صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


مناقبِ برہانی

شاہ عبدالرحمن شاہ بدھ

ترجمہ و تحقیق: سید زعیمؔ فاطمی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

   ان حالات کا بیان جو  حضرت قطب العالم رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش کے بعد بچپن میں رونما ہوئے

یہ کل انچاس(۴۹) واقعات ہیں


روایت  ۱؎  حضرت قطب العالم رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کی پیشگوئی کے مطابق ان کے وصال سے ٹھیک چار سال سات ماہ اور چار دن بعد ہوئی۔ آغاز صبح کا ہنگامہ تھا رجب کی چودہ ۱۴ ؎ تاریخ تھی اور سنہ ہجری  ۷۹۰؁ ھ تھا آپ اُچ شریف میں پیدا ہوئے آپ کے حق نویش کانوں میں پہلے پہل اذان آپ کے والد محترم خواجہ ناصر الدین محمود نے دی۔

روایت  ۲؎  آپ کی پیدائش کے تین روز بعد آپ کو دودھ  پلانے کے لئے ایک دایہ کو ملازم رکھا گیا اس دایہ نے اور دوسرے لوگوں نے بہت کوشش کی کہ آپ اس عورت کا دودھ  پیئیں مگر آپ نے اس عورت کے پستانوں کو منھ نہ لگایا تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ وہ عورت گانے بجانے والیوں میں سے ہے آپ نے صرف اپنی والدہ ماجدہ کا دودھ پیا آپ کے اوپر لباس وہی چادر تھا جو حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت  رحمۃ اللہ علیہ کے پسینے سے شرابور تھا اور جسے پہن کر حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ لیلۃ القد رکی برکات سے بہرہ اندوز ہوتے تھے اور جسے آپ نے اپنی خلافت کے نشان کے طور پر حضرت قطب العالم رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش سے قبل ہی آپ کے والد ماجد کے سپرد کر دیا تھا کہ یہ چادر حضرت قطب العالم رحمۃ اللہ علیہ کی کے لئے ہے جبکہ پہلے گزر چکا۔

روایت  ۳ ؎   رجب المرجب  ۷۹۰؁ھ کی ستائیس (۲۷)تاریخ کو کہ شب معراج بھی ہے آپ کی عمر مبارک صرف تیرہ روز کی تھی اس مبارک رات کو طلوع صبح کی روشنی کی طرح کا نور آسمان کی جانب سے حضرت خواجہ قطب العالم رحمۃ اللہ علیہ کی خواب گاہ کی طرف آتا تھا اور آپ گہوارے میں لیٹے ہوئے فصیح و بلیغ زبان میں فرما رہے ہیں ’’ ضیاء ھٰذا المصباح النور من ضوء المصباح ‘‘ اس چراغ کی روشنی صبح کی روشنی سے زیادہ تابناک ہے۔

روایت   ۴ ؎    حضرت قطب العالم رحمۃ اللہ علیہ شیر خوارگی کے زمانے میں ایک رات اپنی والدہ ماجدہ کے آغوش میں تھے کہ اچانک آسمان سے ایک روشنی حضرت سید صر الدین محمود کے گھر میں اتری جس سے شہر اکثر گھر بھی منور ہو گئے اہل شہر یہ ماجرہ دیکھ کر حیران رہ گئے اور صبح کو تحقیق حال کے لئے آپ کے گھر کی جانب آئے کہ رات کی روشنی کا سبب معلوم کریں۔

روایت   ۵ ؎   حضرت قطب العالم رحمۃ اللہ علیہ کی عمر پانچ برس کی ہوئی تو آپ نے اپنے والدِ بزرگوار سے دریافت کیا کہ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت  رحمۃ اللہ علیہ کے خرقہ ہائے تصوف میں سے کوئی خرقہ آپ کے پاس ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت مخدوم کو سائل کی آواز سے زیادہ کسی کی آواز اچھی نہیں لگتی اس لئے وہ اکثر اپنا لباس سائل کو دے دیا کرتے تھے چنانچہ ایک شاعر آپ کی اس فیاضی کے بارے میں کہا ہے۔

