہ دیں ۔
ساری دُنیا جن کاموں پر تھوکیں ، اُن کاموں کو انجام دینے میں بھی نہ تو کوئی جھجھک محسوس کرے نہ دُنیا کے تھوکنے پر شرم آئے ، نہ غیرت محسوس ہو ، نہ اپنے کسی کام پر پشیمانی محسوس ہو ۔ مگن بھائی جیسے یودھاؤں کو جب تےّار کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے اُن کے ضمیر کو ختم کردیا جاتا ہے ۔تاکہ کسی کام کو کرتے وقت وہ اُنھیں اس کام کو کرنے سے نہ روکے اور نہ ہی وہ ضمیر کی آواز پر لبیک کہیں ۔
لبیک کہیں تو صرف پارٹی اور تنظیم کی آواز، اُن کے حکم پر ۔ اِس لئے سارے ملک اور دُنیا کے کئی ممالک سے شور اُٹھتا رہا ۔ حقوق انسانی کی تنظیمیں واویلا مچاتی رہی ۔ پھر بھی مگن بھائی دندناتا ہوا گھومتا رہا ۔ وزیر داخلہ سے سی ۔ ایم تک اِس کی ہر بات کا دفاع کرتے رہتے ۔
روزانہ نئے نئے چینل شکیلہ کے انٹرویو دِکھاتے ۔ اخبارات شکیلہ کی کہانی کو کوراسٹوری بناتے اور مگن بھائی کے گناہ تازہ ہوجاتے ۔ انسانیت کے پرستار اِس حیوانیت کے خلاف آواز اُٹھاتے اور مگن بھائی اسے کتوں کا بھونکنا قرار دیتا ۔ پارٹی اپنے یودھا کا دفاع کرتی ۔
لیکن ایک دِن آخر وہ ہولناک منظر سامنے آہی گیا جس کی اب تک لوگوں نے کہانیاں سُنی تھیں۔ اب تک شکیلہ اپنے ہر انٹرویو میں بتاتی تھی کہ کس طرح مگن بھائی نے اُس کے گھر کے ہر فرد کو زندہ جلایا ہے ۔ اُس کے بوڑھے باپ کے سینے میں ترشول مار کر اُسے دہکتی آگ میں پھینکا۔ اُس کی ماں کو جلتی آگ میں ڈال دیا ۔ اُس کے دونوں بھائیوں کو ترشولوں سے مار مار کر جلتی آگ میں ڈھکیلا ۔ اُس کی چھوٹی بہنوں کے نسوانی اعضاء کو ترشول سے گھائل کیا اور پھر اُنھیں آگ دِکھا دی ۔
اور اس کے ساتھ ۔
اس کے ساتھ تیس چالیس یودھاؤں نے بلاتکار کیا ۔
اور مگن نے اپنے ہاتھ سے اُس کے سینے پر چاقو سے " جے شری رام "لکھا ۔وہ اس لئے نہیں ماری گئی کیونکہ اسے یودھاؤں کی حیوانیت کو سیراب کرنا تھا ۔
وہ اس لئے بچ گئی کہ آخری یودھا جب اس سے سیراب ہوکر گیا تو دوسرے یودھا کے آنے میں تھوڑی تاخیر ہوگئی ۔ اِس دوران اُس نے خود کو سنبھال لیا اور موقع ملتے ہی اس جگہ سے بھاگ نکلی اور کسی طرح گرتے پڑتے ایک اسپتال پہونچ گئی ۔
جہاں علاج کرنے کے بعد اُس کی جان بچا لی گئی ۔
لیکن اپنے اس آخری انٹرویو میں اس نے اپنا سینہ کیمروں کے سامنے کردیا ۔
ایک جوان لڑکی کا نرم گداز سینہ ۔
جس پر چاقو کی نوک سے لکھا " جے شری رام " صاف دِکھائی دے رہا تھا ۔
اُسے دیکھ کر ہر کوئی دہل اُٹھا ۔
یہ ہے اُس درندے مگن بھائی کے گناہ کا ثبوت ... جسے یودھا قرار دے کر وزیر داخلہ سے سی ۔ ایم تک بچانے کی کوشش کررہا ہے ۔
اِس منظر کو دیکھ کر انسانیت کانپ اُٹھی ۔ جس نے بھی ٹی وی پر تصویروں میں شکیلہ کا سینہ دیکھا ، کانپ اُٹھا ۔
ایک جوان لڑکی کا گداز سینہ دیکھ کر بھی کسی کے دِل میں ہوس کا جذبہ پیدا نہیں ہوا ۔
ہر کسی نے لعنت ملامت کی اور غم اور غصے کی ایک لہر پورے ملک میں دوڑ گئی ۔ اور آخر ارباب اقتدار کو مگن بھائی کی گرفتاری کا آرڈر دینا پڑا ۔ مگن بھائی گرفتار کیا گیا اور ان کے ساتھ حوالات میں تھا ، کس طرح تھا ؟ اُنھیں خود شرم آرہی تھی ۔
دونوں شکیلہ کو بہت اچھی طرح جانتے تھے ۔
شکیلہ ایک اسکول میں ٹیچر تھی ، اُن کے محلے میں ہی رہتی تھی ۔
اور دونوں کے بچے اُس کے پاس ٹیوشن پڑھنے جاتے تھے ۔
جب بھی سامنا ہوتا تھا ۔ مسکراکر ان سے ملتی تھی ۔ اور اُن کے بچوں کے بارے میں بتاتی تھی ۔
" اشوک بھائی ! اتُل میتھس میں تھوڑا کمزور ہے ، میں اسے ٹھیک کرلوں گی ، لیکن گجراتی پر بھی دھیان دیں ۔ "
" وِنے بھائی ! وِملا کی انگریزی اچھی نہیں ہے ، بہت محنت کرنی پڑے گی ۔ "
اس شکیلہ کے ساتھ اور اس کے خاندان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اچھی طرح جانتے تھے ۔
اُنھیں تو بہت بعد میں معلوم ہوا کہ شکیلہ کے اور اس کے خاندان والوں کے ساتھ کیا ہوا ہے ۔ مگر اُنھیں علم تھا کہ اگر اُنھیں اس وقت بھی معلوم ہوجاتا جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو بھی وہ کچھ نہیں کرپاتے۔
یودھاؤں کی پوری فوج انسانیت کو تاراج کرکے اپنے افکار کا جھنڈا گاڑنے نکلی تھی ۔ اور اِس فوج کے ساتھ حکومت ، مشنری ، اقتدار سب کچھ تھا ۔ اِس لئے جو کچھ ہوا اُس پر صبر و شکر کرلینا کافی ہے ۔ شاید اس سے بھی زیادہ کچھ ہوجاتا .... یا ہوسکتا تھا ۔
اِس ےُدھ کاایک یودھا مگن بھائی حوالات میں تھا ۔
اور اس یودھا کو اس کی شان کے مطابق ہی اعزاز مل رہا تھا ۔
دونوں ایک دُوسرے کو کبھی بے بسی سے دیکھتے تو کبھی غصے سے مگن بھائی کو ۔ جو اِس وقت آرام سے سو رہا تھا ۔
ابھی کچھ دیر قبل اُس نے آخری موبائیل کال وصول کی تھی ۔
" ارے تم فکر کیوں کرتی ہو ؟ بولا نہ کل تک سب ٹھیک ہوجائے گا ۔ ایک دو دِنوں میں گھر آجاؤں گا ۔ سی ۔ ایم اور وزیر داخلہ سے بات ہوگئی ہے ۔ اِس حرامی لڑکی شکیلہ کا کچھ دِنوں کے بعد قصہ ہی ختم کرلیا جائے گا ۔ اسے آئی ۔ ایس ۔ آئی کا ایجنٹ قرار دے کر گرفتار کرلیا جائے گا دُنیا کو بتادیا جائے گا کہ مگن بھائی ، اس کی پارٹی ، تنظیم کو بدنام کرنے کے لئے یہ آئی ۔ ایس ۔ آئی کی سازش تھی ۔
دونوں دیر سے مگن بھائی کے اس کال پر غور کر رہے تھے ۔
مگن بھائی نے کہہ دیا تو ایسا ہی ہوگا ۔ اگر ایسا ہوا تو پھر شکیلہ ... انصاف ... انسانیت ....... !
اُنھیں لگا جیسے چاروں طرف وحشی ناچ رہے ہیں ۔ دھرتی پر وحشیوں کا راج آگیا ہے ۔ اب ان کے پاس دوہی راستے ہیں ۔ وہ بھی وحشی بن جائیں یا پھر انسان ہونے کا ثبوت دیں ۔
" اشوک ... ! "
" وجے ..... ! "
" ہمیں انسان ہونے کا ثبوت دیناہے ۔ "
" ہاں نہیں تو تاریخ ہم کو معاف نہیں کرسکے گی ۔ "
دونوں ایک دُوسرے کی آنکھوں میں دیکھ کر بولے ۔
" آؤ ... حساب کریں ۔ "
دونوں اُٹھ کر مگن بھائی کے پاس پہونچے ۔ اُسے نیند سے جھنجھوڑا .....
" کیا بات ہے، مجھے نیند سے کیوں جگایا .... ؟ اشوک ، وجے ! تم کیا چاہتے ہو ؟ "
" رات کے دو بج رہے ہیں سارے سپاہی سو چکے ہیں تم اگر ذبح ہونے والے بکرے کی طرح بھی چیخو تو تمہاری چیخ اُن تک نہیں پہونچ پائے گی ۔ لیکن یہ بھی یاد رکھو ۔ اگر تمہارے منہ سے ہلکی سی چیخ بھی نکلی تو ہم تمہیں سچ مچ کسی بکرے کی طرح ذبح کردیں گے ۔ انجام جو کچھ ہوگا دیکھا جائے گا ۔
اور وہ کسی بھوکے شیر کی طرح مگن بھائی پر ٹوٹ پڑے ۔
اپنے جسم کی ساری طاقت جمع کرکے مگن بھائی پر وار کرنے لگے ۔
مگن بھائی کے منہ سے ہلکی سی آواز بھی نکلتی تو ان کا اگلا وار دُوگنا طاقت کا ہوتا ۔ اس وار سے بچنے کے لئے مگن بھائی نے چیخنا تو درکنار کراہنا بھی بند کردیا ۔
ایک گھنٹے تک اُنھوں نے مگن بھائی کی اتنی پٹائی کی کہ ان کے ہاتھ پیر اور پورا جسم درد کرنے لگا ۔ سستانے کے لئے وہ تھوڑی دیر رُک گئے ۔
اُنھوں نے طے کرلیا تھا کہ مگن بھائی کے ساتھ یہ عمل اُنھیں رات بھر دہرانا ہے ۔
ننگ دھڑنگ مگن بھائی حوالات کے ایک کونے میں دُبکا ، اپنے جسم پر اُبھرے زخموں کے نشان اور مار کی ٹِیسوں کو برداشت کرنے کی کوشش میں سسک رہا تھا ۔
مگن کو دی گئی کُرسی پر اشوک بیٹھا اُس کے موبائیل سے کھیل رہا تھا اور وجے مگن کو دئے گئے نرم بستر پر لیٹا سستا رہا تھا ۔
٭٭٭٭٭٭٭