صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
محمدﷺ اور ان کا پیغام
شیخ عطیۃ اللّٰہ
اردو ترجمہ: انصار اللہ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
بر عظیم پاک و ہند کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اس خطے میں آفتاب اسلام کی ضیا پاشیوں کا سلسلہ عہد نبویﷺ میں شروع ہو گیا تھا۔ اسی لیے حضور ختم المرسلین ﷺ کو اس طرف سے ٹھنڈی ہوا محسوس ہوتی تھی۔ سلطان محمود غزنوی (پیدائش:2۔ اکتوبر 971وفات:30۔ اپریل 1030) نے اپنے تینتیس سالہ دور حکومت (997-1030)میں اس خطے پر سترہ حملے کیے۔ وہ جب 18۔ اکتوبر 1025کو سومناتھ پر یلغار کے لیے روانہ ہوا تو اس کے پیش نظر پرانی اور فرسودہ تہذیب کی گرتی ہوئی عمارت کو منہدم کرنا تھا۔ اسلام نے اپنی آفاقی تعلیمات میں توہم پرستی، شرک، بت پرستی، بے عملی، بزدلی اور بے ضمیری کی مسموم فضا کے خاتمے کے لیے ایک قابل عمل اور واضح لائحۂ عمل پیش کیا ہے۔ تاریخ ہر دور میں اپنے ابراہیم ؑکی تلاش میں رہی ہے۔ یہ جہاں جسے ایک صنم کدے سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس میں مے رضا سے مست مرد حق پرست کے سامنے ایک ہی مطمح نظر ہوتا ہے کہ وہ ظلمت دہر کو توحید و رسالت کی تابانیوں سے منور کر دے۔ اس دنیا کے مال و دولت اور تمام رشتہ و پیوند کو بتان وہم و گماں سمجھا جاتا ہے۔ محمود غزنوی نے سومناتھ کو تہس نہس کر کے دیوتاؤں کی بے پناہ طاقت کے کھوکھلے دعوے کو طشت از بام کر دیا۔ (1)نظام کہنہ کے سائے میں عافیت سے بیٹھنے کے خواب دیکھنے والوں کو جلد ہی یہ احساس ہو گیا کہ قدیم اور فرسودہ تہذیب اور ثقافت کی گرتی ہوئی عمارت کے انہدام کا وقت آ پہنچا۔ اب اسلام کی ابد آشنا تعلیمات سے ہر طرف اجالا ہو گا۔ اس کے بعد خاندان غلاماں (1206-1290)، خاندان خلجی (1290-1320)، خاندان تغلق (1320-1412)اور سید و لودھی خاندان(1413-1526)نے ان ہی خطوط پر کام کیا۔ اس کے بعد خاندان مغلیہ نے عنان اقتدار سنبھال لی اور یہاں کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے۔ مغل بادشاہوں کا یہ دور اپنے عروج کو پہنچا جب اور نگ زیب (پیدائش :4۔ نومبر 1618، وفات :3مارچ 1707)تخت نشین ہوا تو اس نے مغل سلطنت کو وسعت دی۔ اس کے عہد حکومت (31-3-1658تا3-3-1707) میں پورے بر صغیر پر مسلم اقتدار کا پرچم لہرا رہا تھا۔ (2)اورنگ زیب نے دکن میں بیجا پور اور گولکنڈہ کی اسلامی ریاستوں کے خلاف جو اقدامات کیے انھیں عوام نے پسند نہ کیا۔ اس کے نتیجے میں اسلامی حکومت کی قوت کو ضعف پہنچا۔ اور نگ زیب کی وفات کے بعد اس کے جانشین اس وسیع حکومت کو سنبھال نہ سکے۔ اس حکومت کا خاتمہ اسی دن ہو گیا تھا جس دن اور نگ زیب کی آنکھیں بند ہوئیں۔ (3)اس کے بعد بہادر شاہ اول، جہاں دار شاہ، فرخ سیر، رفیع الدرجات، شاہ جہاں دوم، نکو سیر، محمد ابراہیم، محمد شاہ، احمد شاہ بہادر، عالم گیر دوم، شاہ جہاں سوم، شاہ عالم دوم، اکبر شاہ دوم اور بہادر شاہ مغلوں کی عظمت رفتہ کی تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی اور نوحہ خوانی کے لیے لال قلعے میں مسند شاہی پر براجمان ہوئے۔ تاریخ امم کے مطالعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ جو اقوام بہادری اور عزم صمیم کو ترک کر کے طاؤس و رباب سے اپنا دل بہلاتے ہیں وہ اپنی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتے۔ سیل زماں کی مہیب موجیں انھیں خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتی ہیں۔ تاریخ کے مسلسل عمل اور تاریخی صداقتوں کو پس پشت ڈالنے والوں کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جغرافیائی تبدیلیاں دراصل تاریخی حقائق کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں۔
٭٭٭