صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
ممبئی
سکیتو مہتا
انگریزی سے ترجمہ : اجمل کمال
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
بمبئی
(جس کا سرکاری نام اب ممبئی ہے) ایک ایسا شہر ہے جسے شناخت کا بحران لاحق
ہے؛ یہ شہر معاشی خوشحالی اور شہری سہولتوں کی خطرناک حالت دونوں سے بیک
وقت دوچار ہے۔ یہ ہندوستان کا سب سے بڑا، سب سے تیز رفتار اور سب سے مال
دار شہر ہے۔ آخری گنتی کے وقت اس میں ایک کروڑ بیس لاکھ افراد موجود تھے
__ یونان کی پوری آبادی سے زیادہ __ اور ملک کے تمام ٹیکسوں کا ۳۸ فیصد
اسی شہر کے باشندے ادا کرتے ہیں۔ لیکن شہر کی آدھی آبادی بےگھر ہے۔
اوبرائے ہوٹل کے بے ویو بار میں آپ دوم پیرینیوں شمپین بیس ہزار دو سو
پچاس روپے میں خرید سکتے ہیں، جو ملک کی اوسط سالانہ آمدنی سے ڈیڑھ گنا
بڑی رقم ہے؛ اور اس شہر کے چالیس فیصد مکانات پینے کے صاف پانی سے محروم
ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں اب بھی لوگ بھوک سے مر جاتے ہیں، بمبئی کو یہ
اعزاز حاصل ہے کہ یہاں ۱۵۰ سے زیادہ ڈائٹ کلینک موجود ہیں۔ گیٹ وے آف
انڈیا پر لگی تختی اسے Urbs prima in India قرار دیتی ہے۔ اور
پیش گوئی کے مطابق سن ۲۰۲۰ تک بمبئی دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر
بن چکا ہو گا۔
چار سال پہلے اس شہر نے اپنے آپ سے
جنگ شروع کر دی تھی۔ ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کو ایودھیا میں واقع ایک مسجد،بابری
مسجد، جنونی ہندوؤں کے ایک ہجوم کے ہاتھوں مسمار کر دی گئی تھی۔
ایودھیا یہاں سے سیکڑوں میل دور اُتر پردیش میں واقع ہے، لیکن اس کے ملبے
نے اُن دیواروں کے لیے بنیاد فراہم کی جو بمبئی کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے
درمیان اُٹھ آئیں۔ فسادات کے ایک سلسلے میں ۱۴۰۰ افراد ہلاک ہو گئے۔ چار
سال بعد میں واپس بمبئی میں تھا اور شہر کی پسماندہ بستیوں کی عورتوں کے
ساتھ ایک دورے پر نکلنے کا پروگرام بنا رہا تھا۔ جب میں نے آنے والے جمعے،
یعنی ۶ دسمبر، کی تاریخ تجویز کی تو خاموشی چھا گئی۔ عورتیں ایک دوسرے کی
طرف دیکھ کر کھسیانی ہنسی ہنسنے لگیں۔ آخر ان میں سے ایک بولی: "اس تاریخ
کو کوئی اپنے گھر سے نہیں نکلے گا۔"
بمبئی کا
فساد تین ایکٹ کا ایک المیہ تھا۔ پہلے پولیس اور مسلمانوں کے درمیان
جھڑپوں کا سلسلہ چلا۔ اس کے بعد، جنوری میں، زیادہ سنگین فسادات کی لہر
اٹھی، جسے ہندو سیاسی تنظیم شِو سینا نے انگیخت کیا تھا، اور جس میں
مسلمانوں کو باقاعدہ شناخت کر کے منظم طور پر قتل کیا گیا، اور ان کی
دکانوں اور مکانوں کو جلایا اور لُوٹا گیا۔ تیسرا مرحلہ مسلمانوں کے
انتقام پر مشتمل تھا: ۱۲ مارچ کو شہر بھر میں بارہ بم پھٹے۔ ایک دھماکا
اسٹاک ایکسچینج میں اور ایک ایر انڈیا کی عمارت میں ہوا۔ بم کاروں اور
اسکوٹروں میں رکھے گئے تھے۔ تین سو سترہ لوگ ہلاک ہوے، جن میں بہت سے
مسلمان تھے۔
اس کے باوجود ان دھماکوں کے ذمے
داروں کو مسلمانوں کی تحسین حاصل ہوئی: مجبور کی جگہ جابر بننے کی وہی
طاقت ور خواہش جو دنیا بھر کی اقلیتوں میں پائی جاتی ہے۔ بمبئی میں میری
جتنے مسلمانوں سے بات ہوئی ان میں سے تقریباً ہر ایک اس خیال سے متفق تھا
کہ فسادات نے ان کے عزتِ نفس کے احساس کو تباہ کر ڈالا تھا؛ وہ اپنے بیٹوں
کو ذبح ہوتے اور اپنی متاع کو جلتے ہوے بےبسی سے دیکھ رہے تھے اور کچھ
نہیں کر پا رہے تھے۔ بمبئی میں ۱۶ لاکھ مسلمان رہتے ہیں، یعنی شہر کی کل
آبادی کے دس فیصد سے زیادہ۔ جب یہ لوگ لوکل ٹرینوں میں سفر کرتے تو اُن کا
سر جھکا ہوا ہوتا۔ وہ فتح مند ہندوؤں سے کس طرح آنکھیں چار کر سکتے تھے؟
پھر بموں کے دھماکے ہوے، اور ہندوؤں کو پتا چلا کہ مسلمان بےبس نہیں ہیں۔
ٹرینوں پر اب وہ پھر سر اونچا کر کے کھڑے ہو سکتے تھے۔
پچھلے سال دسمبر میں مجھے اس جنگ کے میدانوں کو دیکھنے کا موقع ملا؛
میرے ساتھ شِو سینا کے لوگ تھے اور ایک پرائیویٹ ٹیکسی آپریٹر راگھو، ایک
پستہ قد، بھاری جسم والا شخص جس کی جینز پر Saviour کا لیبل لگا ہوا تھا۔
وہ شِو سینا کا باقاعدہ ممبر نہیں تھا، لیکن جب پارٹی کو کوئی کام پڑتا تو
مقامی شاخ کا لیڈر اُسے بلا بھیجتا تھا۔ اس نے مجھے جوگیشوری کا دورہ
کرایا، یعنی اُس غریب بستی کا جہاں سے ۸ جنوری ۱۹۹۳ کو فساد کی دوسری لہر
شروع ہوئی تھی۔ مسلمانوں کے علاقے میں واقع رادھا بائی چال میں ہندو مل
مزدوروں کا ایک خاندان سو رہا تھا۔ کسی نے ان کا دروازہ باہر سے بند کر
دیا اور کھڑکی سے پٹرول بم اندر پھینک دیا۔ گھر کے سارے لوگ چیخیں مارتے
اور دروازے کو دھکیلنے کی کوشش کرتے ہوے جل کر ہلاک ہو گئے۔ ان میں ایک
نوعمر اپاہج لڑکی بھی تھی۔
راگھو اور کچھ دوسرے
لوگ مجھے اس پسماندہ بستی کی ایسی تنگ گلیوں میں سے لے گئے جہاں دو آدمی
کندھے سے کندھا ملا کر نہیں چل سکتے۔ شروع شروع میں ان کا رویّہ ذرا محتاط
رہا۔ لیکن جب ہم ایک مسجد کے پاس سے گزرے تو راگھو ہنسنے لگا۔ "اس مسجد
میں ہم نے ہگا تھا۔" اس کے ایک ساتھی نے اسے تنبیہ کرنے کے انداز میں
گھورا۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اُس کی بات کا کیا مطلب تھا۔ شِو سینا
کے جنونیوں نے کھانا پکانے کی گیس کا ایک سلنڈر لے کر اس کا والو کھولا،
ماچس کی تیلی دکھائی اور اسے اندر لڑھکا دیا۔ اس کے بعد وہ پولیس میں
بھرتی ہو گیا، جہاں اس کی نوکری اب بھی قائم ہے۔
٭٭٭