صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
ملاقاتیں اور یادیں
راشد اشرف
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
ایک ستارہ اور ٹوٹا ۔ میرا پیغام تعزیت ہے جہاں تک پہنچے
شہرت بخاری نے اپنی خودنوشت کھوئے ہوؤں کی جستجو میں لکھا تھا کہ یہ موت مجھے کہیں مجسم حالت میں مل جائے تو میں اس کا منہ نوچ لوں، کلیجہ چبا لوں۔ یہ ڈائن بار بار ہمارے پیاروں کو ہم سے جدا کر دیتی ہے۔
موت لے جائے گی مہ پاروں کو
ہائے یہ لوگ بھی مر جائیں گے
لیکن صاحبو ! موت تو برحق ہے۔ ۔ ۔ اپنا وار کرتی رہے گی۔ علم تصوف میں بتایا جاتا ہے کہ زمانے میں ہمہ وقت " حشر نشر " کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک سمت سے ہر لحظہ مخلوقات کو دنیا میں نشر کیا (پھیلایا) جا رہا ہے اور دوسری جانب انہیں حشر (جمع ہونے/سمیٹے جانے)کا سامنا ہے۔ یوں زمانے کی گود میں ازل سے ترتیب و ابتری حرکت میں ہیں، اور روئے زمین پر اسی طور ابد تک محبت اور موت کی نبرد آزمائی جاری رہے گی۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے (ترجمہ): " یہی ہے ازل سے تیرے رب کا طریقہ اور تو ابد تک اس میں کوئی تبدیلی نہ پائے گا۔
فیض لدھیانوی (وفات:۶ جنوری ۱۹۹۵۔ لاہور) کا کیا خوب اور منفرد شعر ہے:
میں ہوں ناواقف مگر ہر سال آتی ہے ضرور
فیض جس کو کل کہیں گے میری تاریخ وفات
اے حمید صاحب نے اپنے ایک یادگار ناول ڈربے (مطبوعہ ۱۹۶۰) میں ایک گورکن کی زبانی موت کے فلسفے پر سادہ و دلنشین انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
اس گورکن کی ہر نصیحت کسی نہ کسی مقولے پر ختم ہوا کرتی۔ وہ پڑھا لکھا بالکل نہ تھا مگر اس کی باتیں دور دور کی خبر لایا کرتیں۔ موت کے فلسفے پر وہ اس قدر آسانی سے روشنی ڈالا کرتا کہ ہر لفظ جگنو کی مانند چمک چمک کر اپنا مفہوم بتا دیتا تھا:
" لوگ موت سے خواہ مخواہ ڈرتے ہیں۔ سچ پوچھو تو زندگی کے لیے یہ بڑی ضروری شے ہے۔ ہمیں پھول کیوں اچھے لگتے ہیں ؟ اس لیے کہ وہ تھوڑی دیر کے لیے کھلتے ہیں۔ اور پھر مرنے سے ہمیں نقصان ہی کیا ہوتا ہے۔ یہی نا کہ ہم اس دنیا میں باقی نہیں رہتے، تو اس میں حرج کی بات کیا ہے۔ اگر موت نہ ہوتی تو لوگ پہاڑوں سے کودتے، پتھر باندھ کر دریاؤں میں چھلانگ لگاتے، انجن تلے سر دیتے۔ پھر سوچو زندگی کتنی گھناؤنی ہوتی۔ بھئی میں تو ہنسی خوشی جان دوں گا۔ موت کا استقبال تہوار کی صورت ہونا چاہیے۔ برخوردار یہ سب دکھوں کا آخری علاج ہے۔ ‘
کہتے ہیں اگلے وقتوں میں روح قبض کروانے پر مامور فرشتے کو آتا دیکھ کر لوگ دشنام طرازی کیا کرتے تھے۔ طے پایا کہ اس سے بچنے کے لیے موت کے مختلف ذرائع مقرر کر دیے جائیں۔ لہذا ہم نے دیکھا کہ اے حمید صاحب نمونیہ کے شدید حملے کا شکار ہوئے اور تقریباً دو ماہ تک اسپتال میں داخل رہنے کے بعد کل رات دو بجے انتقال کر گئے۔ انا للہ و انا علیہ راجعون
وہ تمام عمر سکرات کے اس عالم سے محفوظ رہے جس سے خاص کر ہمارے معاشرے کا کم و بیش ہر ادیب و شاعر گزرتا ہے یعنی زندگی میں قدر نہ ہونے کا احساس۔ اے حمید صاحب کو ان کے چاہنے والوں سے بے اندازہ محبت ملی!
آج علی الصبح ان کے انتقال کی خبر آج ٹی وی نامی چینل سے ملی۔ سات بجے راقم نے ان کی رہائش گاہ پر فون کیا اور ان کی اہلیہ سے بات ہوئی۔ وہ اسپتال میں پچھلے دو ماہ سے مقیم تھیں جہاں پنجاب حکومت نے ان کے لیے ایک کمرہ مخصوص کر دیا تھا۔ ان کو اسپتال انتظامیہ نے رات دو بجے اطلاع دی کہ حمید صاحب کی حالت نازک ہے۔ جب وہ کمرے میں پہنچیں تو حمید صاحب جا چکے تھے!۔ ۔ ۔ ۔ کل رات اچانک ان کے جسم میں پانی بھرنا شروع ہو گیا تھا اور دو بجے ان کا انتقال ہو گیا۔ مجھ سے گفتگو کرتے وقت حمید صاحب کی اہلیہ کا لہجہ پرسکون تھا۔ وہ کہہ رہی تھیں :
حمید صاحب کے چہرے پر بڑا سکون تھا اور اس کئی لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ انتقال کے بعد ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔
میں نے دریافت کیا کہ اس وقت ان کا جسد خاکی کہاں ہے تو ان کی اہلیہ نے بتایا کہ ابھی ابھی ان کو اسی کمرے میں لایا گیا ہے جہاں میں (راقم) ۲۰۰۸ میں ان سے ملاقات کی غرض سے دیر گئے تک بیٹھا رہا تھا۔ آج یعنی بروز جمعہ، بعد نماز ان کا جنازہ ہے۔
چشم تصور سے میں نے وہ منظر دیکھا ور بوجھل دل کے ساتھ روایتی تعزیتی جملے کا سہارا لیا:
اللہ آپ کو وقت کے ساتھ صبر دے!
‘ بیٹا! وقت تو میرے لیے رک گیا ہے، ختم ہو گیا ہے، تو یہ صبر کیسے آئے گا ؟ ‘
حمید صاحب کی اہلیہ کے اس جواب سے میری آواز میرا ساتھ چھوڑ گئی۔
اے حمید صاحب اپنی خودنوشت تحریر کر رہے تھے اور میں اکثر ان سے اس بارے میں فون پر دریافت کر لیا کرتا تھا۔ شاید کم لوگ یہ بات جانتے ہوں گے کہ انہوں نے اپنی خودنوشت کا عنوان ’چھوڑ آئے وہ گلیاں ‘ مقرر کیا تھا۔
فارغ بخاری کی خودنوشت ’مسافتیں ‘ کا آخری باب ان کے بیٹے قمر عباس نے تحریر کیا تھا جو خود بھی ایک مصنف تھے اور بعد ازاں ۷ مئی ۲۰۰۷ کے روز پشاور میں قتل کر دئے گئے تھے۔
حمید صاحب! اللہ تعالی آپ کو اپنی عنایتوں کے سائے تلے ہمیشہ رکھے۔ ۔ ۔ لیکن آپ کی خودنوشت کا آخری باب کون تحریر کرے گا ؟
٭٭٭