صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
مغنی تبسم کی یاد میں
مصحف اقبال توصیفی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
اور پھر وہ دن آ ہی گیا جس سے ہم خائف تھے۔پندرہ فروری کی وہ ایک اداس شام تھی۔ میں نے فاطمہ بھابی (بیگم عوض سعید جو مغنی کی بہن بھی ہیں) کو فون کیا کہ مجھے اسپتال آنے میں تھوڑا وقت لگے گا ۔ گھر میں فرش گردو غبار سے اٹا پڑا ہے۔ پلمبنگ کا کام ابھی ختم ہوا ہے۔ اس وقت ساڑے پانچ کا عمل تھا۔ میں نے پوچھا مغنی اب کیسے ہیں؟ انہوں نے رندھی ہوئی آواز میں کہا ’’ بھائی اب نہیں رہے۔ ابھی سوا پانچ بجے اُن کا انتقال ہو گیا ۔ میں دوا خانے جا رہی ہوں‘‘۔ میں اسی وقت کئیر ہاسپٹل کے لیے نکل پڑا۔ وہاں مغنی صاحب کو MICU سے کمرہ نمبر 601 میں منتقل کیا جا چکا تھا۔ مغنی صاحب کے دنوں بیٹے محتشم نوید اور معتصم نجیب جو امریکہ سے اسی صبح پہنچے تھے ۔ بیٹی دینا، فاطمہ بھابی اور دیگر اعزّا غم کی تصویر بنے کھڑے تھے ۔ مغنی لیٹے ہوئے تھے۔ ان کہ چہرے پر ایسا سکون تھا جو بیماری کے دوران گھر پر یا پچھلے چند دنوں میں جب سے وہ دوا خانے میں شریک تھے ، میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ گویا وہ بھی ہماری طرح اس دن کے منتظر تھے لیکن ہماری طرح خائف نہیں۔ بہت مطمئن اور آسودہ جیسے انہیں کہیں جانا تھا اور اب وہاں پہنچ گئے ہوں۔اور یہ بات میں رسماً نہیں کہہ رہا ہوں۔
مغنی
صاحب پچھلے دو ڈھائی سال سے اپنی بیماری کے سبب گھر میں قید ہو کر رہ گئے
تھے۔ اِدھر پچھلے چند مہینوں میں اُنہیںPROSTATE اور پھیپڑوں کے متاثر
ہونے کے سبب کئی بار دوا خانے جانا، وہاں رہنا پڑا لیکن وہ گھر لوٹ کر پھر
’’ شعر و حکمت‘‘ اور اپنے لکھنے پڑھنے کے کاموں میں یوں مشغول ہو جاتے
جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ نجیب اور نوید کے علاوہ لندن اور امریکہ سے ان کی
بہنیں آتی جاتیں۔ حیدرآباد میں فاطمہ بھابی اور دوسری بہنیں ان کی ہر ممکن
دلجوئی کرتیں۔ دوا خانے کے علاوہ گھر پر بھی اُن کے علاج کی ساری ذمہ داری
اُن کے بھانجے ڈاکٹر اشفاق نے اپنے ذمے لے لی تھی۔ گھر پر وہ تنہا رہتے تو
ایک نرس ایشوری ان کی مسلسل دیکھ بھال کرتی۔ یہ انیس، بیس سال کی لڑکی جس
کی تعلیم اور دوسری ضروریات کی کفالت مغنی صاحب نے یوں اپنے سر لے رکھی
تھی جیسے وہ بھی اُن ہی کی بیٹی ہو۔ وہ ان کا بہت خیال رکھتی ۔
راتوں میں بار بار پیشاب کے لیے چھڑی کے سہارے اُٹھنا مغنی صاحب کے لیے
عجیب مصیبت تھی، ایک صوفے نما کرسی جو بستر کا کام بھی دے سکے، آخری ایّام
میں اسی پر سوتے جاگتے انہوں نے نہ جانے کتنی راتیں گزار دیں۔
مغنی
صاحب تنہا رہتے تھے۔ گھر پر ان سے ملنے آخری بار، اُن کے انتقال سے کچھ دن
پہلے میں اور سید خالد قادری گئے تھے، راستے میں خالد صاحب نے مڈیکل آلات
کی دوکان سے مغنی صاحب کے لیے ایک ایسا اپیرٹس خریدا جس کی مدد سے وہ
پیشاب کے لیے رات کو بار بار اُٹھنے کی زحمت سے بچ سکیں ۔ ہم اُن کے گھر
پہنچے تو وہ غسل خانے میں تھے۔ شاید اسی عارضے کے سبب نہانا اس وقت ان کے
لیے ضروری ہو گیا تھا باہر نکلے تو ان کی حالت بہت غیر تھی۔ سانس لینے میں
دشواری ہو رہی تھی۔ ہم بہت دیر بیٹھے رہے ۔ باتوں کے دوران مغنی صاحب کی
طبیعت ذرا سنبھلی تھی۔ کچھ خوش طبعی بھی عود کر آئی تھی۔ لیکن حالت پچھلے
کئی دنوں کے مقابلے میں خراب تھی۔ ہم وہاں سے اُٹھے تو ہمارے دل بیٹھے
ہوئے تھے۔ مغنی صاحب کی صحت کے بارے میں ہماری تشویش اب اور بڑھ گئی تھی۔
دوسرے دن سنا مجتبیٰ حیسن، علی ظہیر اور قدیر زماں ان کی عیادت کے لیے اُن
کے گھر گئے اور یہ لوگ نکل رہے تھے کہ مضطر مجاز اور ضیاء الدین شکیب وہاں
پہنچ گئے۔ ہم سب گاہے گاہے مغنی صاحب سے ملنے اُن کے گھر جاتے تاکہ ان کی
تنہائی کچھ کم ہو۔ ایسے موضوعات چھیڑتے جن سے مغنی صاحب کو دلچسپی ہو اور
وہ گفتگو میں زیادہ سے زیادہ حصہ لے سکیں۔ مجتبٰی حسین اکثر آتے اور جب جب
آتے تو ان کی زندہ دلی، لطیفوں اور قہقہوں سے ماحول میں بڑی خوشگوار
تبدیلی آجاتی ۔ لیکن یہ ملاقاتیں زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکیں۔ کچھ ہی
دنوں بعد معلوم ہوا مغنی صاحب کی صحت اس قدر بگڑ گئی کہ اُن کے آخری سفر
کے لیے انہیں دوا خانے منتقل کرنا پڑا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