صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


مرقع سیرت طیبہ

سید نصیرالدین احمد

ڈاؤن لوڈ کریں 

  صرف ورڈ فائل  

قرآن مجید : چند اہم معلومات 

از۔ ۔ ۔  شاہ مصباح الدین شکیل

وحی وہ ذریعہ ہدایت ہے جو نبیوں جیسی معصوم ہستیوں کے لئے مخصوص ہے۔ یہ اپنی رہنمائی میں ہر قسم کی خطا و غلطی سے محفوظ و مامون ہے۔ وحی کے اصطلاحی معنی وہ کلام الٰہی ہے جو کسی نبی پر نازل کیا جاتا ہے۔ نبی اس وحی کو زبان سے ادا کرتا ہے ، لکھوادیتا ہے۔ وحی کی دوقسمیں ہیں۔ وحی متلو یعنی الفاظ کے ساتھ نازل ہونے والی وحی جیسے قرآن مجید۔ وحی غیر متلو یعنی بغیر لفظوں کی وحی۔ حکم رب کو نبیﷺ اپنے الفاظ میں ادا کرتے ہیں جیسے احادیث نبیﷺ کے بارے میں سورہ نجم میں فرمایا۔ ’’ اور نہ خواہش نفس سے منہ سے بات نکالتے ہیں۔ یہ تو حکم خدا ہے جو بھیجا جاتا ہے ‘‘۔

جبل نور کے غارِ حرا میں پہلی وحی سورہ علق کی ابتدائی پانچ آیات کا نزول ہوا۔ اس پہلی وحی کو لکھنے کا شرف حضرت خالدؓ بن سعید ا لعاص رضی اللہ عنہ ، کے حصہ میں آیا۔ آخری وحی وفات سے ۹ دن پہلے ۳! ربیع الاول   ۱۱ ھ کو نازل ہوئی جسے املا کرنے کا اعزاز حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ، کو حاصل ہوا۔ پہلی وحی کے بعد جب بھی کسی وحی متلو کا نزول ہوتا ، رسول اللہﷺ کا تب کو طلب فرماتے اور اسے لکھوادیتے۔ یہ بھی ارشاد ہوتا کہ فلاں سورہ میں فلاں آیت کے پہلے یا بعد میں لکھو۔ لکھا ہوا پڑھو ا کر ضرور سنتے کہ کوئی غلطی نہ رہے۔ یہ ترتیب لوح محفوظ کے مطابق وحی کے لانے والے جبریل امین علیہ السلام بتلاتے۔ صحابہ کرامؓ اسی ترتیب سے حفظ کرتے۔ نمازوں میں دہراتے۔ قرآن مجید کی آیات پتھر کی پتلی تختیوں ، اونٹ کے شانے کی چوڑی ہڈیوں ، کھجور کی شاخوں کے جڑوالے کشادہ حصوں ، چمڑے کے ورق اور پالاں کی لکڑیوں پر لکھی جاتیں اور انہیں مسجد نبوی میں ایک تھیلہ میں محفو ظ کر دیا  جاتا۔ اسی سے صحابہ کرامؓ نقل کرتے اور حفظ کرتے۔

قرآن کی آیات کسی واقعہ یا سوال پر نازل ہوتیں۔ کبھی چھوٹی سورتیں کوثر ، اخلاص ،  فلق و ناس وغیرہ مکمل نازل ہوئیں۔ پہلی مکمل نازل ہونے والی سورت ، سورۃ فاتحہ اور آخری سورۃ نصر ہے۔ ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ پچاس آیات سورئہ المرسلات کی اتریں۔ مکی سورتوں میں اعتقادات پر زور ہے۔ مدنی سورتوں میں زیادہ احکامات ہیں۔

ہر رمضان کے عشرہ اعتکاف میں رسول اللہﷺ حضرت جبریل علیہ السلام کے سامنے نازل شدہ قرآن مجید کا دورہ فرماتے۔ اپنی زندگی کے آخری رمضان میں جو وصال سے چھ ماہ پہلے آیا تھا۔ بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ پہلے عشرہ میں حضرت جبریل علیہ السلام کے آگے ایک دور مکمل فرمایا۔ دوسرے عشرہ میں دہراتے وقت کا تب وحی حضرت زیدؓ بن ثابت کو طلب فرمایا۔ وہ بھی حضورﷺ کی زبان مبارک سے دورئہ قرآن سنتے رہے۔ حضرت زیدؓ اسی ترتیب سے تلاوت کرتے تھے۔

