صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


موم کا پتھر

احسان بن مجید

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

بابا

    اور پھر اس کی بارات آ گئی۔

    اس کے چہرے سے خوشی کے ساتھ بیزاری سی عیاں ہو رہی تھی۔ بیزاری کیوں نہ ہوتی ، گاؤں کے شادی تھی اور گاؤں میں تو دس دس دن پہلے مایوں کی رسم ہو جاتی ہے۔ دولہا کے یار لڈی کھیلتے ہیں ، بھنگڑا ڈالتے ہیں ، رات رات بھر گاتے ہیں، گا گا کر تھکتے ہیں تو تاش چل نکلتی ہے ، اور گاؤں کی شادی میں جب تک جوا نہ کھیلا جائے وہ شادی ہی نہیں ہوتی۔ چرسیوں کی ٹولی الگ ہو جاتی ہے۔ دولہا کے دوست بالٹیوں میں شراب ڈال کر پیتے ہیں اور نشہ چڑھتے ہی" ماراد ڈھولیا ڈھول"  کہتے ہوئے میراثی کو جو کچھ دیر پہلے تک تھک ہار کے بیٹھا ہوتا ہے ڈھول پیٹنے پر مجبور کرتے ہیں اور خود دے ، دا  کے تال پر لڈی کھیلتے ہوئے دولہے کو بھی کھینچ لیتے ہیں۔ یوں دس دن لڈی کھیل کھیل کر اس کا انگ انگ دکھ رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کہیں تھوڑا سا لیٹ کر کمر سیدھی کر لے۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور دوست اس کو ساتھ بیٹھک پر لے گئے۔

    وہ چونکہ والدین کا اکلوتا بیٹا تھا ، اس لیے دولہن کے پاس اس کے دور کی رشتے دار دو نوجوان لڑکیاں بیٹھی گپ شپ کر رہی تھیں اس کے من میں دولہا کا خیال آتے ہی جھر جھری سی ہو کر رہ جاتی۔ وہ سوچتی کہ دولہا آتے ہی یہ لڑکیاں چلی جائیں گی اور وہ اکیلی رہ جائے گی اکیلی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ خیال آتے ہی اس کی پلکیں مزید جھک جاتیں۔ وہ لڑکیوں کی باتیں تھوڑی ہی سن رہی تھی۔ اس کے کان تو دروازے پر لگے تھے۔ وقت بہت گزر گیا تھا اور اب اس کا جسم بھی سکڑ کر بیٹھنے سے تھکنے لگا تھا۔ وہ بھی قریب کے گاؤں سے آئی تھی شاید سکھیوں نے اسے بھی کئی راتیں نہیں سونے دیا ہو گا۔ اور خوب چھیڑا ہو گا۔ انھوں نے بھی لڈی کھیلی ہو گی ، اس کو بھی کھینچا ہو گا ، پھر اس کے ارد گرد اس کی سوچوں نے دھمال ڈالا ہو گا۔ وہ چاہتی تھی کہ کچھ دیر پاؤں پھیلا کے بیٹھے اور انگڑائیاں تو جانے کتنی ہی اس کے بانہوں میں کسمسا رہی تھیں۔ بابل کا گھر ہوتا تو اس وقت تک وہ دوچار خواب بھی دیکھ چکی ہوتی۔ وہ پاس بیٹھی لڑکیوں کی باتوں اور بات بے بات ہنسی سے اکتا گئی تھی۔

    دروازہ آہستہ سے چرچرایا اور لمحوں کے توقف کے بعد دونوں لڑکیاں اٹھ کر بھاگ گئی۔ وہ اکیلی رہ گئی تھی اور جن لمحوں کی وہ منتظر تھی آ پہنچے تھے۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ دولہا آ چکا ہے۔ وہ اندر ہی اندر شرمائی ، سمٹی اور نگاہوں کو اپنی جھولی میں بکھیر دیا۔ تب کوئی اس کے قریب آ بیٹھا۔ مگر یہ کیا ، دولہا نے دروازہ کیوں کھلا چھوڑ دیا۔ ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ پاس بیٹھے شخص نے اس سے کہا۔ ۔ ۔ " دلہن تم بے شک میری طرف مت دیکھو کہ دلہنیں ہمیشہ پہلے دولہا کو دیکھا کرتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ "  اسے شک گزرا کہ یہ آواز کسی اور کی ہے۔ اس نے کنکھیوں سے دیکھا تو بدک کر اٹھی اور پیٹھ کر کے کھڑی ہو گئی۔ اسے یوں لگا کہ جیسے پلنگ پر یکبارگی کئی بچھوؤں نے اسے ڈنک مار دیا ہو۔

    میں کون ہوں ؟ پلنگ پر بیٹھے شخص نے اس سے پوچھا۔

    آپ بابا ہیں۔ اس کی آواز حلق سے یوں نکلی جیسے کنوئیں سے آئی ہو۔

    نہیں!! بابا تو تمہارے دولہا کا ہوں ، تمہارا  سسر ہوں اور تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ اگر تم نے گھر بسانا ہے تو مجھے خوش رکھنا ہو گا میں تم سے خوش رہوں گا تو تم اس گھر کی بہو رہو گی۔ ورنہ تم بچی نہیں ہو کہ نہ سمجھ سکو ، اور اگر تم نے یہ بات کسی کو ، اپنے دولہا کو بھی بتائی تو انجام اچھا نہیں ہو گا ، میں جا رہا ہوں۔ اب تم بیٹھ جاؤ ، دولہا صحن میں آ چکا ہے۔ اس کا جی چاہا ، اسی وقت یہاں سے بھاگ نکلے اور سب کو بتائی جائے کہ سسر اس سے خوشی چاہتا ہے مگر اس کا انت کیسا ہو گا یہ خیال آتے ہی اس کے اندر کی بزدل عورت نے حالات سے سمجھوتہ کرنے کا مشورہ دیا۔ وہ پھر سے چھوئی موئی ہو کر بیٹھی ہی تھی کہ دولہا آ گیا۔ اس کی دھڑکنیں معمول سے ہٹ گئیں۔ آنکھوں میں ایک خمار سا اتر آیا۔ اس کے دل میں حوصلے کا پربت ایستادہ ہو گیا۔ اور کچھ دیر پہلے سسر سے ہونے والی گفتگو اس کے ذہن سے یوں صاف ہو گئی جیسے کوئی بچہ سوال حل کرنے کے بعد سلیٹ صاف کر دیتا ہے۔ وہ اس کے قریب آ کر بیٹھ گیا اور چند لمحے اسی تذبذب میں گزر گئے کہ گفتگو کا آغاز کیسے کرے؟

    تم تھک گئی ہو گی! سو جاؤ۔ اس نے دولہن کے چہرے سے گھونگٹ نہیں اٹھایا ، چہرہ نہیں دیکھا تو چودھویں کا چاند کیسے کہتا ؟

    جیسے آپ کی مرضی ! اس نے ہولے سے کہا ، مگر دل میں سوچا کہ سونے کے لئے تو عمر پڑی ہے۔

    پھر دونوں سو گئے۔ صبح ولیمہ تھا۔ دوپہر سے شام تک سارے مہمان رخصت ہو گئے اور وہ کمرے میں اکیلی رہ گئی۔ اس کے دل میں ہو ل اٹھنے لگے تھے۔ ۔ ۔ ۔ "اپنے دولہا سے بھی کہی تو انجام اچھا نہ ہو گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ـ" سسر کی اس بات نے اس کا چین چھین لیا تھا ، تاہم اس نے اس خیال سے پیچھا چھڑانے کے لئے خود کو گھر کے کام میں مشغول کر لیا۔ زمیندار گھرانہ تھا۔ گھر کے افراد تو کم تھے مگر ڈور ڈنگر بہت تھے ، اس لئے کام بہت تھا۔ ماسی نے بہت کہا ، لڑکی مہندی کا رنگ چھوٹنے دیا ہوتا۔ مہندی کا رنگ چھوٹنے تک تو میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    اور وہ منہ پرے کر کے مسکرا دیتی۔

    کہتے ہیں ہر خوشی اپنا خراج وصول کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ایسا کب ہو گا۔ یہ سوچتے ہی اس کے ذہن پر بجلی گر پڑتی۔ جاتے وقت نے اپنی بغل میں اس کے لئے کیا چھپا رکھا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    اس کے آنے سے جیسے گھر کا نقشہ ہی بدل گیا تھا۔ وہ صبح کا سارا کام ختم کر کے دولہا کے لئے دوپہر کا کھانا لے کر کھیتوں کو چلی جاتی جہاں وہ ایک ٹاہلی کے نیچے اس کا انتظار کر رہا ہوتا۔

    جب سے تیرے ہاتھ کی پکی کھانے لگا ہوں ، بھوک بہت لگتی ہے۔ وہ دستر خوان کھول کر کھانا سامنے رکھتے ہوئے کہتا۔

    تم کام بھی بہت کرتے ہو۔ یہ کہتے ہوئے وہ اسے یوں پیار سے دیکھتی کہ اس کا جی چاہتا وہ آکاش بیل کی طرح اس سے لپٹ جائے۔ دونوں بہت دیر باتیں کرتے اور پھر وہ لسی کا آخری بٹل ایک ہی سانس میں پی کر لمبی ڈکار لیتے ہوئے پاؤں پھیلا کر ٹاہلی کے تنے سے ٹیک لگا لیتا۔ وہ برتن سمیٹ کر چل دیتی تو وہ بہت دور تک اس کو جاتے ہوئے دیکھتا رہتا۔ شام کو واپس لوٹتا تو وہ اس کی راہ تک رہی ہوتی ، اسے دیکھتے ہی اس کے من میں ٹھنڈک پڑتی اور وہ پر سکون ہو جاتی۔ دن بھر کی تھکن کا نام و نشان مٹ جاتا۔

    بہو پانی کا ایک چھنا اور لا دے ! بابا اسے کہتا تو اس کے دل میں ایک ٹیس سی اٹھتی۔

    تو کتنا پانی پیتا ہے مجھ سے مانگ لیا کر ! ماسی بابا سے کہتی۔

    تیرے بے برکتے ہاتھوں سے تو میں دریا بھی پی جاؤں تو پیاس نہیں بجھے گی ، بہو کے روپ میں رب نے بیٹی دی ہے شکر گزار ہوا کر !بابا کے چہرے پر خوشی کی ایک لہر آ کر چلی جاتی۔ وہ نظریں بچا کر بابا کو دیکھتی اور سوچتی کہ ان کی شخصیت کا کون سا رخ ہے۔ وقت گزرتے کیا دیر لگی ہے۔ تین ماہ گزر گئے۔ وہ صبح اٹھتی تو طبیعت بوجھل سی ہوتی۔ کسی کام میں جی نہیں لگتا۔ اور پھر عجیب چیزیں کھانے کو جی چاہنے لگا۔ ماسی تھوڑی دیر کو ادھر ادھر ہوتی تو وہ گاچی کا روڑا اٹھا کر چپا لیتی۔ کام کرے نہ تھکنے والی کے جسم میں جیسے سستی بھر گئی تھی۔

    پھر کچھ دن کے بعد طبیعت سنبھل گئی۔ ایک دن اس نے جانے دولہا کے کان میں کیا کہہ دیا کہ وہ کھانا چھوڑ کر کھیتوں میں ناچ اٹھا۔ وہ اسے دیکھتی اور ہنستی رہی۔ وہ ہنستا دیکھتا تو اسے یوں لگتا جیسے ایکڑوں زمین میں موتیے کے پھول کھل اٹھے ہوں۔ وہ واپس آ گئی مگر اس کے بعد اس کا جی کام میں نہ لگا۔ اس دن اسے ایسا محسوس ہوا جیسے شام ہونے میں کتنے پرس بیت گئے ہوں۔ چند دنوں سے وہ دوپہر کا کھانا گھر آ کر کھانے لگا تھا وہ صحن میں گھوم پھر کر کام کر رہی ہوتی تو اسے یوں لگتا جیسے کتنی بہاریں اس کے آنگن میں رقص کر رہی ہوں۔

    تو آج کل کھیتوں میں تھوڑا کام کرنے لگا ہے ! بابا نے مسلسل گھر آتے دیکھ کر پوچھ ہی لیا۔

    اتنا کام نہیں ہوتا بابا اس لئے گھر آ جاتا ہوں !  وہ پرے دیکھتے ہوئے کہتا۔

    آج صبح سے ہی اس کی طبیعت زیادہ خراب تھی۔ یوں بھی چند دنوں سے ماسی نے اسے کوئی کام کرنے نہیں دیا تھا۔ ہر چند آج اس کا دل بھی کھیتوں میں کام کرنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ مگر بابا سے اس کی جان کون چھڑاتا اس لئے وہ چلا گیا۔ ماسی گاؤں سے دائی کو بلا لائی بابا صحن میں دھریک کے سائے میں چارپائی بچھائے لیٹا تھا کہ اس کے کانوں میں معصوم بچے کے رونے کی آواز آئی۔ وہ اٹھ بیٹھا۔

    مبارک ہو بیٹا ہوا ہے۔ دائی نے بابا سے کہا۔

    خیر مبارک ! بابا نے کہا اور وہیں زمین پر سجدہ ریز ہو گیا۔

    تم اب آ جاؤ میں بھی پوتا دیکھ لوں۔ بابا نے ماسی کو بلایا اور خود کمرے میں چلا گیا۔

    اس نے سسر کو دیکھتے ہی اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیے۔

    نہیں! بابا میں تمہارے دولہا کا ہوں تمہارا سسر ہوں اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی آواز کی بازگشت اس کے ذہن پر چابک برسانے لگی۔

    بہو آنکھوں سے ہاتھ ہٹا دو ، دیکھو میں کون ہوں ، دیکھو میری بچی میں کون ہوں ، میں تمہارا بابا ہوں ، تمہارا بابا، ہاں تمہارا بابا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    میں نے تم سے جو خوشی چاہی تھی وہ آج تم نے میری جھولی میں ڈال دی۔ بابا کی آواز رندھ رہی تھی۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے بہو کے چہرے سے ہاتھ ہٹا دیئے۔

    بابا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !! جیسے اس کے حلق سے بے اختیار چیخ نکل گئی اور بابا نے پوتے کو اٹھا کر چوم لیا۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول