صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
اُردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ
ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
(۱) بات اٹھانا، بات الٹنا یا الٹ دینا، بات بنانا، بات اونچی کرنا، بات نیچی ہونا، بات کا بتنگڑ بنانا، بات بات میں ذکر کرنا، اعتراض کرنا،بڑھ گئی بات بات کچھ بھی نہ تھی۔ بات کا سرا پانا، بات کا سِرا ملنا، جتنے منہ اتنی ہی باتیں۔ بات بدلنا، بات بڑھنا یا بڑھانا، بات بڑی کرنا، بات بگاڑنا یا بگاڑ دینا، منہ سے نکلی بات کوٹھوں چڑھتی ہے، بات لگانا، بات میں سے بات نکالنا، بات نہ کرنا وغیرہ۔ردیف ’’ب‘‘
گفتگو ہمارے معاشرتی رویوں کا بہت بڑا حصہ ہے ہمارے بہت سے معاملات و مسائل بات چیت کے غلط رخ یا رو یہ کی بدولت بگڑ جاتے ہیں اور بات ہی سے سنورتے ہیں کہا سنی، گالی گلوچ،برا بھلا،لڑائی جھگڑا، تناتنی آخر ہمارے معاشرتی رو یہ ہیں جن کی بنیاد اکثر بات چیت سے پڑتی ہے ہم کہیں نہ کہیں گفتگو کے طریقہ سلیقہ میں غلط ہو جاتے ہیں بات آگے بڑھتی ہے غلط رخ پر آ جاتی ہے بلکہ بات کا بتنگڑ بن جاتا ہے۔
ہم غلط طور پر اپنی بات کا پچ بھی کرتے ہیں یعنی اپنی بات کو بڑا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس میں غلط اور صحیح مناسب اور نامناسب کی حدود کو اکثر نظر انداز کر جاتے ہیں اور بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے بہرحال ہماری معاشرتی اور سماجی زندگی میں جو پریشانیاں ذہنی الجھنیں شکر رنجیاں اور (دوستانہ تعلقات کا بگاڑ) اور عزیزانہ رشتوں میں گرہ پڑنا یہ سب گفتگو کے الفاظ سلیقہ اور طریقہ پر قابو نہ رہنا ہوتا ہے بعض لوگوں کو صحیح الفاظ آتے بھی نہیں بعض جلدی میں غلط سلط بات کہہ جاتے ہیں اور اس سے زیادہ بُرا یہ ہوتا ہے کہ اپنی غلطی پر اڑ جاتے ہیں اور دس باتیں اور بُری ہو جاتی ہیں اور بات کو بڑھ کر جہاں نہیں پہنچنا چاہیے وہاں پہنچ جاتی ہے اور پھر سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بات کو سنبھالنا ہر آدمی کے بس میں ہو تا بھی نہیں درگزر کرنا ایک اچھا رو یہ ہے لیکن مناسب حد تک ہی برداشت کرنا چاہئیے نامناسب حد تک بات کو پہنچانا یوں بھی صحیح نہیں ہوتا۔ توازن برقرار رکھنا چاہئے۔
کبھی کبھی بات اتنی پھیلتی بگڑتی اور اُلجھتی ہے کہ بات کا سرا نہیں ملتا کہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ اصل مسئلہ کیا تھا، اور کیوں تھا اور کیسے تھا، بات کا سِرا پکڑنے کی کوشش ہم اکثر کرتے بھی نہیں اِس سے بھی بات الجھتی ہے اور اس کا سَمٹانا یا معاملہ سے اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ باہر آنا مشکل ہو جاتا ہے۔
بہ حیثیت مجموعی سماج کو سمجھنا ماحول کا جائزہ لینا اور صورتِ حال کا تجزیہ کرنا ایک بہت ضروری امر ہے جس سے ہم خوبصورتی کے ساتھ عہدہ بَرا ہونا بڑی بات ہوتی ہے۔ معاملہ کے تقاضوں کا خیال کرنا مسئلے کے ضروری پہلوؤں پر نظر رکھنا بات کے بے تکے پن سے بچنا سچ یہ ہے کہ بہت سی سماجی برائیوں سے بچنا ہے اور بہت سی الجھنوں سے نجات پانے کی کوشش ہے۔
(۲) بارہ باٹ کرنا یا ہونا۔
بارہ باٹ کرنا تیتر بتر کرنے کو کہتے ہیں جس کے بعد جمع اور ی مشکل ہو جاتی ہے اور آدمی کچھ کرنہیں پاتا سارا کنبہ بارہ باٹ ہو گیا ہے۔
(۳)بارہ بانی کا ہو جانا۔
ہر طرح سے صحت مند ہو جانا یہ بھی دیہات میں اکثر بولا جاتا ہے صحت مندی کے لئے بھی اور کھیت کی اچھی پیداوار کے لئے بھی اب رفتہ رفتہ محاورات غائب ہو رہے ہیں یہ محاورات بھی دیہات اور قصبات تک محدود ہو گئے ہیں۔ مثلاً دیہاتی یہ کہتے ہیں کہ ذرا سی محنت کر لو وقت پر پانی دو اور کھاد ڈالو تو تمہارے کھیت بارہ بانی کے ہو جائیں گے۔
اب یہ ظاہر ہے کہ شہر کا معاشرہ جب ’’کھیت کیا ر‘‘ کی زندگی سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھتا تو اُس سے نسبت رکھنے والے محاورے بھی اس کی زبان میں داخل نہیں ہیں بالکل اسی طرح جیسے بہت سے شہری محاورے جو پڑھے لکھے اور ملازمت پیشہ طبقہ میں رائج ہیں وہ ان لوگوں کی زبان میں شامل نہیں جو کھیتی باڑی اور محنت مزدوری سے تعلق رکھتے ہیں اب جیسے (دھیلی) پاولا کمانا یا پکڑنا محنت مزدوری کرنے والوں کا محاورہ ہے۔ جو لوگ باقاعدہ تنخواہ لیتے ہیں ان کا محاورہ یہ نہیں ہو سکتا روپیہ کے مقابلہ میں (دھیلی) اور ’’دھیلی‘‘ میں ’’پاولا‘‘ آٹھ آنے چار آنے کو کہتے ہیں یہ محاورہ اس وقت کی یاد دلاتا ہے جب ایک آدمی کی مزدوری آٹھ آنے روز ہوتی تھی اور وہ بھی کاریگر کی عام مزدور کو چار آنے ملتے تھے اس طرح سے محاورات میں نہ صرف یہ ہے کہ طبقاتی ذہن کی پرچھائیاں ملتی ہیں بلکہ ایک وقت میں ایک خاص طبقہ کی جو آمدنی ہوتی تھی اس کی محنت کا جو معاوضہ ملتا تھا محاورے میں اس کی طرف بھی اشارہ ہوتا تھا۔
آج بھی ہمارے یہاں روٹی، روزی، روزگار سے لگا ہوا کہنے والے موجود ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اس زبان اس فن یا اس کام کا تعلق روٹی روزی سے جوڑ دیا جائے اِس سے ان کی مُراد روپیہ پیسہ یا آمدنی کے حصول کا کوئی ذریعہ ہوتا ہے لیکن یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ اِس کا تعلق اس وقت کی مزدوری سے ہے جب محنت کا معاوضہ پیسوں میں نہیں روٹیوں میں ادا کیا جاتا تھا اور روز کی روٹی کہا جاتا تھا روزی دراصل روزینے کو کہتے تھے یعنی روزانہ جو کچھ ملازم یا مزدور کو ادا کیا جاتا تھا وہ اس کی روزی ہوتی تھی چار آنے روز دو آنے روز ایسا بھی ہوتا تھا کہ آٹا پیسنے والی کو پیسوں کے بجائے مزدوری میں آٹا ہی دیا جاتا تھا اور بازار سے جب چیز منگائی جاتی تھی تو روٹی بنوا لے، جو، باجرا، چنے اور گیہوں کچھ بھی دوکان پر بھیج دیا جاتا تھا اور اُس کے بدلہ میں روزمرّہ کے استعمال کی چیز آ جاتی تھی۔
’’فقیر مٹھی دو مٹھی آٹا مانگتا تھا‘‘ جو ایک محاورہ ہے اور ایسا ہوتا تھا کہ صبح کے وقت جو عورتیں عام طور پر گھروں میں چکی پیستی تھیں اپنے گھر کے آٹے میں سے ایک مٹھی آٹا اُسے دے دیتی تھیں مٹھی بھر آٹا، مٹھی بھر اناج، یا مٹھی بھر چنے،یہاں تک کہ مٹھی بھر دانے خیرات یا مزدور ی کے طور پر دیئے جاتے تھے۔
ہمارا معاشرہ بدل گیا لیکن اس دور یا کسی بھی دور یا کسی بھی، معاشرے سے تعلق رکھنے والے محاورے ہم عہد یا معاصر سچائیوں کی نمائندگی اب بھی کرتے ہیں۔
(۴) بازار کے بھاؤ پیٹنا۔
یہ دیہات و قصبات میں بولا جانے والا محاورہ ہے مغربی یوپی میں یہ پیٹنا بولا جاتا ہے اور لغت المحاورات میں ’’پ‘‘ کے زبر کے ساتھ پیٹنا بھی ہے۔ لیکن بھاؤ کے ساتھ ’’پٹنا‘‘ عام طور پر نہیں آتا۔ بازار سے متعلق اردو میں بہت محاورہ ہیں بازار لگنا بازار میں کھڑے کھڑے بیچ دینا بازار میں کھڑے ہونا،گرم بازاری ہونا یا بازار سرد ہونا، اتوار کا بازار، پیر کا بازار، منگل کا بازار، ہفتہ کا بازار عام طور سے اس خاص بازار کو کہتے ہیں جو کسی خاص دن لگتا ہے اسی سے روزے بازار کا محاورہ نکلا ہے۔ بازار کا رنگ بھی ہمارے محاورات میں سے ہے اور بازار کی چیز بھی غالبؔ کا شعر یاد آ رہا ہے۔
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
جام جم سے تو مِرا جام سِفال اچھا ہے
(۵) بازاری ہزاری یا بازار کی مانگ، بازاری عورت، بازار کی زبان، بازاری رو یہ، باز ار مندا ہونا۔
یہ سب بھی ہمارے محاورات کا حصہ ہیں اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ بازار اس میں بکنے والی چیزیں بیچنے اور خریدنے والے لوگوں کا رو یہ زبان اور انداز بیان ہمارے معاشرے کو کس طرح متاثر کرتا رہا ہے۔ بازاریوں بھی ہمارے معاشرتی اداروں میں سے ہے اور ایک بڑا ادارہ ہے۔
(۶) بازی دینا یا کرنا، بازی کھانا، بازی لگانا یا بدلنا، بازی لے جانا۔
یہ سب ایسے کھیلوں سے متعلق محاورے ہیں جو مقابلہ کے لئے ہوتے ہیں اور کچھ نہ کچھ ’’بد ‘‘ کر کھیلے جاتے ہیں، جوا اسکی نمایاں مثال ہے۔ جو قمار بازی یا جوا کھیلنے ہی کی ایک صورت ہے یہ اور اس طرح تیتر بازی ہمارے معاشرے کی وہ کھیلنے کی روشیں ہیں جن کا ذکر ہماری زبان پر آتا ہے آج کرکٹ میں گیند بازی اور بلّے بازی بیت بازی، بازی کے لفظ کے ساتھ کچھ دوسری معاشرتی روشوں کا اظہار ہے بیت بازی ایک اور طرح کا مقابلہ ہے۔
(۷) بازی ہار جانا۔
مقابلہ میں شکست کھا جانا، یعنی وہ بازی ہار گیا اور اس کے دعوے جھوٹے ثابت ہوئے۔ بازی لگانے کے معنی شرط لگانے کے بھی ہیں جان کی بازی لگانا بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار ہو جانا جس کوشش میں کامیابی نہ ملے اس کو بھی بازی ہارنے کا پہلو چھپا ہوتا ہے۔
(۸) بال بال بچ گیا، بال بال دشمن ہو گیا ہے۔ بال بال گنج موتی پرونا، بال بال احسان مند ہے۔
بال بال کئی محاوروں کا بے حد اہم جز ہے جیسے بال بال بند جانا یعنی قرض میں مبتلا ہونا اور بری طرح قرض میں گھر جانا جب کہ بال بال بچنے کے معنی خطرہ سے نکل آنے کے ہیں میرے اور نقصان کے درمیان بال برابر فرق رہ گیا اسی کو بال بال بچنا کہتے ہیں بال بال گنج موتی پرونا گویا موتیوں سے بالوں کو آراستہ کرنا ہے یہ سجانے کے عمل کو آگے بڑھانا اور اس میں طرح طرح کے تکلفات برتنا ہے۔
بارہ ایران سولہ سنگھار میں یہ بھی داخل ہے کہ بال بال موتی پروئے جائیں بال بال احسان مند ہونا بھی بے حد احسان مند ہونے کو کہتے ہیں کچھ لوگ شریف ہوتے ہیں وہ کسی کے احسان کو بہت مانتے ہیں۔
(۹) بامن (برہمن) کی بیٹی کلمہ پڑھے یا بھرے۔
یعنی کسی اچھی چیز کو دیکھ کر بڑے سے بڑے آدمی کا تقویٰ ٹوٹ جاتا ہے برہمن کی لڑکی کلمہ پڑھنا یہی معنی رکھتا ہے۔
(۱۰) بانٹیا یا بانٹے۔
بانٹیا کی جمع بانٹیے ہے۔ اصل میں بانٹیے کے معنی ہیں حصّہ تقسیم کرنا حق دینا اسی لئے جس کا کوئی حق نہیں ہوتا حصّہ نہیں ہوتا اُسے کہا جاتا ہے کہ تیرا کیا ’’بانٹیا‘‘ اور اپنے حصے حق پر لگنے کا رجحان ہمارے معاشرے میں بہت ہے۔ اور جس کا وہ حق وہ حصّہ نہیں سمجھتے اس سے کہتے ہیں کہ تمہارا کیا بانٹیا یعنی تم بولنے کا حق نہیں رکھتے یہ بندر بانٹ محاورہ میں بھی شامل ہے کہ وہاں حق حصّے کی تقسیم بددیانتی کے ساتھ ہوتی ہے کہ وہ بھی ہمارے معاشرے کا ایک رو یہ ہے۔
***