صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


مسلمان

مشرف عالم ذوقی

ناول

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

کچھ’ مسلمان‘ کے بارے میں 

تب ہم بچے تھے  …  چھوٹے چھوٹے بچے  …  یاد نہیں ، کہ سروں پر دوپلی ٹوپیاں ہوتی تھیں یا نہیں  …  مگر اماں کہتی تھیں کہ چہرے پر نور ہی اتنا ہے کہ، ماشاء اﷲ، لڑکا دور سے ہی دیکھنے پر مسلمان لگتا ہے۔ مسلمان____ تب خود پر اتنا فخر ہوتا تھا کہ سارے کے سارے اپنے سامنے حقیر نظر آتے تھے۔ اماں کہتیں ____ آیتیں سناؤ، کلمہ پڑھو …  ہم بچے تھے ، توتلی زباں سے پڑھتے ____ تو ہمیں سننے والا مہمان خوشی سے جھوم جاتا۔ اماں تو جیسے نظر اتارنے بیٹھ جاتیں  …  میرے بچے کو بری نظر نہ لگے اﷲ!
ہمیں معلوم تھا، ہم کلمہ پڑھتے ہیں اور جو نہیں کلمہ پڑھتے ہیں ، وہ کافر …  تب اسکول میں ساتھ ساتھ پڑھنے والے ہندو لڑکوں سے دوستی کرتے ہوئے بھی، دل مانتا نہیں تھا۔ ہم کرتا پائجامہ اور سر پر ٹوپی پہن لیتے تو جیسے اماں ہماری صورت کی بلیاں لینے لگتیں۔
مگر کیا یہ صرف میری اماں ہی تھیں  …
چھوٹا سا تو شہر تھا …  آرہ____ میری اماں ، یا غفاّر کی اماں یا سلیم کی اماں  …  ذرا بھر بھی فرق نہیں تھا کسی میں  …  سب اپنے ماحول کی لاشیں ڈھوتے ہوئے اور گھر کے سامنے تھے ہندو وکیل صاحب____ ان کی بیوی چھجے پر آ کر اماں سے باتیں کرتیں  …  میں تو اپنے بچوں کو ملکی محلہ نہ بھیجوں  …
’’کیوں  … ؟‘‘
’’وہاں سب میاں ہیں نا … ‘‘
’’میاں ہیں تو کیا ہوا؟‘‘
’’ہو گا کیسے نہیں۔ کاٹ ڈالیں گے۔‘‘
تب ہم اسکول میں تھے۔ ہنود لڑکوں میں دوستی تھی اور تب کتنی ہی باتیں صاف ہوتی جا
                                                                                                                               رہی تھیں  …  وکیل صاحب کی بیوی کو میئن سے ڈر لگتا ہے ____ اس لئے وہ اپنے بچوں کو ملکی محلہ نہیں بھیجتیں۔ دوسرے یہ، (جو چھوٹے چھوٹے ، اپنے ہم عمر لڑکوں سے معلوم ہوتا) کہ مسلمان تو ناجائز طریقے سے ہندوستان پر اپنا قبضہ جمائے ہیں ، ورنہ ان کا ملک تو پاکستان ہے ____ تب آپس میں شوخیاں بھی ہوتیں۔ نوک جھونک بھی۔ جھگڑے بھی۔ تب کوئی انل ہمیں پیٹ دیتا اور ہم روتے ہوئے گھر آتے تو اماں ہمیں ڈانٹ ڈپٹ کر چپ ہو لیتیں  …  اگر غلطی سے ہم نے انل کو پیٹ دیا ہوتا تو اماں جیسے پورا گھر ہی سر پر اٹھا لیتیں  …  ’’فساد ہو جائے گا۔ دنگا ہو جائے گا۔‘‘
٭٭
چھوٹی سی عمر …  رومانی تجربوں سے گزرنے کے بجائے ، دیکھ رہی تھی____ دہشت____ دیکھ رہی تھی فساد …  دیکھ رہی تھی دھواں ____ خون اُگلتے مناظر____ تب خبروں میں ، اخباروں میں لگاتار پاکستان، ہندوستان پر بمباری کرتا تھا …  اور ہر خبر کے ساتھ ہم خود کو الزام کے کٹہرے میں پاتے تھے۔ تب لگتا تھا …  آنے والے وقت میں برائٹ فیوچر کے نام پر یہ مسلمان نام کہیں خود کے لئے ایک بددعا____ نہ بن جائے۔ تب لگتا تھا، فیوڈل سسٹم کی ساری کڑیاں ٹوٹ کر بکھرنے کے باوجود بھی، آج کے مہذب سماج میں مسلمانوں کے جھوٹے گلاس کو، کوڑے دان میں پھینکنے کی روایت برقرار ہے۔
٭٭
تب ہم بھی جینس کلچر میں رنگ گئے تھے۔ رومانی عمر کا خمار بھی کچھ بڑھ چلا تھا۔ اتنا کہ ہم خود کو لنگی اور دھوتی والوں سے زیادہ مہذب اور سیکولر مانتے تھے۔ تب آرا کے چھوٹے چھوٹے ’چاہ خانے ‘ ہوتے تھے ____ اور ہم مل بیٹھ کر بڑی بڑی باتوں کے توپ چھوڑتے تھے۔ مگر ساری توپ پھس …
٭٭
جلد ہی لگنے لگا …  وہ سب سچ نہیں ہے۔ جو ہم کہتے ہیں ____ یہ سب چاہ خانے اور میز تک کا سچ ہے۔ میز کے آگے کی دنیا میں وہی فرقہ واریت کے گدھ بیٹھے ہیں ____جو گھر پہنچتے ہی، دروازے پر قدم رکھتے ہی ہمیں یا تو ہندو بنادیتے ہیں ____یا مسلمان۔
تب کتنا کچھ محسوس ہوا تھا____ یہ بھی اور وہ بھی …  تب لوگوں نے بتایا کہ یہاں ہم محفوظ نہیں  …  مگر پاکستان میں کون سے محفوظ تھے ہم؟
تب لگا …  ’سرحد‘ بنتے ہی ٹوبہ ٹیک سنگھ، تو ہمیشہ کے لئے مر گیا____
تب لگا …  کہ جو دوسرے کہتے ہیں کہ مسلمان تو یہاں رہ کر بھی پاکستان کی ہی ’ہوا‘ چھوڑتے ہیں  …  یا یہاں کا کھاتے پیتے ہیں اور گُن پاکستان کا گاتے ہیں  …  یا کرکٹ میچوں میں پاکستان کی جیت کی خواہش کرتے ہیں  …  یا مسلمان غدار ہو گئے ہیں  …  یا یہ، کہ انہیں یہاں اچھے رتبے ، عہدے ملنا دشوار ہے  …  تو سچ کیا ہے ؟
بابری مسجد اور رتھ یاتراؤں کی بھیر میں ہم کہاں ، کتنے موقع پر ننگے ہوئے ہیں ____
تب لگا، باہر کی میز اور گھر کے دروازے پر کھڑے آدمی کے راز کو بے نقاب کرنا ضروری ہے ____
جب اتنا کچھ محسوس تب یہ بھی لگا کہ آج کے مسلمان اور بالاخانے کی طوائف میں کوئی فرق نہیں  …  دونوں ہی نکالے ہوئے ہیں۔ کوئی سماج سے ، کوئی ملک سے ____
٭٭
میں نے آج تک جتنا کچھ تحریر کیا، طوائف کا تذکرہ کہیں بھی نہیں آیا۔ حقیقت کی سرنگ میں جھانکنے اور ماحول کو پورا پورا دیکھے بغیر میں کچھ بھی لکھنے کو ادبی ذمہ داری نہیں مانتا …  اور یہ بھی سچ ہے کہ مسلمان، لکھتے وقت بھی میں کسی طوائف سے نہیں  ملا، نہ تعارف ہوا____ نہ ان کی زندگی میں جھانکنے کی کوشش کی …  پھر بھی، ان سب کے باوجود آج کے مسلمان پر جب لکھنا چاہا تو احساس ہوا …  سماج سے خارج کی گئی ایک طوائف اور آج کے مسلمان میں کیا فرق ہے  … ؟
لگا، …  پارٹیشن کے بعد جو حقارت (نفرت یا بے رخی) بچ گئی ہے ، اس کے لئے طوائف سے زیادہ بہتر کر دار کون سا ہو گا …
لیکن مسلمان صرف شہاب الدین تو نہیں ہیں ____ مولانا بخاری تو نہیں ؟
تب لگا، علم اور جاہلیت کے بیچ بھی کچھ رہ گیا ہے جسے بتانا ہو گا۔
تب لگا، ایک حق آواز تو اپنی بھی ہے ، جس میں نہ قناعت ہے ، نہ غداری۔ جہاں ایک صاف ستھرا آسمان ہے اور اس آسمان کے نیچے میرے جیسے کتنے ہی مسلمان ہیں  …  لیکن ہمارا جائزہ لیتے وقت ہمارے نمائندے شہاب الدین جیسے نیتا ہی بنتے ہیں۔
تب لگا …  اس اندھیرے سے لڑنے کی ضرورت ہے۔
ناول لکھ ہی رہا تھا کہ ایک دوست نے پوچھا____ کیا لکھ رہے ہو؟
جواب دیا …  ’’مسلمان‘‘
دوست چونک کر بولا____ کوئی آتنک واد کا موضوع چُنا ہے کیا؟
ایک بار پھر اسی مدعے پر ہوں۔ کل کو اگر یہ ناول لکھ رہا ہوتا تو ممکن ہے یہ سننے کو ملتا …  ’’کوئی مذہبی چیز لکھ رہے ہو کیا؟‘‘ وقت کے اوراق پر یہ نام آج کسی تھرلر اور دہشت پسندی پر مبنی فلم کا نام بن گیا ہے۔ کیسی عجیب بات ہے  …
آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔
آپ کا
مشرف عالم ذوقی
(1990 ہندی کتاب کا پیش لفظ)
(ترجمہ:نبی احمد)

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول