صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


مظفر حنفی  کی نثر

مظفر حنفی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                      ٹیکسٹ فائل

میرا نظریۂ تخلیق

    سچّا شاعر، حسرتؔ موہانی کی طرح ہر اچھے  استاد سے  فیض اٹھاتا ہے۔ اساتذہ کے  کلام سے  بہتر اور اچھا استاد کون ہو سکتا ہے  چنانچہ میں  نے  میرؔ سے  یہ سبق حاصل کیا کہ سچّا شعر وہ جو پڑھنے  یا سننے  والے  کے  دل میں  اتر جائے۔ غالبؔ نے  مجھے  پہلو داری اور لفظ کو گنجینۂ معنی بنانے  کا گر سکھایا اور حالیؔ نے  اصلیت اور سادگی کا رمز بتایا۔ طنز کے  مناسب استعمال اور سامنے  کے  مضامین کو تخلیقی عمل سے  گزار کر بات کو نئی اور لہجے  کو منفرد بنانے  کا فن میں  نے  شاد عارفی سے  حاصل کیا ہے  اور میری شاعری، جیسی کچھ بھی وہ ہے، انھیں  چار ستونوں  پر ایستادہ ہے۔

    دھوکا کھاتے  ہیں  وہ فن کار، جو نقاد کے  جاری کردہ شاعری کے  اسباق پر اپنے  فن کی بنیاد رکھتے  ہیں۔ تنقید اکثر شاعر کو اصلاح پسندی، ترقی پسندی اور جدیدیت جیسے  خانوں  میں  بانٹتی ہے۔ اس طرح بھلے  ہی غیر تخلیقی نقاد کو لکھنے  میں  سہولت ہوتی ہو اور اس کی حیثیت مستحکم ہوتی ہو لیکن فن اور فن کار اکائی بننے  کے  بجائے  ریزہ ریزہ ہو جاتے  ہیں۔ میں  نے  اپنی شاعری کو خانوں  میں  تقسیم ہونے  سے  بچانے  کی بھرسک کوشش کی ہے۔

    کئی نقاد عظمت بانٹتے  ہیں     مظفرؔ سر بسر انکار ہو جا

    میرا عقیدہ ہے  کہ نقاد کی عطا کردہ عظمت پستہ قامت ہوتی ہے، خاص طور پر اپنے  ہم عصروں  کی تنقید کبھی انصاف نہیں  کر سکی۔ شاعر کی تخلیق اگر خود پر زمانے  کی گرد جمنے  نہ دے  اور عہد بعہد اپنی پرتیں  اتارتی رہے  تو یہی اس کی سب سے  بڑی کامیابی ہے۔ میں  نے  رباعیات، پابند اور آزاد نظمیں  اور غزلیں  کہی ہیں  لیکن وافر سرمایہ غزلوں  کا ہے  جن کی تعداد پندرہ سو سے  زیادہ ہے۔ زیادہ یا کم کہنا میرے  خیال میں  شاعر کے  منصب کا تعین نہیں  کر سکتا ہاں  سچی اور اچھی شاعری کی تعداد زیادہ ہو تو فن کار کا قد اسی نسبت سے  بلند ہوتا جاتا ہے۔

    مفہوم در بطنِ شاعر، کی پرانی پھبتی آج بھی اتنی ہی صحیح ہے  جتنی قدیم زمانے  میں  تھی۔ شعر کو پہلو دار بنانے  کے  لیے  میں  ابہام کو ایک وسیلے  کے  طور پر استعمال کرتا ہوں  کہ اس طرح اس میں  ایک مختلف ادوار تک زندہ رہنے  کی قوت پیدا ہوتی ہے  لیکن اہمال شعر کو اسقاطِ حمل کے  مترادف بنا دیتا ہے۔

    میں  تخلیقِ شعر کے  دوران صرف اپنے  تئیں  پُر خلوص ہوتا ہوں۔ چوں  کہ سماج کا فرد ہوں  اس لیے  میرا یہ خلوص اگر اظہار پانے  میں  کامیاب ہو جائے  تو معاشرے  کے  لیے  مُضر ہو ہی نہیں  سکتا۔ پھول اپنے  وجود کے  اظہار کے  لیے  کھلتا ہے  لیکن خوشبو کو صرف اپنے  دامن میں  سمیٹ کر نہیں  رکھ سکتا۔

    زیادہ میک اپ کی ضرورت بدصورتوں  کو ہوتی ہے۔ میں  شعر کو غیر ضروری آراستگی اور تصنّع سے  حتی الامکان پاک رکھنے  کی کوشش کرتا ہوں۔ گہرا اور پیچیدہ خیال اگر شعر میں  سہلِ ممتنع کی صورت اختیار کر سکے  تو میرے  تئیں  یہ سب سے  بڑی کامیابی ہے۔ تجربات کی بات الگ ہے  اور اس کا حق مبتدیوں  کو ہرگز نہیں  پہنچتا لیکن فنّی پابندیوں  میں  رہ کر شعر میں  نئی نئی باتیں  کہنا اور نئے  اسلوب میں  کہنا میرے  نزدیک فن کی معراج ہے۔ کاش میری شاعری ان معیاروں  پر پوری اتر سکے۔ ایک آزاد نظم، دو رباعیاں  اور دو غزلیں  ملاحظہ فرمایئے۔


دن چڑھ آیا،

چل ہم زاد،

میرے  بستر پر تو آجا۔

کالی نفرت،

سُرخ عقیدت،

بھوری آنکھوں  والی حیرت،

بھولی بھالی زرد شرافت،

نیلا نیلا اندھا پیار،

رنگ برنگے  غم کے  تار،

خوشیوں  کے  چمکیلے  ہار،

دھانی، سبز،

سپید، سنہرے،

اپنے  سارے  نازک جذبے،

پھر دن کو تجھ کو سونپے،

مصلحتوں  کے  شہر میں  ان کے،

لاکھوں  ہیں  جلّاد۔

دن چڑھ آیا،

چل ہم زاد!


صحرا مجھے  ہر گام پہ زک دیتا ہے

منزل مرے  ہاتھوں  سے  جھٹک دیتا ہے

لیکن مرے  پاؤں  جمنے  لگتے  ہیں  جہاں

شفقت سے  مری پیٹھ تھپک دیتا ہے


گھیرے  میں  لیے  ہوں  تجھے  ہالا بن کر

لپٹا ہوں  ترے  پاؤں  سے  چھالا بن کر

اے  روشنیِ طبع جھجکتی کیوں  ہے

ظلمت ہوں، مجھے  کاٹ اجالا بن کر


کبھی تو صدقہ مرا کاک سے  اتارا جائے

مجھے  بلندیِ افلاک سے  اتارا جائے

ادھر بھی لاش تڑپتی ہے  دفن ہونے  کو

یہ سر بھی نیزۂ سفاک سے  اتارا جائے

نہ جانے  کب سے  زمیں  گھومتی ہے  محور پر

مجھے  سنبھال کے  اس چاک سے  اتارا جائے

مِلا یہ حکم کہ سسکاریاں  نہ لے  کوئی

کوئی بھی رنگ ہو پوشاک سے  اتارا جائے

قریب آؤ کہ مہندی رچی ہتھیلی پر

ستارہ دیدۂ غمناک سے  اتارا جائے

انام کے  دم سے  ہی آباد ہے  خرابۂ جاں

اسی کو مسندِ ادراک سے  اتارا جائے

اُسے  چُھپاؤ مظفرؔ سخن کے  پردے  میں

غلاف کیوں  حرمِ پاک سے  اتارا جائے


مدافعت میں  بھی تلوار اگر اٹھاتا ہوں

تو بے  قصور کہاں  ہوں  کہ سر اٹھاتا ہوں

خفا ہیں  اہلِ فلک میری چیرہ دستی پر

ستارے  بو کے  زمیں  سے  ضر ر اٹھاتا ہوں

مِرا کمالِ ہُنر میری صاف گوئی ہے

صعوبتیں  بھی اسی بات پر اٹھاتا ہوں

ثمر بدست شجر پر چلائے  تھے  پتھر

گِرے  ہیں  پھل تو انھیں  چوم کر اٹھاتا ہوں

اگرچہ دل پہ ٹپکتی ہے  یاد کی شبنم

خفیف ہوں  کہ دھواں  رات بھر اٹھاتا ہوں

گزر گیا وہ بگولہ، وہ ریت بیٹھ گئی

میں  بیٹھتا ہوں  نہ رختِ سفر اٹھاتا ہوں

سخنوروں  میں  مظفرؔ کو سُرخرو رکھیو

ترے  حضور کفِ بے  ہنر اٹھاتا ہوں

٭٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                    ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول