صفحہ اول
کتاب کا نمونہ پڑھیں
ایک مٹھی میں میرے خواب
سعید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
حشر کیسا بھی ہو برپا نہیں دیکھا جاتا
یار اب ہم سے تماشا نہیں دیکھا جاتا
ایسے برزخ سے تڑپنا ہی کہیں بہتر تھا
دل کو محرومِ تمنا نہیں دیکھا جاتا
خوف آتا ہے تو بس خواب کی بے خوفی سے
ورنہ اس آنکھ سے کیا کیا نہیں دیکھا جاتا
ان کی ہستی کی نمو ہے مری بربادی میں
ناصحوں سے مجھے اچھا نہیں دیکھا جاتا
فاصلہ رکھ کے سرِ راہ ملا کر دشمن
دوستوں سے ہمیں یکجا نہیں دیکھا جاتا
ترکِ الفت ہی سہی ، ترکِ تعلق ہی سہی
پھر بھی اپنوں کو پرایا نہیں دیکھا جاتا
ہجر دشوار مسافت ہے مگر یاد رہے
یہ وہ غم ہے کہ جو تنہا نہیں دیکھا جاتا
نقش آنکھوں میں ہے محبوب کی صورت ورنہ
ہم سے اس شہر کا نقشہ نہیں دیکھا جاتا
ایسی شدت سے ہمیں وقت نے بدلا ہے سعید
آئینہ اب نہیں دیکھا ، نہیں دیکھا جاتا
***
آنکھوں کو زخم زخم تو دل کو لہو کریں
پھر جی یہ چاہتا ہے تری جستجو کریں
رستا ہے جس کے چاک سے پندار کا لہو
وہ زخم کس کے تارِ نظر سے رفو کریں
دل مضطرب ہے شام سے آ اے غم حیات
تجھ کو سپردِ گردشِ جام و سبو کریں
حائل ہیں اپنی راہ میں ہم خود انا پرست
خود کو بھلا سکیں تو تری آرزو کریں
جیسے سب اہلِ شہر مرے غم شناس ہوں
جب گفتگو کریں تو تری گفتگو کریں
ہم ہیں کہ پچھلے زخم ہمیں بھولتے نہیں
اور دل کہے کہ کوئی نئی آرزو کریں
جس جا گزر ہو میرے بُتِ خود شناس کا
پتھر بھی آئینوں کی طرح گفتگو کریں
ہر شخص اپنے آپ سے نادم ہو جب سعید
کیا لوگ آئینے کے مجھے روبرو کریں
***