صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


برِّ صغیر کے جدید مسلم مفکرین
اور اُن کی قومی و مِلّی خدمات

اقبال احمد قاسمی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

مولانا آزاد کی قرآن فہمی

    مولانا کی تصانیف میں سب سے زیادہ اہم کتاب ’’ترجمان القرآن‘‘ ہے۔ قرآن کی ایک صحیح اور عقلی تفسیر کی ضرورت تو اُنہوں نے اُس زمانے میں ہی محسوس کر لی تھی جب وہ طبعِ رسا کی جولانیاں ’الہلال‘ میں دِکھانے لگے تھے اور اِس ضمن میں اُنہوں نے کام بھی شروع کر دیا تھا۔ لیکن اِس پر بھی قرآن کے اٹھارہ پاروں کا ترجمہ چھپتے چھپتے سالہا سال گزر گئے اور ۱۹۳۱ء میں یہ منزل طے ہوئی۔ ایسے شواہد بھی ملتے ہیں کہ مولانا باقی بارہ پاروں کا ترجمہ بھی کر چکے تھے لیکن اُن کے انتقال کے بعد اِس کا مسودہ نہیں ملا اور خدا جانے وہ مکمل بھی ہوا تھا یا نہیں۔ مولانا غلام رسول مہر کے نام اکثر خطوط میں اِس کا ذکر آیا ہے۔

    قرآن کریم کی حیثیت ایک مُکمّل ضابطۂ اخلاق اور ایک جامع دستوُرِ معاشرت و تمدُّن کی ہے۔اِسی نقطۂ نظر سے مولانا نے قرآن کو دیکھا اور سمجھا اور اُسی انداز سے سمجھانے کی کوشش بھی کی۔ ہندوستان میں شاہ ولی اللہ کا ترجمہ جو فارسی میں تھا، پہلا ترجمہ تھا جو نہایت بصیرت و بے باکی سے کیا گیا۔ وہ ایک نئے زاویۂ فکر کی بشارت تھی اور قرآن کریم کے سربستہ رازوں کو آشکار کرنے کی ایک صحیح کوشش تھی۔ اُن  کے بعد اُن کے صاحب زادے حضرت شاہ عبد القادر ؒ نے اُس کا ترجمہ اُردو میں کیا جو عوام کے لئے مفید ثابت ہوا۔ یہ کام اُنہوں نے انیسویں صدی کے آغاز میں کیا۔ شاہ ولی اللہ کے ترجمہ سے ایک سہولت یہ پیدا ہوئی کہ اُس سے دوسری زبانوں میں قرآن کے ترجمے کی آسانی پیدا ہو گئی اور اُنہوں نے یہ بات بھی ذہن نشین کرانے کی کوشش کی کہ قرآن ریشمی رومال میں بند کر کے طاق میں رکھنے کی چیز نہیں بلکہ اُس کا پیغام تو ہر اِنسان تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ شاہ صاحب اندھی تقلید کے منکر تھے اِس لئے اُن کی خواہش تھی کہ اِسلامی تعلیمات کو انسانی فلاح و بہبود کے اُصولوں پر منطبق کیا جائے اور اِسلام کے اُصولوں کو رِوایات اور جھوٹی داستان کی خرافات سے پاک کیا جائے۔ شاہ صاحب نے اِنصاف پسندی کی بنیاد رکھی۔ مولانا کے ذہن پر اِن تمام باتوں کا اثر تھا۔ وہ اِس سے قبل اِمام غزالی کے تجدیدی کاموں سے متاثر تھے۔ اِمام غزالی کے ڈیڑھ سو برس بعد (۶۶۱۔۷۲۸ھ) ابنِ تیمیہ حدیث، فقہ، علوم عقلیہ، منطق، فلسفہ اور کلام کے بہت بڑے ماہر گزرے ہیں۔ مولانا آزاد اپنے پیش روؤں میں ابنِ تیمیہ سے سب سے زیادہ متاثرہیں کیونکہ اِبنِ تیمیہ اِسلام کے بُنیادی تصوُّرات پر یونانی اثرات کے قائل نہیں۔

    ترجمان القرآن کی پہلی جلد جو صرف سورۂ فاتحہ کی تفسیر ہے، ۱۹۳۱ء میں شائع ہوئی۔ دوسری جلد تک اٹھارہ پارے ختم ہو گئے تھے۔ یہ۱۹۳۶ء میں مدینہ پریس بجنور سے چھپی تھی۔

    ساہتیہ اکاڈمی نے بڑے اہتمام سے اِن جلدوں کو نئی شان سے چھاپا ہے۔ دوسری جلد کے دو حِصّے کر دئیے ہیں، گویا ۱۸ اپاروں کی تفسیر اب تین جلدوں میں ہے۔

