صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
کلام نبویؐ کی کرنیں
مولانا عبد المالک
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپؐ نے ایک آدمی کے متعلق جو اسلام کا دعوے دار تھا، فرمایا کہ یہ جہنمی ہے۔ جب جنگ شروع ہوئی تو اس آدمی نے جنگ میں زور و شور سے حصہ لیا اور بھرپور اور زبردست حملے کیے، اسے گہرے زخم لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ جس آدمی کے متعلق آپؐ نے فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے ، اس نے تو آج سخت لڑائی لڑی اور وہ مر گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جہنم کی طرف چلا گیا۔ قریب تھا کہ کچھ لوگ آپؐ کے ارشاد کے متعلق شک و شبہے میں مبتلا ہو جاتے کہ اطلاع آئی کہ وہ مرا نہیں زندہ ہے لیکن اسے سخت گہرے زخم آئے ہیں۔ جب رات آئی اور وہ زخموں کی تکلیف برداشت نہ کرسکا تو اس نے خودکشی کر لی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی تو آپؐ نے اللہ اکبر کا کلمہ بلند کیا اور فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، پھر بلال کو حکم دیا کہ وہ اعلان کریں کہ جنت میں نہیں داخل ہو گا مگر مسلمان آدمی، اللہ تعالیٰ بعض اوقات اس دین کی تائید و تقویت بدکار انسان کے ذریعے بھی فرماتا ہے۔ (بخاری، حدیث ۳۰۶۲، ۴۲۰۱، ۶۶۰۶)
جس شخص کو اللہ تعالیٰ اور
اس کے رسولوں، کتابوں اور آخرت پر ایمان ہو وہ کبھی بھی خودکشی نہیں
کرسکتا۔ وہ دنیا کی بڑی سے بڑی تکلیف کو تھوڑا اور معمولی سمجھتا ہے اور
آخرت کی تکلیف کو بہت سخت سمجھتا ہے۔ وہ دنیا کی تکلیف کو برداشت کر لیتا
ہے اور آخرت کی تکلیف کو برداشت کرنے سے ڈرتا اور اپنے آپ کو بچاتا ہے۔
صحابہ کرامؓ کو طرح طرح کی تکالیف سے گزرنا پڑا لیکن انھوں نے کبھی بھی
حوصلہ نہیں ہارا۔ آج غیرمسلم معاشروں میں خودکشیاں بڑے پیمانے پر ہو رہی
ہیں مگر افسوس کہ مسلمان معاشرے بھی ان سے متاثر ہو کر خود کشیوں کا شکار
ہو رہے ہیں۔
٭٭٭