صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
میاں ! مجھ پر بھی مضمون لکھو
عظیم اختر
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
عید کا چاند ہو گیا
صاحبو!اب تو عید کا چاند دیکھنے کا شوق ہی نہیں رہا۔ ہلال عید کی جھلک دیکھنے کے لیے نہ لڑکے بالے کھوکھلی دیواروں پر چڑھتے ہیں اور نہ اونچے مکانوں کی چھتوں پر۔ بس افطار کے بعد ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں اور 29ویں کے چاند کا مژدہ سننے کے لیے بیتابی سے چینل بدلتے رہتے ہیں۔ چاند دیکھنے کا اہتمام رویت ہلال کمیٹیوں کے مولویوں کے سپرد کر دیا گیا ہے، لیکن آج سے پچاس پچپن برس پہلے بائیس خواجاؤں کی اس بستی میں 29ویں روزے کو عید کا چاند دیکھنے کے شوق اور اہتمام کا عالم ہی کچھ اور ہوتا تھا۔ افطار سے پہلے اونچے مکانوں کی چھتیں آباد ہونی شروع ہو جاتیں۔ چاند دیکھنے کے شوق میں لڑکے بالے، بالیاں، عورتیں اور مرد اپنے اپنے مکانوں کی چھتوں پر چڑھ جاتے۔ وہیں روزہ افطار ہوتا اور پھر ہلال عید کی تلاش شروع ہو جاتی۔ وفور شوق کے مارے انتیس کا چاند دیکھنے میں کوئی کمی نہ چھوڑتے۔ اگر خوش قسمتی سے باریک سا چاند اپنی جھلک دکھا دیتا تو فضا میں نعرۂ تکبیر کی صدا گونجتی اور چھتوں پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ چھتوں پر سے ہی پڑوس کی خالاؤں، ممانیوں، بھابھیوں اور چچیوں کو سلام کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ مرد فوراً خریداری کے لیے بازار کا رخ کرتے، عورتیں عید کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتیں اور لڑکے بالے گلی کوچوں میں ’چاند ہو گیا‘ ’چاند ہو گیا‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے ہڑدم مچانے لگتے۔ ہیئر کٹنگ سیلونوں اور چائے خانوں میں فلمی گیتوں کی آواز اپنے عروج پر ہوتی۔ اگر انتیس کا چاند نظر نہ آتا تو وفور شوق پر اوس پڑ جاتی۔ لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے، لیکن رات دیر گئے تک سڑکوں پر یہی سوال گردش کرتا رہتا کہ ’’میاں چاند کی کوئی اطلاع آئی۔‘‘
آج بھی جب دہلی کے مطلع پر انتیس کا چاند نظر نہیں آتا تو یہی سوال یہاں کی گلیوں اور کو چوں میں گردش کرنے لگتا ہے۔ شوق بے انتہا کے ساتھ ایک دوسرے سے بس یہی سوال پوچھا جاتا ہے ’’میاں چاند کی کوئی اطلاع آئی۔‘‘ سنی سنائی ہوئی اطلاعیں گردش کرنے لگتی ہیں ’’سنا ہے کانپور اور علی گڑھ میں چاند ہو گیا۔‘‘ ’’ارے تو پھر دہلی کتنی دور ہے یہاں بھی انشاء اللہ ہو جائے گا۔‘‘ یہ سنی سنائی باتیں گردش کرتی رہتی ہیں اور جب چاند کانپور اور علی گڑھ سے دہلی کی طرف بڑھتا نہیں تو ایمان والے اتاولے ہو جاتے ہیں۔ رویت ہلال کمیٹیوں کے دفاتر پر بھیڑ جمع ہو جاتی ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر جان و مال نچھاور کرنے کا دعویٰ کرنے والوں کی اکثریت ایک مزید روزے کے بوجھ سے بچنے کے لیے گھڑی کی چوتھائی میں عید کا اعلان چاہتی ہے اور علمائے کرام بے چارے شرعی احکامات کی روشنی میں اس خواہش بے جا کو پورا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ایک بار دہلی میں مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے انتیس کے چاند نے یہاں کے روزہ داروں کو اپنی جھلک نہیں دکھائی، اس طرح اطلاعات کا بازار گرم ہو گیا کہ ’میرٹھ میں چاند ہو گیا۔‘ بلند شہر میں عید کا اعلان ہو گیا، ان خبروں نے دہلی کے روزہ داروں کے شوق عید پر مہمیز کا کام کیا۔ اگلی صبح میرٹھ و بلند شہر میں عید ہو اور دہلی والے بھلا کیوں پیچھے رہ جائیں۔ چنانچہ ایک جم غفیر رویت ہلال کمیٹی کے دفتر میں پہنچ گیا۔ تھوڑی دیر کے انتظار کے بعد نعرے بازی شروع ہو گئی اور جب ممبران شرعی احکامات کی روشنی میں عید کا اعلان نہ کرسکے اور اجلاس ختم ہو گیا تو لوگوں کا جوش اپنے عروج پر تھا، ممبروں سے سوال و جواب شروع ہو گئے اور بات اتنی بڑھی کہ ایمان والوں نے کمیٹی کے ایک معزز ممبر کو مسجد کی حوض میں پھینک دیا اور دوسرے ممبران خوفزدہ ہو کر بھاگے اور امام صاحب نے حجرے میں جا کر پناہ لی ’’حوض میں پھینکے جانے والے ممبر بے چارے چھوٹے قد کے بزرگ تھے اس سے پہلے کہ وہ حوض میں ڈبکیاں کھاتے اور صورت حال بگڑتی کچھ لوگوں نے ان کو جلدی سے باہر نکالا اور بخیر و عافیت گھر پہنچا دیا۔ پتہ نہیں یہ حوض کا خوف تھا یا شہادت کے تمام تقاضے پورے ہو گئے تھے کہ نصف رات کے بعد عید کا اعلان کر دیا گیا اور پرانی دہلی کے اہل ایمان کی منوکامنا پوری ہو گئی تھی، لیکن دہلی کی دور دراز کی کالونیوں میں رہنے والے مسلمان جب سحری کھانے کے بعد دوبارہ سو کر اٹھے تو دہلی والوں کی اکثریت عید کی نماز ادا کرچکی تھی۔
دو تین سال قبل پھر ایسا ہی ہوا۔ 29کا چاند علی گڑھ، میرٹھ، بلند شہر، مظفر نگر میں اپنی جھلک دکھانے کے بعد دہلی کی راہ بھول گیا، اطلاعات کا بازار گرم تھا، وہاں چاند ہو گیا، وہاں عید کا اعلان ہو گیا، دہلی کے مسلمان محلوں میں یہی سوال گردش کر رہا تھا کہ ’میاں عید کا کوئی اعلان ہوا‘‘ رویت ہلال کمیٹیاں مصروف کار تھیں، رات کے گیارہ بج رے تھے۔ لوگ غیر یقینی صورت حال سے پریشان تھے کہ اچانک ہمارے محلے کی بڑی مسجد کا سائرن بج اٹھا۔ سائرن کا بجنا تھا کہ لوگوں کے چہروں پر خوشی پھیل گئی، عید کی مبارکباد کا سلسلہ شروع ہو گیا، ہیئرکٹنگ سیلونز اور چائے خانوں میں فلمی گانوں اور قوالیوں کی ریکارڈنگ تیز ہو گئی، لوگ خوش تھے کہ رمضان خیر و عافیت سے گزر گئے کہ اچانک لاؤڈ اسپیکر پر بڑی مسجد کے امام صاحب کی آواز سنائی دی۔ وہ عام لوگوں سے مخاطب تھے بھائیو اور بہنو، چاند نہیں ہوا ہے۔ ہمارے محلے کے لمڈے بڑے حرامی ہیں، میں استنجا کر رہا تھا کہ کسی نے چپکے سے سائرن بجا دیا۔ اس لیے بھائیوں اور بہنوں کل عید نہیں ہو گی۔ مولانا یہ اعلان کر کے لوگوں کی خوشیوں پر پانی پھیر رہے تھے کہ محلے کی دوسری مسجدمیں بھی سائرن بجنے کی آوازیں آنے لگیں۔ لوگ ان مساجد کی طرف دوڑے تو وہاں کے امام حضرات بھی یہی شکایت کرتے ہوئے نظر آئے کہ ’’لمڈا سائرن بجا کر بھاگ گیا۔‘‘ اس صورت حال کے واضح ہونے کے بعد فلمی گانوں اور قوالیوں کی ریکارڈنگ بند ہو گئی۔ لوگوں کے جوش عید پر اوس پڑگئی او ران مساجد کے امام حضرات تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد پانی پی پی کر یہی اعلان کرتے رہے ’حضرات‘ ہمارے محلے کے لمڈے بہت حرامی ہیں۔ کوئی لمڈا چپکے سے سائرن بجا کر بھاگ گیا، کل عید نہیں ہے۔
٭٭٭