    مولانا آزاد نے قرآن کا مُطالعہ بڑی محنت اور کاوِش سے کیا۔ وہ لکھتے ہیں :’’میں نے قریب قریب تیئیس (۲۳)سال قرآن کو اپنا موضوعِ فکر بنایا۔ میں نے ہر پارے، ہر سورۃ اور ہر آیت اور ہر لفظ کو گہرے فکر و نظر سے دیکھا۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ قرآن کی موجودہ تفاسیر مطبوعہ یا غیر مطبوعہ کا بہت بڑا حصہ میری نظر سے گزرا ہے، میں نے فلسفۂ قرآن کے سلسلے میں ہر مسئلے کی تحقیق کی ہے۔‘‘


مولانا کا علوئے مرتبت علمی

    ’ترجمان القرآن‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا سیّد سلیمان ندوی مرحوم رقم طراز ہیں :

’’میں نے قرآن کریم کی جتنی تفاسیر پڑھی ہیں، اُن میں ابنِ تیمیہ اور حافظ ابنِ قیمِّ کی تفاسیر سے بہتر کوئی تفسیر نہیں۔‘‘ترجمان القرآن کا مصنف قابلِ مبارک باد ہے کہ اُس نے یورپی سامراج کے زمانے میں بڑی ہمت ا ور دلیری سے ابنِ تیمیہ اور ابنِ قیمِّ کی اِس صورت سے پیروی کی ہے جس طرح اُنہوں نے منگولی فاتحوں کی مزاحمت کے سلسلے میں کی تھی۔‘‘

    مولانا عجیب و غریب دماغی اور ذہنی اہلیتیں لے کر پیدا ہوئے تھے۔اُن کی خلوت پسند طبیعت نے عوام پر اُن کے جوہر آشکار نہ ہونے دئیے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں نے اُنہیں ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ کے مدیر اور ’ترجمان القرآن ‘ کے مصنِّف کی حیثیت سے دیکھا یا ’تذکرہ‘ اور  ’غبارِ خاطر‘ میں اُن کی خطیبانہ تحریروں کا لُطف اُٹھایا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے اندر اِس صدی کے مجدَّد ہونے کی تمام صلاحیتیں رکھتے تھے۔

مولانا آزاد کی تصانیف

    مولانا کم عمری میں ہی نظر بند ہو گئے، پھر سیاست کے خارزار میں اُلجھ گئے۔ اُنہیں فُرصت کے لمحات کہاں ملے؟ اِس پر بھی وہ بہت کچھ لکھ گئے۔ اُن کی تصانیف کی فہرست بڑی طویل ہے جو ذیل میں در ج ہے:

’’اعلانِ حق، ’’مسلمان عورت‘‘، تازہ مضامینِ مولانا ابو الکلام آزاد ’’مسئلۂ خلافت اور جزیرۃ العرب‘‘، ’’قولِ فیصل‘‘، ’’خطباتِ آزاد‘‘،’’تقاریر‘‘، نوادر ابوالکلام‘‘، ’’ترجمان القرآن‘‘، تذکرہ‘‘، آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی‘‘،’’اِنڈیا وِنز فریڈم(India Wins Freedom )‘‘، ’’غبارِ خاطر‘‘، ’’کاروانِ خیال‘‘، ’’نقشِ آزاد‘‘۔

    (مولانا کے خطوط غلام رسُول مہر کے نام)، ’’مکاتیبِ ابوالکلام‘‘،’’ فیصلۂ مُقدمہ جامع مسجد کلکتہ‘‘،’’مالیر کوٹلہ کا نزاع‘‘، ’’سرمد شہید‘‘۔

قلمی تصانیف:  ’’نیشنل تحریک، البیرونی اور جغرافیۂ عالم‘‘، متفرِّق خطوط‘‘۔

    مولانا کے علم و فضل کے باب میں تہران یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر نفیسی نے تفصیل سے لکھا ہے۔ اُنہوں نے مولانا سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا :

’’کہ موصوف فارسی زبان پر تو قدرت رکھتے ہی تھے لیکن وہ فارسی بے تکان بول بھی لیتے تھے۔ فارسی علماء اور فضلا کا ذکر بہت کرتے، ایرانی ثقافت کی تاریخ سے بہت واقف تھے۔ میں نے ایسا جیّد عالم نہیں دیکھا تھا۔وہ بلا کا حافظہ رکھتے تھے اور اُن کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ چنانچہ اپنی تصانیف میں بے شمار فارسی اور اُردو کے اشعار حافظے سے درج کر گئے ہیں۔ ‘‘

    ایک دفعہ مولانا غلام رسُول مہر نے اُن کے حافظے پر شک کیا اور شعر میں ترمیم کر دی۔ مولانا نے لکھا کہ تیس سال ہوئے یہ شعر پڑھا تھا، آج اصل ہاتھ آگیا۔ خدا کا فضل ہے کہ شعر بعینہٖ اُسی طرح ہے، جس طرح میں نے لکھا تھا۔

    مولانا بہت بڑے عقلیت پسند تھے، اِس لئے اُنہوں نے ہر بات کا جائزہ اِسی انداز سے لیا ہے۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول