صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
ایک مڑا ہوا ورق
مونا سید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
وہ گھر انتہائی بلندی پر تھا۔۔ جس کی سیڑھیاں ایک ڈھلوان کی صورت میں نیچے اترتی تھیں۔ اور اترتی کیا تھیں، گرتی تھیں اور سیدھی نہر کے کنارے تک چلی جاتی تھیں۔۔ دائیں جانب انتہائی سحر انگیز سبزہ زار بکھرا پڑا تھا۔۔۔ سبزہ میں گھلی ملی تازہ ہوا اپنے ساتھ جنگلی پھولوں کی مہک لاتی تھی۔۔ پرندوں کی چہچہاہٹ تنہائی میں گھُلی مِلی جاتی تھی۔۔
اس نے سانس کھینچا، ایک پُر مشقت سانس جو کہ میدانی علاقے کا باسی ہونے کی بنا پر تھا۔ شفاف ہوا نے اس کے اندر تک اتر کر کہا:
" کیوں دور تھے اب تک۔۔۔ اتنا مشکل بھی نہیں مجھ تک آنا۔۔"
" وہ چونکا۔ آس پاس نظر دوڑائی۔۔ وہ چلتے چلتے ان سیڑھیوں تک آ پہنچا تھا جو اس کو اس کی منزل تک لے جاتی تھیں۔۔ سیڑھیاں پتھریلی تھیں اور ہر قدم کے نیچے درزوں میں ننّھے ننّھے خوش نما پھول اُگے ہوئے تھے۔۔ غیر ارادی طور پر وہ ہر قدم پر پھول چُنتا چلا گیا۔۔ زینہ اچانک ہی ختم ہوا تھا۔ اس کی نظر اپنے ہاتھ پہ پڑی پیلے، اودے، گلابی کئی ننّھے پھول مُسکرا رہے تھے۔ اس کے چہرے کو بے ساختہ ایک مسکراہٹ نے چھُوا۔ اس نے ڈور بیل پر ہاتھ رکھنا ہی چاہا کہ آس پاس پھیلی خوبصورتی نے اسے مبہوت کر دیا۔۔۔ ایک مکمّل منظر اس کے سامنے تھا۔ جہاں تک نظر گرتی تھی، سحر انگیز سبزہ سے مل کر لوٹتی تھی۔ اور لوٹتی بھی کیا تھی ادھر ٹھہر ٹھہر جاتی تھی۔۔ جس بہتی نہر کو وہ ابھی نیچے چھوڑ آیا تھا وہ نیچے بنے کئی گھروں کی سیڑھیوں کا بوسہ لے کر آگے بڑھتی کہ وہ خوش نصیبی میں اس کا حصّہ ہیں۔
"ہاں یہاں رہنا خوش نصیبی ہی تو ہے۔" اس نے سوچا۔۔ "ہم میدانوں میں رہنے والے پہاڑوں کی عظمت جان بھی کس طرح سکتے ہیں۔۔ وہیں پیدا ہوتے ہیں اور چپ چاپ وہیں مر جاتے ہیں۔۔ یہ واقعی ہر ایک کے لیے نہیں ہوتے۔" اس نے سر جھٹکا۔
منظر مکمّل تھا۔ اور وہ اس پل اور اس لمحہ میں وہاں موجود تھا اور اپنا شمار ان خوش نصیبوں میں کر رہا تھا جن کو پہاڑوں کی قربت میسّر ہوتی ہے۔ پھر اس کو وہ مقصد یاد آیا جس کی وجہ سے اس نے یہ مشقت اٹھائی تھی۔۔ وہ پلٹا، اور ٹھٹک گیا۔ اس کی سوچ نے اڑان لی۔
" منظر پہلے مکمّل تھا، یا اب ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس کے آنے سے۔۔۔" اس نے اس کو بھی اپنے سحر زدہ ذہن کی کارستانی جانا۔۔ ہولے سے اپنا ماتھا تھپکا جیسے کسی نادیدہ اثر سے باہر نکلنا چاہتا ہو۔ اس کے ہاتھ کے سارے پھول چھٹ کر نیچے گرے۔
وہ جو اتنی دیر سے چُپ تھی، جھجک کر دو قدم پیچھے ہوئی۔۔ اور اس کے یوں پیچھے ہونے پر اس نے جانا۔۔ ہوا نے کیوں کہا تھا۔۔
" اتنا مشکل بھی نہیں مجھ تک آنا۔۔۔" اس کو اچانک سے خنکی محسوس ہوئی۔
اس کے چہرے کے ناقابل فہم تاثرات دیکھ کر وہ جلدی سے بولی۔ "آپ اندر تشریف لے آئیے۔۔ وہ بہت دیر سے آپ کی راہ تک رہے ہیں۔۔"
"آج بھی ان آنکھوں کے اسرار اس کے لیے ان کہے ہیں۔ اس کو یقین تھا مصلحتوں کی دبیز تہ میں دبی اس کی روح کی پکار اس کی آنکھوں تک آتی ہے۔۔ شاید اس لیے وہ نگاہ جھُکا کر رکھتی ہے کہ کہیں آنکھوں سے نکل کر اس کی شخصیت تک محیط نہ ہو جائے۔۔" اس نے دبی سانس خارج کی۔
وہ اس کے یوں یک ٹک دیکھنے سے خفت سی محسوس کرنے لگی۔۔ اس نے دل میں سوچا۔۔
" تم ہمیشہ دیر سے آتے ہو اور آ کر مزے سے کہہ دیتے ہو، میں گیا وقت نہیں کہ آ نہ سکوں۔۔۔ مگر وقت تو گیا اور ساتھ سب کچھ سمیٹ لے گیا۔۔"
اور پھر نظر اٹھا کر اعتماد سے بولی۔" آئیے۔۔۔۔" اور اندر کی طرف مڑ گئی۔۔۔۔
وہ اس کے پیچھے چل دیا۔ اور نگاہ اس کی دھیمے زرد رنگ کی ساڑی کے پلو میں اٹکی اور ساتھ ہی گزرے آٹھ سال لپیٹ کر آگے چل دی۔
" اس سے پہلی ملاقات کیسی تھی۔۔؟" یادوں کے پردے پر وہ شبیہہ آج بھی چسپاں تھی۔۔
٭٭٭