صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
مغیث الدین فریدی: فن اور شخصیت
ڈاکٹر شیخ عقیل احمد
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
مغیث الدین فریدی کی تضمین نگاری
آگرہ
کے ادبی جلسے اور مشاعرے فریدی کے ادبی ذوق کو نکھارنے اور شعر گوئی کے
شوق کو بڑھانے میں بڑے مددگار ثابت ہوئے۔وہاں کے سیماب لٹریری سوسائٹی،
بزم نظیر کا سالانہ ادبی میلہ، بزم اقبال اور دوسری ادبی انجمنوں کے ذریعے
منعقد ہونے والے طرحی مشاعروں میں فریدی کے شعر پڑھنے کا سلسلہ برسوں چلتا
رہا۔انہیں طرحی مشاعروں میں شرکت کرتے رہنے کی وجہ سے فریدی کے اندر
اساتذہ حضرات کے کلام کی تضمین کرنے کا شوق پیدا ہوا۔مصرعِ طرح پر مصرع
لگانا دراصل ایک تضمینی عمل ہے جس پر مہارت فریدی کو بچپن ہی سے حاصل
تھی۔ایک مصرع پر ایک مصرع لگانے کے علاوہ فریدی نے ایک شعر پر تین مصرعے
اور کبھی کبھی ایک مصرع یا ایک شعر پر کئی مصرعے لگا کر تضمینیں کیں اور
اس فن کے وقار کو برقرار رکھا۔ ’’کفرِ تمنا‘‘ میں صرف میر، غالب،فانی، فیض
اور خورشید الاسلام کی غزلوں کی تضمینیں شامل ہیں۔ ویسے انہوں نے علّامہ
اقبال، مجروح اور صبا اکبر آبادی کی غزلوں کی بھی تضمین کی ہے۔فریدی نے
میر کی ایک غزل کے اشعار کی تضمین کی ہے۔ اس کا مطلع ہے:
میں کون ہوں اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں
اِک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں
فریدی
نے میر کے اس مطلع کی کیفیت اور رنگ و آہنگ کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اس
کی توضیح و تشریح بھی ہے اور اپنے احساسات کو میر کے حسّی تجربے سے ہم
آہنگ کر دیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ فریدی کے مصرعوں کے بغیر میر کا مطلع نا
مکمل تھا۔تضمین کا بند ملاحظہ کیجئے۔
آشفتہ مزاجی سے میں آشوبِ جہاں ہوں
پر کالہ آتش ہوں کبھی برقِ تپاں ہوں
یا نالہ ہوں یا درد ہوں یا آہ و فغاں ہوں
’’میں کون ہوں اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں
اِک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں ‘‘
میر کی اسی غزل کا دوسر ا شعر ہے:
جلوہ ہے مجھی سے لبِ دریائے سخن پر
صد رنگ مری موج ہے میں طبعِ رواں ہوں
اس
شعر کی تضمین میں فریدی نے میر کی غزل پر تبصرہ بھی کر دیا ہے اور ان کی
شاعرانہ تعلی کو شعری صداقت کی سند بھی دے دی ہے۔تضمین کے مصرعوں میں میر
کے لہجے کا اثر اور نشتریت پیدا کر دینا فریدی کی قادرالکلامی کی دلیل
ہے۔تضمین کا بند یہ ہے۔
سجتی ہے قبا درد و اثر کی مرے تن پر
تا حشر جہاں ناز کرے گا مرے فن پر
صد رنگ مری موج ہے میں طبعِ رواں ہوں
میں ابر بہاری ہوں تغزل کے چمن پر
’’جلوہ ہے مجھی سے لبِ دریائے سخن پر
صد رنگ مری موج ہے میں طبعِ رواں ہوں ‘‘
میر کی اسی غزل کے تیسرے شعر کی تضمین یہ ہے:
غیرت نے کبھی راحت دنیا نہ طلب کی
گردش کبھی دیکھی ہی نہیں جامِ طرب کی
شکوے کی زبان پر ہے مگر مُہر ادب کی
تکلیف نہ کر آہ مجھے جنبشِ لب کی پر
میں صدسخن آغشتہ بخوں زیرِ زباں ہوں
میر
کا تضمین شدہ شعر معنوی اعتبار سے بہت تہہ دار ہے۔اس شعر میں میر نے کہا
ہے کہ سیکڑوں باتیں ایسی ہیں جو خون میں تر ہیں اس لئے میں کلام نہیں
کرسکتا ہوں۔ لیکن انہوں نے یہ بتایا کہ وہ سیکڑوں باتیں کون سی ہیں جو خون
میں تر ہیں۔ نیز’’صدسخن آ غشتہ بخوں زیرِ زباں ‘‘ کا غیر معمولی پیکر قاری
کے تخیل کو متاثر اور متحرک کر دیتا ہے اور کئی طرح کے امکانات پیدا ہو
جاتے ہیں۔ ان سب سے فائدہ اٹھا کر فریدی نے میر کے شعر پر اپنے تین مصرعوں
کا اضافہ کر کے میر کے شعر کی توضیح و تشریح پیش کر دی۔چوتھے شعر کی تضمین
یہ ہے۔
جو سب کی زباں پر ہے وہ افسانہ ہے میرا
سرشار ہیں سب جس سے وہ پیمانہ ہے میرا
کیا ہوش ربا نغمہ مستانہ ہے میرا
دیکھا ہے مجھے جس نے سو دیوانہ ہے میرا پر
میں باعثِ آشفتگی طبعِ جہاں ہوں
اقتباس
٭٭٭