صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


مسلم دنیا اور ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی

مبشر نذیر

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

نفسیاتی غلامی: اسلام سے پہلے

اسلام سے پہلے بھی دنیا بھر میں مذہبی طبقے کو اقتدار حاصل تھا۔ دنیا کے کم و بیش تمام ممالک ہی میں مذہبی طبقہ اس درجے میں موجود تھا کہ وہ حکومتی اور معاشرتی معاملات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس طرز حکومت کو تھیو کریسی کہا جاتا تھا۔ اس دور میں دنیا کا غالب مذہب "شرک" تھا۔ کم و بیش دنیا بھر کے ممالک میں دیوی دیوتاؤں کی دیو مالا (Mythology) تخلیق کی گئی تھی۔ ریاست کے ہر شہری کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اس دیو مالا پر ایمان لائے۔ اگر کوئی شخص مخصوص مذہبی عقائد سے مختلف نظریہ رکھنا چاہتا تو اسے مذہبی جبر کا شکار ہونا پڑتا اور اسے اس کے انحراف کے درجے اور شدت کے مطابق کوئی بھی سزا دی جا سکتی تھی۔

          دین شرک کے مقابلے میں دین توحید کے علمبردار اہل کتاب تھے جو یہودیوں اور عیسائیوں پر مشتمل تھے۔ یہ لوگ اگرچہ توحید ہی کے پیروکار تھے اور شرک کو ایک برائی ہی قرار دیا کرتے تھے لیکن غیر محسوس طریقے پر شرک ان کے اندر شخصیت پرستی کی صورت میں سرایت کر چکا تھا۔ یہودیوں نے سیدنا عزیر علیہ الصلوۃ والسلام کو اور عیسائیوں نے سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا کا بیٹا قرار دے کر شرک کو اپنے مذہبی عقائد میں جگہ دے رکھی تھی۔

          اہل کتاب کے ہاں بھی ان کے مذہبی علماء اور صوفیاء کو وہی مقام حاصل ہو چکا تھا جو کہ اہل شرک کے ہاں ان کے مذہبی راہنماؤں کو حاصل تھا۔ ان کے ہاں مذہبی راہنماؤں کا یہ مقام اب بھی برقرار ہے البتہ ان کی سیاسی قوت کمزور پڑ چکی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم کے زمانے میں اس ذہنی غلامی کی کیا صورت موجود تھی، اس کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے:

حدثنا الحسين بن يزيد الكوفي حدثنا عبد السلام بن حرب عن غطيف بن أعين عن مصعب بن سعد عن عدي بن حاتم قال :  أتيت النبي صلى الله عليه و سلم وفي عنقي صليب من ذهب فقال يا عدي اطرح عنك هذا الوثن وسمعته يقرأ في سورة براءة { اتخذوا أحبارهم ورهبانهم أربابا من دون الله } قال أما إنهم لم يكونوا يعبدونهم ولكنهم كانوا إذا أحلوا لهم شيئا استحلوه وإذا حرموا عليهم شيئا حرموه. (ترمذی؛ کتاب التفسیر؛ حدیث 3095)

سیدنا عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم کے پاس آیا تو میرے گلے میں سونے کی ایک صلیب لٹک رہی تھی۔ آپ نے فرمایا، "اے عدی! اس بت کو اتار دو۔" میں نے آپ کو سورۃ توبہ کی یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا، "ان (اہل کتاب نے) اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور صوفیاء کو اس کا شریک بنا لیا تھا۔" اور فرمایا، "یہ لوگ ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے مگر جب وہ کسی چیز کو حلال قرار دیتے تو اسے حلال سمجھنے لگتے اور جب حرام قرار دیتے تو اسے حرام سمجھنے لگتے۔"

اگر یہودی اور عیسائی حضرات کے اپنے مذہبی لٹریچر، خاص طور پر ان کے اولیاء کرام (Saints) کے حالات زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو بعینہ یہی تصویر سامنے آتی ہے۔


فکری آزادی  کے معاملے میں اسلام کی اصلاحات

رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم نے اپنے صحابہ سے ذہنی آقا و غلام کے تعلق کی بجائے دوستانہ تعلق قائم فرمایا۔ جن معاملات میں اللہ تعالی کی جانب سے وحی نازل ہو جایا کرتی تھی، اس میں تو صحابہ سنتے اور اطاعت کرتے لیکن جہاں معاملہ دین کے کسی حکم کا نہ ہوتا، وہاں ان کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم کی ذاتی رائے سے مختلف رائے پیش کرنا بھی کوئی مسئلہ ہی نہ تھا۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول