صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
بے حد نفرتوں کے دنوں میں
مشرف عالم ذوقی
طویل افسانہ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
شاید
کوئی دکھ اتنا گہرا نہیں ہو سکتا، جیسا کہ میں اس وقت محسوس کر رہا ہوں۔
آنکھوں کے آگے دھند کی چادر میں غیر واضح مکالمے یا آہٹیں جمع ہو رہی ہیں۔
لیکن جیسا، بھیانک سردی کے دنوں میں اکثر ہوتا ہے، آپ کے کان سن
… سے ہو جاتے ہیں۔ پھر چہرے پر صرف برف کی ایک گیلی ٹھنڈی چادر رہ
جاتی ہے، جو دماغ سے لے کر آپ کے سارے جسم کو سلا دیتی ہے۔ اس کنکنپا دینے
والی سردی میں نفرت کے ان مکالموں کو سن رہا ہوں، جو موت یا سنامی سے
زیادہ بے رحم ہیں میرے لیے — جہاں تیزی سے پھیلتی جنگل کی آگ
کی طرف صرف وہ شور رہ گئے ہیں جو اس وقت بھی میرے کانوں میں گونج رہے
ہیں — تیز تیز ڈرم بجنے کی آوازوں کے درمیان خنزیر کے گوشت
بھوننے کی بدبو پھیل رہی ہے، اور تہذیب و تمدن سے بے نیاز انسانوں کے
ہڑدنگ …
لا … لا … لا … ہے … ہو … ہو … ہو … ڈرم … ڈرم …
شاید
انسان ہونے کے احساس سے جانور ہونے کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں
— اندر ہی کہیں باہر نکلنے کی تیاری میں بیٹھا ہوتا ہے ایک جنگلی جانور،
جو ایک ہی جھٹکے میں محبت کے احساس کو پنجے سے مارکر، باہر آ کر
ٹھٹھا کر ہنستا ہے — صرف ایک جھٹکے میں — جیسے
ذبح کیے ہوئے جانور ہوتے ہیں … یا عام طور پر ہماری فلموں کے ایسے
اداکار جو مینٹل ڈس آرڈر یا ملٹی پل ڈس آرڈر کے شکار ہو کر ایک ہی وقت میں
دلکش اور بے حد بد صورت جنگلی شکل دکھا کر ناظرین سے واہ واہی لوٹ لیے
جاتے ہیں …
وہ ہنس رہے ہیں۔ قہقہہ لگا رہے ہیں۔ اُنہیں ایک منچ دیا
گیا ہے۔ کسی بھی بڑے ٹی وی چینل کا ایک بڑا منچ —
وہ ناچ رہے ہیں۔ گا رہے ہیں۔ وہ اپنے مخصوص لہجے میں ہمارا دل بہلا رہے
ہیں — اینکر سے لے کر معزز ججوں کو بھی وہ پسند ہیں۔ وہ مسلسل
ہنسا رہے ہیں۔ پھر وہ ہمارے ہی خاندان کے ممبر ہو جاتے ہیں کہ ہم ان کا
انتظار کرنے لگتے ہیں — ایک عام خاندان کے ممبر کی طرح، جہاں
نہ دشمنی ہے نہ دیواریں — نہ سرحد، نا باڑ کے کنٹیلے تار۔
جیسے منظر بدلتا ہے۔ وہ اچانک کنٹیلے تار کے، اس پار کے دشمن بن جاتے
ہیں — ایک بھیانک دشمن۔ کسی بجرنگ دل، کسی سنگھ کا شخص اچانک
سیٹ پر آتا ہے اور اس کے گلے پر ہاتھ ڈال دیتا ہے۔ آج وہ ناچ نہیں رہا ہے۔
ہنسا نہیں رہا ہے، رو نہیں رہا ہے، آج وہ سارا رول بھول کر ایک عام آدمی
یا سہما ہوا جانور بن گیا ہے — جہاں اس پر وہی، اسے عزت سے
نوازنے والے چیخ رہے ہیں … ’یہ ہمارے روزگار تک چھین کر لے جاتے ہیں
…‘
اداکار نہیں، صرف ایک غیر محفوظ شخص رہ گیا ہے —
جنگ کی پیشن گوئیوں کے درمیان — جنگلوں سے گزرتی فوجی ٹکڑیاں آسمان
پر منڈراتے ہیلی کاپٹر — سیاستدانوں کے بیان اور جنگ کے شعلے …
میں
شاید اس گھنے کہرے یا جنوری کی اس کنپکنپا دینے والی بھیانک سردی کا ایک
حصہ بن گیا ہوں۔ اور جیسا کہ بچپن کے کسی لمحے بابو جی کی آنکھوں میں اس
جنگ کے شعلوں کو پڑھنے کی ہمت کی تھی میں نے …
’’جنگ کبھی نہیں ختم ہوتی … جاری رہتی ہے …‘‘
’’لیکن کیسے … ؟‘‘
’’بس یہ ہماری بھول ہوتی ہے، جو سمجھتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ ہم خیریت سے ہیں۔ لیکن در اصل ایسا نہیں ہوتا …‘‘
’’پھر۔ ‘‘
’’ایک
جنگ سے نکل کر ہم آہستہ آہستہ صفر میں دوسرے بڑے اور بھیانک جنگ کی طرف
بڑھتے رہتے ہیں۔ چین کی جنگ ختم ہوئی کیا؟ 62 کو گزرے تو جیسے ایک صدی گزر
گئی۔ لیکن کیا چین سے ہماری نفرت مٹی؟ یہ نفرت ہی جنگ ہے۔ جو تھوڑی دیر کے
لیے جنگ پر روک یا سیز فائر لگا دیتی ہے۔ لیکن جنگ نہ ہونے، نہ دکھنے پر
بھی جاری رہتی ہے — پاکستان سے جنگ ختم ہوئی کیا … ؟ بابو جی
اس وقت اپنے ’سنگھی‘ لہجے میں بول رہے تھے — ’’وہ یہاں موجود
ہے۔ یہاں … وہ اپنے دل کے پاس اشارہ کر رہے تھے — ’اپنی
ہر لمحے تیز ہوتی نفرتوں میں — جبکہ یہ جنگ تو 66 یا 71 میں
ہی ختم ہو گئی تھی۔ لیکن کیا اصل میں ختم ہوئی … ؟ جنگ ایک بار شروع ہو
جائے تو ختم نہیں ہوتی۔ وہ یہیں کہیں رہ جاتی ہے۔ کبھی ہمارے بدبو دار
کپڑوں میں کبھی پورے جسم میں …‘‘
جیسے میزائلوں کا رقص جاری ہو … !
جیسے
جنگی ٹینک، بارودی شعلے اگل رہے ہوں۔ آسمان پر دور تک دھوئیں کی چادر
… آہستہ آہستہ اس نہ ختم ہونے والے دھوئیں میں ایک سہما سا معصوم
چہرہ ابھرتا ہے۔
’جو پوچھوں سچ بتانا … بتاؤ گے نا … ؟‘
’ہاں … پہلے پوچھو تو …‘
’دیکھو جھوٹ بالکل نہیں …‘
’ارے بابا … بکو تو …‘
’اچھا سوچنے دو … چلو سوچ لیا …‘ اس کی بے حد حسین آنکھوں میں، پیار کی گہرائی کے ساتھ ایک خوف بھی شامل تھا۔
’دوسروں کی طرح کہیں تم بھی ہم سے نفرت تو نہیں کرتے … ؟‘
جیسے
پورے جسم میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔ ایک لمحہ کو لگا، جنگ کے دھماکے کو میرے
چہرے پر آرام سے پڑھا جا سکتا ہے۔ یقینی طور پر دوسری طرف ’کیمرے ‘ میں
میرے چہرے پر آئی کنپکنپی کو وہ شاید پڑھ رہی تھی …
’سچ بتانا … جھوٹ بالکل نہیں …‘
’ہاں تم سے پہلے نفرت کرتا تھا …‘
ایک
لمحہ کو محسوس ہوا، جیسے اس کے چہرے کا رنگ بدلا ہو — دوسرے ہی لمحے
وہ اپنے خوفزدہ چہرے پر پیار کے بے شمار رنگ اور پھولوں کی ہزار خوشبوؤں
کا تحفہ لے کر موجود تھی —
’مجھ سے … یا میرے ملک سے … ؟‘
’تمہارے ملک سے …‘
اب
میری باری تھی — جیسے اندر مندر کی گھنٹیاں یا شنکھ پھونکنے کی جگہ
مسلسل پھٹنے والے آرڈی ایکس یا بم کے دھماکے جاگ گئے ہوں —
’شائستہ، اگر یہی سوال میں تم سے پوچھوں تو … ؟‘
’شاید
… میں نفرت کر سکتی تھی … تمہارے یہاں ایک چوہا بھی مرتا ہے
تو الزام میرے لوگوں پر آتا ہے — مگر اپنی کہوں تو میں نفرت
نہیں کر سکی …‘
’لیکن کیوں ؟‘
’تاریخ کی کتابوں نے تمہارے ملک کے لیے اتنی نفرتیں لکھیں کہ یہ نفرت آہستہ آہستہ پیار میں بدل گئی۔ پھر تم مل گئے۔ ‘
٭٭٭