خلافت صدیقی میں جنگ یمامہ کے بعد حضرت عمرؓ کے توجہ دلانے پر قرآن مجید کتابی صورت میں مدون ہوا۔ ۷۵ صحابہ کرامؓ کی جماعت نے یہ اہم کام انجام دیا۔ کاتب وحی حضرت زیدؓ بن ثابت اور امت کے حضر ت ابیؓ بن کعب اس کمیٹی کے معتمد تھے۔ جمع کرنے کا طریقہ یہ طے پایا کہ جب تک کسی سورہ یا جز کی دو تحریری شہادتیں پیش نہ ہوں اسے قرآن میں درج نہ کیا جائے۔ نیز حفاظ حلفیہ گواہی دیتے کہ ہم نے رسولﷺ کو ان آیات کو اسی ترتیب سے تلاوت کرتے سنا ہے۔ تب حضرت زیدؓ جو خود بھی حافظ  تھے اسے قبول کرتے۔ یہ کتابت ’’ القراطیس ‘‘ چمڑے کے ایک جیسے اوراق پر ہوئی۔ ان کو ’’ ربعہ ‘‘ ( مساوی طول و عرض والے اوراق ) بھی کہتے ہیں۔ یہ کتابت شدہ نسخہ ‘‘ مصحفِ صدیقی ‘‘کہلایا۔ اسے حضرت ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ کروادیا گیا۔

۲۵   ھ میں حضرت حذیفہؓ بن یمان نے آذربائیجان کے جہاد سے لوٹ کر محاذ پر قرآن کی قرات میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف پر امیر المومنین حضرت عثمانؓ کی توجہ مبذول کروائی۔ انھوں نے حضرت زیدؓ بن ثابت ، حضرت عبداللہؓ بن زبیر ، حضرت سعیدؓ بن العاص اور حضرت عبد اللہؓ بن حارث بن ہشام پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی اور انھیں حکم دیا کہ مصحف صدیقی کو قریش کی قراء ت اور لہجہ کے مطابق لکھو کیونکہ قرآن ان ہی کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ اس تیا ر شدہ مصحف کے چار نسخے نقل کروا کر ہر صوبہ کے دارالحکومت میں روانہ فرمائے۔ ایک مسجد نبوی میں رکھوایا۔ حکم دیا کہ مختلف قبیلوں کی زبان میں موجود قرآن پاک کے نسخے تلف کر دئے جائیں اور آئندہ ان نسخوں کے مطابق لکھے جائیں۔ دنیائے اسلام پر یہ حضرت عثمانؓ کا بڑا احسان ہے۔ ان معنوں میں انھیں جامع القرآن کہا جاتا   ہے۔

حضرت عثمانؓ کے تیار کروائے ہوئے مصحف میں اعراب نہیں تھے۔ ابوالاسود دوئل ( متوفی ۶۹ھ ) نے ایک غیر عرب کو تلاوت میں الفاظ غلط پڑھتے سنا۔ اس نے آیات پر اعراب لفظوں کی صورت میں لگائے ایسی ایک کوشش حجاج بن یوسف کے نام سے بھی منسوب ہے۔ خلیل بن احمد ( متوفی ۱۷۰ھ ) نے نقطوں کی جگہ اعراب یعنی زیر۔ زبر۔ پیش۔ جز م۔ تشدید وغیرہ کی علامات ایجاد کیں۔ اس سے صحیح تلاوت میں بیحد سہولت ہو گئی۔

عرب میں مکی۔ مدنی۔ بصری اور کوفی رسم الخط رائج تھا۔ مکی اور مدنی رسم الخط میں آسان جھکاؤ ہیں۔ عہد رسالت اور خلفائے راشدین میں مدنی رسم الخط مستعمل تھا۔

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

  صرف ورڈ فائل  

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول