صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
مقدمہ شعر و شاعری
الطاف حسین حالی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
زمانۂ جاہلیت کے اشعار کی تاثیر
اس کے سوا زمانۂ جاہلیت کی شاعری میں ایسی مثالیں کثرت سے پائی جاتی ہیں کہ مثلاً شاعر اپنے قبیلہ کو جب کہ تمام قبیلہ کے لوگ اپنے مقتول کا خوں بہا لینے پر راضی ہیں ملامت کرتا ہے اور قاتل سے انتقام لینے پر آمادہ کرتا ہے۔ یا کسی رنجش کی وجہ سے اپنے قبیلہ کو دوسرے قبیلہ سے لڑنے یا بدلہ لینے کے لیے بر انگیختہ کرتا ہے۔ یا اپنے پانی کے چشمے یا چراگاہ کے چھن جانے پر قوم سے مدد لینی اور ان میں جوش پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اور اکثر اپنی تحریصوں میں کامیاب ہوتا ہے۔ مثلاً عبد اللہ بن معدیکرب جو کہ بنی زبید کا سردار تھا۔ ایک روز بنی مازن کی مجلس میں بیٹھا تھا اور شراب پی رکھی تھی کہ مخزوم مازنی کے ایک حبشی غلام نے کچھ اشعار ایک عورت کی تشبیب کے جو کہ بنی زبید میں سے تھی گائے۔ عبد اللہ نے اٹھ کر زور سے اس کے منہ پر طمانچہ مارا۔ غلام چلایا۔ بنی مازن نے غیظ و غضب میں آ کر عبد اللہ کو مار ڈالا۔ پھر عمرو بن معدیکرب کے پاس جو کہ عبد اللہ کا بھائی تھا جا کر عذر کیا کہ تمہارے بھائی کو ہم میں سے ایک نادان آدمی نے جو نشہ میں مدہوش تھا مار ڈالا ہے۔ سو ہم تم سے عفو کے خواستگار ہیں اور خون بہا جس قدر چاہو دینے کو تیار ہیں۔ عمرو خون بہا لینے پر آمادہ ہو گیا۔ جب بھائی کی آمادگی کا حال کبثہ بنت معدیکرب کو معلوم ہوا تو اس نے نہایت ملامت آمیز اشعار کہے جن میں عمرو کو انتقام نہ لینے پر سخت غیرت دلائی ہے۔ آخر عمرو بہن کی ملامت سے متاثر ہو کر انتقام لینے کو کھڑا ہو گیا۔ اور مازینوں سے اپنے بھائی کو خون کا بدلہ لے کر چھوڑا۔
رودکی کے کلام کی تاثیر
ایران
کے مشہور شاعر رودکی کا قصہ مشہور ہے کہ امیر نصر بن احمد سامانی نے جب
خراسان کو فتح کیا اور ہرات کی فرحت بخش آب و ہوا اس کو پسند آئی تو اس نے
وہیں مقام کر دیا۔ اور بخارا جو کہ سامانیوں کا اصلی تختگاہ تھا اس کے دل
سے فراموش ہو گیا۔ لشکر کے سردار اور اعیانِ امرا جو بخارا میں عالیشان
عمارتیں اور عمدہ باغات رکھتے تھے ہرات میں رہتے رہتے اکتا گئے اور اہلِ
ہرات بھی سپای کے زیادہ ٹھیرنے سے گھبرا اٹھے۔ سب نے استاد ابو الحسن
رودکی سے یہ درخواست کی کہ کسی طرح امیر کو بخارا کی طرف مراجعت کرنے کی
ترغیب دے۔ رودکی نے ایک قصیدہ لکھا (1) اور جس وقت بادشاہ شراب اور راگ
رنگ میں محو ہو رہا تھا اس کے سامنے پڑھا۔ اس قصیدہ نے امیر کے دل پر ایسا
اثر کیا کہ جمی جمائی محفل چھوڑ کر اسی وقت اٹھ کھڑا ہوا۔ اور بغیر موزہ
پہنے گھوڑے پر سوار ہو کر مع لشکر کے بخارا کو روانہ ہو گیا۔ اور دس کوس
پر جا کر پہلی منزل کی۔
شاید اس قبیل کے واقعات ایشیائی شاعری میں کم دستیاب ہوں لیکن ایسی حکایتیں بیشمار ہیں کہ شعر کسی مناسب موقع پر پڑھا یا گایا گیا ہو۔ اور سامعین کے دل قابو سے باہر ہو گئے۔ اور صحبت کا رنگ دگر گوں ہو گیا۔ اس موقع پر ایک حکایت نقل کی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
حاشیہ
(1) ۔ اس قصیدہ کے اول کے چند شعر یہ ہیں:
بوئے یار مہرباں آید ہمے
یاد جوئے مولیاں آید ہمے
ریگ آموئے دو رشتیہائے او
پائے مارا پرنیاں آید ہمے
آب جیحون و شگرفیہائے او
ننگ مارا تامیاں آید ہمے
اے بخارا شادباش و شاذ دی
شاہ سویت میہماں آید ہمے
شاہ مان است و بخارا آسماں
ماہ سوئے آسماں آید ہمے
٭٭٭٭٭٭٭٭