صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


مونا گونسا لویس

ڈاکٹر سلیم خان

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

اقتباس

    وہ دونوں ایئر انڈیا کی ممبئی نیویارک فلائیٹ میں محو پرواز تھے۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ مونا کے ہاتھ میں ارونگ ویلس کا ناول ایئر پورٹ تھا اور منیر نیند کی آغوش میں گم تھا۔ اس بیچ جب منیر کی آنکھ کھلتی وہ بازو کے ہینڈل میں لگا سوئچ آف کر دیتا اور اس کے ساتھ ہی اندھیرا چھا جاتا۔ مونا ناول کا مطالعہ بند کر کے مسکراتے ہوئے منیر کو دیکھتی رہتی۔ جب اسے یقین ہو جاتا کہ منیر پھر گہری نیند میں ڈوب چکا ہے وہ بتی کا سوئچ آن کر دیتی اور ناول میں غرق ہو جاتی۔ بارہ گھنٹہ کی مسافت کے بعد جب وہ دونوں نیویارک پہنچے تو وہی وقت تھا جس وقت وہ چلے تھے۔ رات کے دس بج رہے تھے منیر کی نیند پوری ہو چکی تھی اب اس کی صبح ہوئی تھی لیکن باہر سارا جہاں سو رہا تھا۔ وہ سوچنے لگا رات کہاں گئی؟ وقت گویا کہ ٹھہر گیا تھا۔ گھڑی کے کانٹے رک گئے تھے۔ لیکن یہ معاملہ صرف منیر کے لیے تھا۔ مونا پوری رات ناول کو اس طرح پڑھتی رہی جیسے دن ہو۔ اس کا دن کافی طویل ہو گیا تھا۔ بارہ گھنٹے کے بجائے چوبیس گھنٹہ اس نے جاگتے ہوئے گذار دیئے تھے۔ اب اس پر نیند کا شدید غلبہ تھا وہ سونا چاہتی تھی اور منیر کی آنکھوں میں نیند کا شائبہ تک نہ تھا۔ جس طرح انسانی بھوک کی ایک حد ہوتی ہے اسی طرح نیند کی بھی ایک انتہا ہوتی ہے۔ انسان نہ بے انتہا جاگ سکتا ہے اور نہ بے انتہا سو سکتا ہے۔ انتہا پسندی دراصل فطرت انسانی کے خلاف ہے۔ اس لیے کہ اسے فطرتِ وسط پر پیدا کیا گیا ہے۔ ایئر پورٹ سے ہوٹل کے درمیان مونا کی آنکھیں جھپک گئیں لیکن منیر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نیویارک شہر کی روشنیوں کو اور رنگینیوں کو دیکھ رہا تھا۔ ان کی گاڑی ’’زیرولینڈ‘‘ کے قریب سے گذر رہی تھی۔ کتنا منفرد نام امریکیوں نے اس علاقے کو دے رکھا تھا۔ وہ وسیع و عریض میدان جہاں کسی زمانے میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دو حسین و جمیل جڑواں ٹاور کھڑے ہوتے تھے بالکل منیر اور مونا کی طرح ایک دھماکے سے صفر میں تبدیل ہو گئے۔ وہ عمارتیں دراصل اکے پر اکے کی طرح تھیں جو ساری دنیا کو شہ دیتی تھیں مگر کبھی بھی مات نہ کھاتی تھیں۔ لیکن اب ایک بہت بڑے صفر       (A big zero) میں تبدیل ہو چکی تھیں۔ ایک یادگار تھی جہاں پھول اس طرح سجائے ہوئے تھے جیسے کسی قبر پر سجائے جاتے ہیں۔ یہ دراصل امریکی استعمار کی قبر تھی جس کے اندر ایک سپر پاور کا کبر و غرور دفن تھا۔

    گاڑی جب ہوٹل کے احاطے میں رکی تو منیر نے مونا کو جگایا اور وہ دونوں اپنے اپنے کمروں کی جانب روانہ ہو گئے۔ جدا ہوتے وقت مونا نے منیر کو اپنا پڑھا ہوا ناول یہ کہتے ہوئے تھما دیا کہ اب یہ تمہارے لیے ہے۔ میں تو اسے پڑھ چکی ہوں۔ منیر نے شکریہ کے ساتھ ناول لے تو لیا لیکن یہ عمل محض دل رکھنے کے لیے تھا۔ اس لیے کہ جس ضخیم ناول کو مونا نے رات بھر میں یا دن بھر میں ختم کیا تھا اس کے چند اوراق کا مطالعہ بھی منیر کے لیے ناممکن تھا۔ ویسے منیر اور مونا کے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں تھی۔ مونا نہایت آزاد خیال مغربی تہذیب کی پروردہ خاتون تھی اس کے مزاج میں بلا کا نظم و ضبط تھا۔ اپنے کام کے تئیں وہ نہایت سنجیدہ تھی اور بے حساب محنت و مشقت اس کا شعار تھا اس کے مقابلے منیر ایک روایتی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ مشرقی ماحول میں اس نے آنکھیں کھولیں اور اسی میں پلا بڑھا اسے اپنی تہذیب تمدن پر بڑا فخر تھا۔ وہ مذہبی اقدار کا پاسدار لیکن زندگی اور کام کے سلسلے میں نہایت بے نیاز طبیعت کا حامل تھا اس نے کبھی کسی کام کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ڈسپلن کا اس کی زندگی میں نام و نشان نہ تھا۔ نہایت با صلاحیت ہونے کے باوجود وہ محنت و مشقت سے جان چراتا تھا۔لیکن اس فرق کے باوجود وہ دونوں ایک دوسرے کا بے حد خیال کرتے تھے۔ کوئی ایسی حرکت، ایسا رویہ یا ایسے الفاظ استعمال نہ کرتے جو ایک دوسرے پر گراں گزرتے ہوں۔ ایک دوسرے کا بے حد خیال کرتے تھے۔ شاید ایسا اس لیے تھا مخالف قطب ایک دوسرے کے لیے کشش رکھتے اور مماثل ایک دوسرے کو دور کرتے ہیں یا کسی اور وجہ سے تھا وہ نہ جانتے تھے لیکن بہرحال ان کے درمیان انسیت کا ایک نامعلوم اور بے نام رشتہ قائم ہو گیا تھا جس کی کوئی عقلی توجیہہ موجود نہیں۔

    کمرے میں آنے کے بعد منیر نے خود اپنے ہاتھ سے کافی تیار کی اور بادل ناخواستہ ناول کو کھولا لیکن چند ہی سطور کے بعد اس کی طبیعت اوب گئی وہ ہاتھ میں کافی کا گلاس لیے کھڑکی کے پاس کھڑا ہو گیا۔ دور لان میں اسے اوور کوٹ پہنے ہوئے دو سائے دکھائی دیئے۔ اسے لگا کہ وہ منیر اور مونا ہیں۔ وہ سوچنے لگا کہ اگر منیر لان میں ہے تو اس کمرے میں کون ہے اور مونا اس کے ساتھ ہے تو بغل والے کمرے میں کون سو رہا ہے۔ وہ کھڑکی سے واپس بستر پر آ گیا اور اسی وقت اس کی آنکھوں میں مونا سے ملاقات کا منظر گھوم گیا۔

    گریجویشن کی تعلیم سے فارغ ہو کر منیر نے کچھ وقت ملازمت کی تلاش کی لیکن پھر اپنے والد کی کتابوں اور اسٹیشنری کی دوکان پر بیٹھنے لگا جب والد کو اعتماد ہو گیا کہ بیٹے نے کام سنبھال لیا ہے تو انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لیا اور گھر و مسجد کے درمیان محصور ہو گئے۔ منیر کی دوکان یوں تو لب سڑک تھی لیکن یہ غریب اور متوسط درجے کے لوگوں کا علاقہ تھا۔ سڑک سے گزرنے والی کوئی بڑی گاڑی یہاں ٹھہرتی نہ تھی اس لیے جب ایک روز اس نے اپنی دوکان کے سامنے ایک غیر ملکی بڑی سی گاڑی کو رُکتے ہوئے دیکھا تو اسے تعجب ہوا۔ گاڑی سے ڈرائیور باہر نکلا۔ ا س نے سمجھا کہ شاید پتہ پوچھ رہا ہو گا لیکن اس علاقے میں ؟ اس کا گمان غلط نکلا۔ ڈرائیور سگریٹ کی دوکان پر رکا اور پھر وہاں سے دوسری سگریٹ کی دوکان کی جانب بڑھ گیا۔ شاید وہ جس برانڈ کو تلاش کر رہا تھا وہ اسے نہیں ملا تھا۔ اس بیچ کار سے ایک خاتون نمودار ہوئی اور سیدھے اس کی دوکان پر پہنچی۔ اس نے پہلے تو لکھنے والا پیڈ خریدا اور پھر طرح طرح کے قلم دیکھنے لگی۔ وہ اسے بیسیوں طرح کے قلم دکھلا چکا تھا لیکن ہر قلم کو دیکھنے کے بعد یا اس سے لکھنے کے بعد اسے reject  کر دیتی اور نیا قلم مانگتی۔ منیر بے زار ہونے لگا تھا اتنے سارے قلم اس نے کسی ایک گاہک تو کیا سبھی گاہکوں کو بھی نہیں دکھلائے تھے۔ طویل عرصہ کے بعد اس خاتون نے ایک نہایت بھدّے قلم کا انتخاب کیا اور منیر سے اس کی قیمت دریافت کی۔ منیر تو پہلے ہی بے زار ہو چکا تھا اس نے پوچھا۔

    ’’آپ یہ قلم خریدیں گی؟ اتنے سارے اچھے اچھے قلم چھوڑ کر آپ نے اس کا انتخاب کیا مجھے تعجب ہے۔‘‘

    ’’کیوں تمہیں کیوں تعجب ہے؟ کیا خرابی ہے اس قلم میں ؟ اور اگر خراب ہے تو تم نے اسے اپنی دوکان میں بیچنے کے لیے رکھا کیوں ہے؟‘‘

اقتباس

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول