صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
داستان مجاہد
نسیم حجازی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
بچپن
بستی کے نخلستانوں میں سے ایک ندی گزرتی تھی۔ بستی والوں نے مویشیوں کے لیے اس ندی کے کنارے ایک تالاب کھود رکھا تھا۔ جو ندی کے پانی سے ہر وقت بھرا رہتا تھا۔ تالاب کے ارد گرد کھجوروں کے درخت ایک دلفریب منظر پیش کر رہے تھے۔ بستی کے بچے اکثر اوقات اس جگہا کر کھیلا کرتے تھے۔
ایک دن عبد اللہ۔ نعیم اور عذرا بستی کے دوسرے بچوں کے ساتھ اس جگہ کھیل رہے تھے۔ عبد اللہ نے اپنے عم عمر لڑکوں کے ساتھ تالاب میں نہانا شروع کیا۔ نعیم اور عذرا تالاب کے کنارے کھڑے بڑے لڑکوں کو پانی میں تیرتے، اچھلتے اور کودتے دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔ نعیم کو کسی بات میں بھی اپنے بھائی سے پیچھے رہنا گوارا نہ تھا۔ ابھی اس نے تیرنا نہیں سیکھا تھا لیکن عبد اللہ کو تیرتے ہوئے دیکھ کر ضبط نہ کر سکا۔ اس نے عذرا کی طرف دیکھا اور کہا۔ ”آؤ عذرا، ہم بھی نہائیں !“
عذرا نہیں جواب دیا۔”امی جان خفا ہو گی۔“
”عبد اللہ سے کیوں خفا نہیں ہو گی۔ ہم سے کیوں ہو گی۔“
”وہ بڑا ہے۔ اسے تیرنا آتا ہے۔ اس لیے امی جان خفا نہیں ہوتیں۔“
”ہم گہرے پانی میں نہیں جائیں گے۔چلو!“
”اوں ہوں۔“ عذرا نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”تم ڈرتی ہو؟“
”نہیں تو۔“
جس طرح نعیم ہر بات میں عبد اللہ کی تقلید کرنے بلکہ اس سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتا تھا۔ اسی طرح عذرا بھی نعیم کے سامنے اپنی کمزوری کا اعتراف کرنا گوارا نہ کرتی۔ نعیم نے ہاتھ بڑھایا اور عذرا اس کا ہاتھ پکڑ کر پانی میں کود گئی۔ کنارے پر پانی زیادہ گہرا نہ تھا لیکن وہ آہستہ آہستہ گہرے پانی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ عبد اللہ اور دوسرے بچے مقابل کے کنارے کھجور کے ایک خمدار درخت پر چڑھ کر باری باری پانی میں چھلانگیں لگا رہے تھے۔ عبد اللہ کی نظر نعیم اور عذرا پر اس وقت پڑی جب پانی ان کے گردنوں کے برابر آیا ہوا تھا اور دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ بدستور پکڑا ہوا تھا۔ عبد اللہ نے گھبرا کر چلانا شروع کیا لیکن اس کی آواز پہنچنے سے پہلے عذرا اور نعیم گہرے پانی میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔ عبد اللہ تیزی سے تیرتا ہوا ان کی طرف بڑھا۔ اس کے پہنچنے سے پہلے نعیم کا پاؤں زمین پر لگ چکا تھا لیکن عذرا ڈبکیاں کھا رہی تھی۔ عبداللہ نعیم کو محفوظ دیکھ کر عذرا کی طرف بڑھا۔
عذرا بھی تک ہاتھ پاؤں مار رہی تھی۔ وہ عبد اللہ کے قریب آتے ہی اس کے گلے میں بازو ڈال کر لپٹ گئی۔ عبد اللہ میں اس کا بوجھ سہارنے کی طاقت نہ تھی۔ عذرا اس کے ساتھ بری طرح چمٹی ہوئی تھی اور اس کے بازو پوری طرح حرکت نہیں کر سکتے تھے۔ وہ دو تین بار پانی میں ڈوب ڈوب کر ابھرا۔ اتنی دیر میں نعیم کنارے پر پہنچ چکا تھا۔ اس نے باقی لڑکوں کے ساتھ مل کر چیخ پکار شروع کر دی۔ ایک چرواہا اونٹوں کو پانی پلانے کے لیے تالاب کی طرفا رہا تھا، لڑکوں کی چیخ و پکار سن کر بھاگا اور تالاب کے کنارے پر سے یہ منظر دیکھتے ہی کپڑوں سمیت پانی میں کود پڑا۔ اتنی دیر میں عذرا بے ہوش کر عبد اللہ کو اپنے ہاتھوں کی گرفت سے آزاد کر چکی تھی۔ وہ ایک ہاتھ سے عذرا کے سر کے بال پکڑے دوسرے ہاتھ سے تیرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
چرواہے نے تیزی کے ساتھ جھپٹ کر عذرا کو اوپر اٹھا لیا۔ عبد اللہ عذرا سے نجات پا کر آہستہ آہستہ تیرتا ہوا کنارے کی طرف بڑھا۔ چرواہا عذرا کو لے کر پانی سے باہر نکلا اور تیزی سے صابرہ کے مکان کی طرف چل دیا۔ عبد اللہ کے تالاب سے نکلتے ہی نعیم جھٹ دوسرے کنارے پر گیا اور عبد اللہ کے کپڑے اٹھا لایا۔ عبد اللہ نے کپڑے پہنتے ہوئے نعیم پر ایک قہر آلود نظر ڈالی۔ نعیم پہلے ہی آبلہ بن رہا تھا، بھائی کے غضب کی تاب نہ لا سکا اور سسکیاں لینے گا۔ عبداللہ نے نعیم کو روتے ہوئے بہت کم دیکھا تھا۔ اس موقع پر نعیم کے آنسو اس کا دل موم کرنے کے لیے کافی تھے، اس نے کہا ”بہت گدھے ہو تم۔ گھر چلو!“
نعیم نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا۔ ”امی جان ماریں گی۔ میں نہیں جاؤ گا۔“
”نہیں ماریں گی۔“ عبد اللہ نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
عبد اللہ کے تسلی آمیز الفاظ سنتے ہی نعیم کے آنسو خشک ہو گئے اور وہ بھائی کے پیچھے ہو لیا۔ چرواہا عذرا کو اٹھائے ہوئے صابرہ کے گھر پہنچا تو صابرہ کی پریشانی کی کوئی حد نہ رہی۔ پڑوس کی چند اور عورتیں بھی اکٹھی ہو گئیں۔ بہت کوشش کے بعد عذرا کو ہوش میں لایا گیا۔ صابرہ نے چرواہے کی طرف متوجہ ہو کر کہا:
”یہ نعیم کی شرارت ہو گی۔ میں اسے عذرا کے ساتھ باہر بھیجتے ہوئے ہمیشہ ڈرا کرتی تھی، پرسوں ایک لڑکے کا سر پھوڑ دیا۔ اچھا، آج وہ گھر آئے سہی!“
چرواہے نے کہا، اس میں نعیم کا تو کوئی قصور نہیں۔ وہ بے چارا تو کنارے پر کھڑا چیخ پکار کر رہا تھا۔ میں اس کی آواز سن کر بھاگتا ہوا تالاب پر پہنچا تو آپ کے بڑے لڑکے نے عذرا کو بالوں پکڑا ہوا تھا اور وہ غوطے کھا رہی تھی۔
”عبد اللہ۔“ صابرہ نے حیران ہو کر کہا۔ ”وہ تو ایسا نہیں !“
چرواہے نے کہا ” آج تو میں بھی اس کی حرکت دیکھ کر بہت حیران ہوا ہوں۔ اگر میں موقع پر نہ پہنچتا تو اس نے معصوم لڑکی کو ڈبو دیا تھا۔“
اتنے میں عبد اللہ گھر پہنچا۔ نعیم اس کے پیچھے پیچھے سر جھکائےا رہا تھا۔ جب عبد اللہ صابرہ کے رو برو ہوا تو نعیم اس کے پیچھے چھپ کر کھڑا ہو گیا۔
صابرہ غضبناک ہو کر بولی ”عبد اللہ! جاؤ، میری آنکھوں سے دور ہو جاؤ۔ میرا خیال تھا کہ تم میں کچھ شعور ہے۔ مگر آج تم نعیم سے بھی چند قدم آگے بڑھ گئے۔ عذرا کو ڈبونے کے لیے ساتھ لے گئے تھے؟“
عبد اللہ جو سارا راستہ نعیم کو بچانے کی تجاویز سوچتا آیا تھا۔ اس غیر متوقع استقبال پر حیران ہوا۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ یہ قصور نعیم کی بجائے اس کے پر تھونپا جا رہا ہے۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ ننھے بھائی کی نگاہیں التجا کر رہی تھیں کہ مجھے بچاؤ۔ عبد اللہ کو اس کے بچانے کی یہی صورت نظر آئی کہ وہ نا کردہ گناہ اپنے سر لے، یہ سوچ کر وہ خاموش کھڑا رہا اور ماں کی ڈانٹ ڈپٹ سنتا رہا۔
رات کے وقت عذرا کو زکام کا ساتھ بخار کی شکایت ہو گئی۔ صابرہ عذرا کے سرہانے بیٹھی تھی۔ نعیم بھی غمگین صورت بنائے پاس بیٹھا تھا۔ عبد اللہ اندر داخل ہوا اور چپکے سے صابرہ کے قریبا کر کھڑا ہو گیا۔ صابرہ اس کی آمد سے بے خبر عذرا کا سر دباتی رہی۔ نعیم نے ہاتھ سے عبد اللہ کو چلے جانے کا اشارہ کیا اور اپنا مکا دکھا کر اسے اشاروں میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ چلے جاؤ ورنہ خیر نہیں۔ عبد اللہ نے اس کے اشاروں سے متاثر ہونے کی بجائے نفی میں سر ہلا دیا۔
نعیم کو اشارہ کرتے دیکھ کر صابرہ نے عبد اللہ کی طرف نگاہ اٹھائی۔ عبد اللہ ماں کی غضب آلود نظروں سے گھبرا گیا۔ اس نے کہا۔ ” اب عذرا کیسی ہے؟“
صابرہ پہلے ہی بھری بیٹھی تھی۔ اب ضبط نہ کر سکی۔ ”ٹھہرو میں تمہیں بتاتی ہوں !“ یہ کہہ کر اٹھی اور عبد اللہ کو کان سے پکڑ کر باہر لے آئی۔ صحن کی ایک طرف اصطبل تھا۔ صابرہ نے عبد اللہ کو دروازے پر لے جا کر کہا۔”عذرا کو اس لیے دیکھنے گئے تھے کہ وہ ابھی تک مری کیوں نہیں، تم رات یہیں بسر کرو!“ عبد اللہ کو یہ حکم دے کر صابرہ پھر عذرا کے سرہانےا بیٹھی۔
جب نعیم کھانا کھانے بیٹھا تو اسے بھائی کا خیال آیا اور لقمہ اس کے حلق میں اٹک کر رہ گیا۔ اس نے صابرہ سے ڈرتے ڈرتے پوچھا:
”امی جان! بھائی کہا ہے؟“
”وہ آج اصطبل میں رہے گا۔“
”امی اسے کھانا دے آؤں ؟“
”نہیں، خبردار اس کے پاس گئے تو!“
نعیم نے چند بار لقمہ اٹھایا مگر اس کا ہاتھ منہ تک پہنچ کر رک گیا۔
”کھاتے نہیں ؟“ صابرہ نے پوچھا۔
”کھا رہا ہوں امی!“ نعیم نے ایک لقمہ جلدی سے منہ میں رکھتے ہوئے جواب دیا۔
صابرہ عشا کی نماز کے لیے وضو کرنے اٹھی اور جب وضو کر کے واپس آئی تو نعیم کو اسی حالت میں بیٹھے دیکھ کر بولی:
”نعیم تم نے آج بہت دیر لگائی۔ ابھی تک کھانا نہیں کھایا؟“
نعیم نے جواب دیا۔ ”کھا چکا ہوں امی!“
صابرہ نے برتن جن میں کھانا ابھی تک ویسے ہی تھا، اٹھا کر دوسرے کمرے میں رکھ دیے اور نعیم کوسو جانے کے لیے کہا۔ نعیم اپنے بستر پر جا کر لیٹ گیا۔ جب صابرہ نماز کے لیے کھڑی ہو گئی تو وہ چپکے سے اٹھا اور دبے پاؤں دوسرے کمرے سے کھانا اٹھا کر اصطبل کی طرف چل دیا۔ عبد اللہ چرنی پر بیٹھا ایک گھوڑے کے منہ پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ چاند کی روشنی دروازے کے راستے عبداللہ کے منہ پر پڑ رہی تھی۔ نعیم نے کھانا اس کے سامنے رکھ دیا اور کہا۔ ”امی جان نماز پڑھ رہی ہیں۔ جلدی سے کھا لو!
عبد اللہ نعیم کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور بولا۔ ”لے جاؤ میں نہیں کھاؤں گا۔“
”کیوں مجھ سے ناراض ہونا ؟“ اس نے آنکھوں میں آنسو لا کر کہا۔
”نہیں نعیم، امی جان کا حکم ہے تم جاؤ!“
میں نہیں جاؤں گا، میں بھی یہیں رہوں گا۔“
”جاؤ نعیم، تمہیں امی جان ماریں گی!“
”نہیں میں نہیں جاؤں گا۔“ نعیم نے عبد اللہ سے لپٹتے ہوئے کہا۔
نعیم کے اصرار پر عبد اللہ خاموش ہو گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