گویا یہ عاشق خبر اصل می رسد = ہر کہ بگوش اور سد از سائلے سوال

جس طرح عاشق کو معشوق کے وصال کی خبر سن کر خوشی حاصل ہوتی ہے یہی حال حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ کا سائل کی آواز سن کر ہوتا ہے  ’’ جو کچھ آپ کے پاس ہوتا تھا سب محتاجوں پر صَرف فرما دیتے تھے اس لئے کوئی چیز آپ کے پاس نہیں رہتی تھی البتہ آپ کے لباس میں سے دو خرقے باقی بچے تھے۔آپ کے ذمّے ایک تاجر کا اسّی ہزار(۸۰۰۰۰)روپیہ قرض تھا۔ دھلی میں سب نے سلطان فیروز سے کہا کہ تم حضرت کے عقیدت مند اور مرید ہو اس تاجر کی رقم ادا کر کے ایک خرقہ تم لے لو سلطان نے بخوشی یہ سودا قبول کر لیا اس تاجر کو جب اس بات کی اطلاع ہوئی تو وہ میرے پاس آیا اور قرض کی دستاویز دیکر کے وہ خرقہ مجھ سے لے لیا اور اپنے ساتھ خراسان لے گیا میں سمجھتا ہوں وہ تاجر بڑا خوش نصیب تھا جس نے اتنا سستا سودا کیا اب ایک خرقہ باقی رہ گیا وہ تمہارے سپرد کر دوں گا۔

 حضرت قطب العالم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا میں جب کبھی حضرت والا محترم کی خدمت میں حاضر ہوتا تو ان سے پوچھتا کہ کیا آپ نے کبھی وہ خرقہ پہنا ہے۔ایک روز میں نے دیکھا کہ آپ نے وہی خرقہ پہن رکھا ہے آپ نے اسے اتار کر عاجز دعاگو کو پہنا دیا اور حکم دیا کہ میں فیروز آباد قلعہ کے راستے سے ہو کر حضرت مخدوم  رحمۃ اللہ علیہ کے مزارپر حاضری دوں اور وہاں سے گھر جاؤں چنانچہ میں نے ایسا کیا۔ حضرت قطب العالم  رحمۃ اللہ علیہ نے مزید فرمایا کہ یہ وہ بابرکت خرقہ ہے جسے پہن کر حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کو بسا اوقات کشف ہوا ہے۔اور اکثر و بیشتر کرامات کا ظہور اسی لباس میں ہوا ہے۔اور  لیلۃ القدر  کی فیض و برکات بھی اسی دوران حاصل ہو ئی ہیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی اس کی برکات سے بہرہ ور فرمائے یہ مبارک خرقہ حضرت قطب العالم  رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے صاحبزادے محمود کو مرحمت فرمایا۔

روایت   ۶ ؎   بچپن میں حضرت قطب العالم رحمۃ اللہ علیہ جب چھ برس کے ہوئے تو آپ اپنے بعض رشتہ دارو ں کے ہمراہ شیخ مبارک کے مرید شیخ مونکر (جو شیخ جمال کے پوتے تھے )کی زیارت کے لئے اُچ شریف کی عید گاہ تشریف لے گئے شیخ مونکر عید گاہ کے جنوبی منارے پر قیام فرماتے اور اس وقت نیچے ایک درخت کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے اور شیخ موصوف کے سامنے ایک پختہ اینٹ  رکھی تھی جس پر لیموں کاٹ کر مریدوں کو دیتے تھے جب شیخ نے قطب الاقطاب کو دیکھا تو آداب بجا لائے اور حاضرین کی طرف متوجّہ ہو کر فرمایا اِس شخص کو حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ عقیدت و محبت کا وہ تعلق ہے کہ یہ اپنے دور کا اویسؔ قرنی ہے۔

روایت   ۷ ؎  حضرت قطب العالم  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میری عمر نو برس کی تھی کہ دل میں یہ آرزو کروٹیں لینے لگی کہ کاش اگر میں حضور ﷺ کے شیدائیوں میں ہوتا تو حضور ﷺ سے کفش برداری کی اجازت مانگتا اور اس سعادت سے بہرہ یاب ہوتا  انہیں ایام میں حضور ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوا کیا دیکھتا ہوں کہ شہنشاہِ رسالت اور تاجدار شریعت ﷺ تشریف لائے ہیں اور آ کر میرے پاس کھڑے ہو گئے۔میں نے اپنا سر حضور ﷺ کی نعلین پاک پر رکھ دیا حضور ﷺ کے نعلینِ مبارک نہایت عمدہ اور نفیس بنے ہوئے تھے اور اس قدر ہلکے تھے کہ وزن کیا جائے تو سولہ درہم سے زیادہ وزن نہ ہو گا حضور ﷺ کے نعلینِ مبارک سے مشک و عنبر کی خوشبوئیں اٹھ رہی ہیں اور حضور ﷺ کے دونوں پاؤں مبارک کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہے کہ اس اس عاجز کی ناک ان کے درمیان آ سکتی ہے۔اپنی پیشانی اور رخساروں اور آنکھوں کو حضور ﷺ کے نعلینِ مبارک پر رکھے ہوئے میں دیر تک روتا رہا حتیٰ کہ  اس عاجز کے آنسو سے حضور ﷺ کے نعلینِ مبارک نم ہو گئے اور میری دستار اور میرا چہرہ حضور کے پاپوش مبارک کے لمس سے معطر ہو گیا اور دیر تک میں خوشبو محسوس کرتا رہا۔

روایت   ۸ ؎  جب حضرت قطب العالم  رحمۃ اللہ علیہ کی عمر مبارک دس برس کی ہوئی تو آپ کے والد اور پیرو مرشد حضرت مخدوم سید ناصر الدین محمود  رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے آثار نمودار ہوئے۔معتبر راویوں سے یہ بات سننے میں آئی ہے کہ آپ کے فرزندوں کی مجموعی تعداد ایک سو بیس(۱۲۰)تھی۔آپ نے ان سب کو بلا کر فرمایا کہ حضور نبی کریم  ﷺ کے اس ارشاد کے بموجب کہ   ’’  ان اللہ یحب ان تعدلوبین اولاکم ‘‘ (اللہ کو یہ بات پسند ہے کہ تم اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف کرو)گھر میں جو کچھ ذخیرہ کتابوں کا اور دیگر ساز و سامان ہے اس کی مناسب تقسیم ہو جائے اور چھوٹے بھائیوں کے حصّہ رسدی کو ان کے سپرد کر دیا جائے۔صاحبزادوں میں سے ایک نے عرض کیا کہ چھوٹے بھائی چونکہ اپنے حصہ اسدی کی دیکھ بھال نہیں کر سکیں گے اللہ تعالیٰ آپ کا سایہ ہمارے سروں پر تا دیر قائم رکھے تاہم میں وعدہ کرتا ہوں کہ ان کی تربیت کا خاص طور پر خیال رکھوں گا اور ان کی تعلیم و تربیت اور ان کے روزگار کا مناسب اہتمام کروں گا۔اس دوران میں حق تعالیٰ نے حضرت مخدوم سید ناصر الدین محمود  رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت قطب العالم رحمۃ اللہ علیہ کی عظمت سے مطلع فرما دیا مگر آپ کی کم عمر ی اور نا تجربا کاری کو دیکھ کر حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ کا جی بھر آیا اور آبدیدہ ہو گئے۔ جب اس واقعہ کی خبر حضرت سید صدر الدین المعروف راجو قتال’’ راجو کو پہنچی جو حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ خلیفۂ اعظم۔آپ کے مریدِ خاص اور آپ کے حقیقی چھوٹے بھائی تھے۔جب انہیں پتہ چلا کہ ان کے بھتیجے کی حالت نازک ہے اور دم واپسی ہے اور کچھ پریشان نظر آ رہے ہیں اور غمگین و آبدیدہ ہیں تو آپ فوراً وہاں پہنچے اور بچشمِ خود آ کر آپ کی حالت دیکھی تو انہیں خیال ہوا کہ شاید موت کے غم میں پریشانی لا حق ہوئی ہے۔اُوچ شریف کی زبان میں بطورِ تسلّی فرمانے لگے۔سید محمود خوش نہو اینہا مندائی اولیاں خیرکائی۔یعنی غم مت کرو بلکہ خوش ہو جاؤ کہ اس دنیا کی نسبت وہاں بہتر رہے گا پھر یہ آیت تلاوت کی۔

الا ان اولیاء اللہ لا خوفٌ علیہم ولاھم یحزنون۔(یاد رکھو کہ اللہ کے دوستوں کو کوئی خوف اور غم نہ ہو گا )۔

حضرت محمود نے فرمایا عم محترم ! موت کا غم نہیں ہے کہ موت تو وصال یار کا ذریعہ ہے جبکہ ارشادِ نبوی ہے کہ۔

الموت جسریوصل الحبیب الی الحبیب۔(موت ایک پل ہے جو عاشق و معشوق کو ملا دیتا ہے) ہاں برہان الدین کا غم ہے کہ اس کی تربیت کیسے ہو گی۔ حضرت راجو قتال نے فرمایا۔اگر اجازت دو تو میں وہ ساری دولت جو میں نے حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی ہے۔برہان الدین کی نذر کر دوں اور خود ایسا ساتھ یہ بھی فرمایا کہ میں نے جو کچھ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت  رحمۃ اللہ علیہ سے فیض حاصل کیا ہے۔ وہ قطب العالم کو سونپتا ہوں آپ بھی اپنے تمام فیوض اس کو عطا کر دیں۔جب دونوں جلیل القدر بزرگوں نے اپنے اپنے فیوض و برکات حضرت قطب العالم کو مرحمت فرا دیئے تو حضرت شاہ راجو قتال نے حضرت قطب العالم کو اپنے دائیں کاندھے پر بٹھا لیا اور سیدھے حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت  رحمۃ اللہ علیہ کے آستانے پر حاضر ہوئے اور توجہ باطنی سے وہ تمام اسرار اور رموز اور  علومِ معارف کہ جو زندگی بھر میں آپ نے حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت  رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کیئے تھے سب کے سب حضرت قطب العالم کے دل پر القاء  فرما دیئے اور یوں ارشاد فرمایا کہ اہل گجرات کے کم عقل لوگوں کی اصلاح آپ کے ذمّے ہے۔ خوش بختی اور سعادت مندی کے ساتھ گجرات کے علاقے میں جاؤ کیونکہ تمہاری قطبیت کا ظہور اس علاقے کے لئے مقدور ہو چکا ہے۔تمہاری تربیت تمہارے بھائیوں کے ہاتھوں نہیں ہو گی بلکہ تمہارے بھائیوں کی اولاد گجرات پہنچ کر خود تم سے مستفیض ہو گی اور دنیا  و آخرت کی سعادتوں کا فیض وہ لوگ تم سے حاصل کریں گے مزید بر آں وہ تین ظاہری نعمتیں جو کہ مجھے حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل ہوئی تھیں وہ بھی تمہیں دیتا ہوں ایک تو حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کا خرقۂ خاص۔دوسرے مال و دولت کی دیگ۔تیسرے دودھاری تلوار۔پھر حضرت شاہ راجو قتال نے حضرت قطب العالم کے حقیقی بھائی سید علاء الدین سے مخاطب ہو کر فرمایا تم ہندوستان چلے جاؤ اور حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کے علوم و معارف اور آپ کے انوار  و فیوض کو ہندوستان کی سرزمین میں پھیلا دو وہاں کے بادشاہ تمہاری پالکی کو کاندھے پر اٹھانا اپنے لئے باعث فخر سمجھیں گے۔اس کے بعد آپ نے حضرت سید ناصر الدین محمود رحمۃ اللہ علیہ کو جن کا دم نزع میں تھا آ کر تسلی دی اور فرمایا برہان الدین کی جانب سے مطمئن رہو میں نے اپنے حصہ کی تمام چیزیں جو مجھے حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ سے ملی تھیں اس کے سپرد کر دی ہیں۔


 ٭٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول