صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
مرشد
رشید امجد
کتاب ’عام آدمی کا خواب‘ سے کچھ منتخب افسانے
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
ہنوز خواب میں
آگ اب چاروں طرف تھی، تپش میں اضافہ ہو رہا تھا، لیکن
آگ نظر نہیں آتی تھی، لوگ حیران ہو ہو کر چاروں طرف دیکھتے تھے لیکن
کچھ دکھائی نہ دیتا۔
مرشد نے کہانی سنائی کہ ’’جب دشمن نے شہر پر
حملہ کیا تو وہ میلوں دور سے آتا دکھائی دیا۔ شہر والوں نے فصیلوں پر تیر
انداز کھڑے کر دیئے۔ سپاہی تلواریں اور نیزے تان کر صفوں میں آ گئے۔ دشمن
نے فصیل پر پتھر برسائے اور ایک حصہ توڑنے میں کامیاب ہو گیا۔ دو بدو
لڑائی ہوئی، مرنے والے مر گئے اور بچنے والے بچ گئے، جو ہوا آنکھوں کے
روبرو ہوا۔‘‘
اس نے ٹھنڈی آہ بھری۔ ’’اب دشمن نظر ہی نہیں آتا،
دھماکہ ہوتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ساتھ کھڑے نے خود کش بیلٹ باندھ رکھی
تھی۔ نہ مارنے والے کو معلوم کہ وہ کیوں دوسروں کو مار رہا ہے، نہ مرنے
والوں کو پتہ کہ ان کا قصور کیا ہے؟‘‘
اب شہر کا یہی حال تھا کہ صبح
گھر سے نکلے تو معلوم نہیں کون کون واپس آئے گا اور کس کس کی صرف خبر
معلوم ہو گی۔ کفن فروش الگ پریشان کہ کفن کی ضرورت ہی نہیں اور گورکن الگ
پریشان کہ قبر کی بھی ضرورت نہیں۔ ہر طرف مندی ہی مندی تھی، انسانی جانوں
کی بھی اور چیزوں کی بھی، ایک زمانہ تھا کہ چیزیں موجود تھیں اور
جیبیں خالی، اب جیبیں بھری ہوئی ہیں کہ چیزیں غائب۔
وہ ہنسا،
اسے اپنی ہنسی عجیب سی لگی کہ اس صورت حال میں بھی وہ ہنس رہا ہے لیکن
فوراً ہی احساس ہوا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو بھی ہیں۔ مرشد نے ترحم سے اس
کی طرف دیکھا، اور بولا۔ ’’جب چیزیں بے ڈھنگی ہوتی ہیں تو سب کچھ
الٹ پلٹ ہو جاتا ہے۔‘‘
اس نے سوالیہ نظروں سے مرشد کی طرف دیکھا۔
مرشد
چند لمحے چپ رہا، پھر کہنے لگا۔ ’’یہ ایک لمبا عمل ہے، ایک دن میں
سب کچھ نہیں ہو جاتا، بس جو بوؤ گے وہ تو کاٹنا ہی پڑے گا۔‘‘
اس نے ذہن پر زور دیا، یہ غلطی کہاں سے ہوئی ہے، ابھی، بہت پہلے، بہت پہلے سے بھی بہت پہلے، کب‘‘
تاریخ
کے قبرستان میں مردہ قوموں کے کتبوں پر ان کی داستان رقم تھی، کہاں سے
آغاز ہوا، کمال کا نقطہ کہاں تھا اور ڈھلوان کا سفر کب شروع ہوا۔
تیزی
سے لڑکھتے ہوئے اس نے ایک پتھر سے ٹیک لگانے کی کوشش کی، لیکن پتھر
بھی اس کے ساتھ ہی لڑکھنے لگا۔ اوپر دور ماضی کی چمک، اب حال مسلسل
پھسلتے چلے جانا اور مستقبل نیچے ایک اندھی گہری کھائی۔
’’کیا مقدر ہے ؟‘‘اس نے سوچا، سمجھ نہ آیا کہ ہنسے یا روئے۔
مرشد نے کہا۔ ’’ہنسنے رونے والے کا قصہ بھی عجیب ہے۔‘‘
’’کیا‘‘
’’ایک
شخص کو کسی قصور کی سزا ملی کہ یا سو پیاز کھائے یا سو جوتے۔ اس شخص نے
پیاز کھانے کو ترجیح دی دو چار جوتوں کے بعد وہ رونے لگا اور خواہش کی کہ
اسے جوتے مارے جائیں ، تین چار جوتے کھانے کے بعد اسے ہنسی آ گئی کہ
پیاز ہی بہتر تھا، سو اسی رونے ہنسنے میں اس نے سو جوتے بھی کھائے اور سو
پیاز بھی ‘‘۔
اس نے سوچا۔ ’’یہی میرا حال ہے۔‘‘
کچھ دیر خاموشی رہی، پھر اس نے پوچھا۔ ’’یہ معاملہ کیا ہے؟‘‘
مرشد
بولا۔ ’’پہلے دن ہی سے غلطی ہوئی ہے، ابتداء انسان سے ہوتی ہے، انسان سے
زبان، زبان سے ادب، ادب سے تنقید اور تنقید سے ترقی جنم لیتی
ہے، تم نے انسان بننے کی کوشش ہی نہیں کی، اگلے مرحلے کیسے طے
ہوتے؟‘‘
’’تو میں انسان بھی نہیں ‘‘ اس نے سوچا۔
ٹی وی کی خبر
نے اسے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ بگ بینگ کی اصلیت معلوم کرنے کے لیے جو ٹنل
بنائی گئی تھی اس میں کچھ خرابی پیدا ہو گئی ہے جسے دور کرنے کی کوشش کی
جا رہی ہے۔
اس نے چینل بدل دیا۔ دوسرے چینل پر سوال جواب کی محفل
تھی، ایک صاحب نے سوال کیا۔’’میں مغرب میں رہتا ہوں ہم جب سٹور سے
سامان لینے جاتے ہیں تو سیلز مین سے بقیہ رقم لیتے ہیں۔ یہ سیلز مین غیر
مذہب کا ہے، شراب پیتا ہے، انہی ہاتھوں سے شراب اٹھاتا ہے کیا اس کے
ہاتھوں سے بقیہ لینا جائز ہے؟‘‘
وہ جھنجلا گیا۔ ’’اتنا جھنجلا یا کہ سر نوچنے اور چیخنے لگا۔ گھر کے سارے لوگ بھاگے دوڑے آئے۔ ’’کیا ہوا۔ کیا ہوا‘‘
لیکن وہ کچھ کہے بغیر چیختا اور اپنے بال نوچتا رہا۔
٭٭٭