صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
مضراب
شاعرات نمبر
پانچ حصوں میں
ڈاؤن لوڈ کریں
حصہ اول: کلاسیک
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائلحصہ دوم: مضامین
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائلحصہ سوم: کہانیاں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائلحصہ چہارم: نظمیں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائلحصہ پنجم:غزلیں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائلزہرہ نگاہ
زہرہ نگاہ حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئیں۔ حیدرآباد علم و ادب کا گہوارہ تھا۔ہر آٹھویں دسویں گھر میں کتب خانہ موجود تھا۔ زہرہ کا تعلق بھی ایک ایسے گھرانے سے ہے جہاں علم و ادب کی قدر و اہمیت بہت زیادہ ہے۔ حیدرآباد میں ان کے گھر پر ادبی بیٹھک اور مشاعروں کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ ریاست کی تحلیل کے بعد اُن کا خاندان پاکستان آ گیا۔
زہرہ
سکول کی طالبہ تھیں جب انہوں نے پہلی بار اپوا کے زیرِ اہتمام ایک خواتین
کے مشاعرے میں شرکت کی۔اس کے بعد زہرہ کو لاہور میں ایک مشاعرے میں شرکت
کی دعوت ملی۔ اس زمانے میں خواتین کا مشاعرے میں شریک ہونا آسان نہ تھا۔
انہیں برقع اوڑھ کر یا چادر میں سمٹ کر جانے کے مشورے ملے۔ کچھ ہمدردوں نے
مرد شعراء کے رویوں سے بھی آگاہ کیا۔۱۹۵۲ میں ہونے والے اس مشاعرے میں
زہرہ سفید شلوار قمیض پہن کر شریک ہوئیں۔اُن کا کلام سویرا ، نئی زندگی،
شاہراہ، ماہِ نو اور نقوش میں شائع ہوتا رہا۔نقوش کا غزل نمبر شائع ہوا تو
اس میں زہرہ نگاہ اور ادا جعفری سمیت صرف چار شاعرات کا کلام شامل تھا۔
باقی دو شاعرات کا تعلق بازارِ حُسن سے تھا۔
زہرہ
اپنے آپ کو حقوقِ نسواں کا علمبردار کہلوانا پسند نہیں کرتیں۔اُن کے خیال
میں فن کو زمروں میں تقسیم کرنا ٹھیک نہیں۔ وہ ایک عورت کی نگاہ سے دُنیا
کو دیکھتی ہیں مگر اُن کی سوچ کا محور صرف عورت کی ذات نہیں ہے۔وہ نسوانی
لہجے میں اپنے معاشرتی اور سیاسی حالات کو قلم بند کرتی ہیں۔انہوں نے گھر
داری ، بچوں کی بے راہ روی ، رشتوں میں سمجھوتے کی اہمیت سے لے کر حدود
آرڈینینس، جنسی زیادتی ، اور افغان جنگ کے متاثرین پر نظمیں لکھی ہیں۔ان
کی اکثر نظموں کا انگریزی میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ زہرہ نگاہ نے کچھ
فلموں اور ڈراموں کے اسکرین پلے بھی لکھے ہیں۔ان میں ایوارڈ یافتہ فلم
پنجر بھی شامل ہے۔
زہرہ نگاہ کے اب تک دو شعری مجموعے شام کا پہلا تارا اور ورق کے نام سے منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔
ملائم گرم سمجھوتے کی چادر
یہ چادر میں نے
برسوں میں بنی ہے
کہیں بھی سچ کے گُل بوٹے نہیں ہیں
کسی بھی جھوٹ کا ٹانکا نہیں ہے
اسی سے میں بھی تن ڈھک لوں گی اپنا
اسی سے تم بھی آسودہ رہو گے
اسی کو تان کر بن جائے گا گھر
بچھا لیں گے تو کھل اُٹھے گا آنگن
اُٹھا لیں گے تو گر جائے گی چلمن
ملائم گرم سمجھوتے کی چادر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلا عنوان
میں سادہ دلی کے گہنے پہنے
جب تم سے ملی تھی خوبرو تھی
الفاظ لحاظ میں گندھے تھے
لہجے میں بھی کیسی آبرو تھی
تم عقل کو وہم جانتے تھے
مجھ کو بھی جنوں کی جستجو تھی
اقوال تمہارے محفلوں میں
اور میری صدا بھی چار سو تھی
تم اپنی دلیل پر تھے قائم
مجھ کو بھی مجالِ گفتگو تھی
تم اپنے مقابلوں پہ نازاں
مجھ میں بھی بہادری کی خو تھی
تم سے مجھے حوصلہ ملا تھا
جینے کی مجھے بھی آرزو تھی
تم اپنی نظر میں معتبر تھے
میں اپنی نظر میں سرخرو تھی
پر وقت کے ہاتھوں سارے رشتے
دھاگوں کی طرح اُلجھ گئے تھے
پیمانِ وفا کے چند تارے
ذروں کی طرح بکھر گئے تھے
تم جب سے گئے ہو اپنے گھر سے
لگتا تھا کہ سب بدل گیا ہے
سورج کو نگل گیا ہے دریا
سایہ بھی کہیں پگھل گیا ہے
میں ذہن کے جاگتے اُفق پر
جاتے ہوئے تم کو دیکھتی ہوں
میں سوچ کے بحر بیکراں کی
ہر موج سے روز پوچھتی ہوں
کیا ہوش کے بے شمار دریا
صحراؤں میں خشک ہو چکے ہیں
تدبیر و انا کے لعل و گوہر
کیا خاک کا رزق بن سکے ہیں
پھر خو مجھے چین آگیا ہے
اور خود ہی جواب مل گیا ہے
رشتے یہ حقیقتوں کی زد پر
ٹوٹے ہیں اگر تو پھر جُڑے ہیں
دیکھو جو کہیں سے دیکھ پاؤ
خوش رنگ و زیست کا رچاؤ
آنگن میں ہمارے جاگ اُٹھی ہیں
دو کونپلیں سر اُٹھائے کیسے
کرنوں سے لدی ہوئی ہے کھڑکی
خوشبو سے بسے ہوئے ہیں کمرے
ماتھے پہ لکھی ہوئی ہے ان کے
آئینِ یقین کی عبارت
چہروں کو سجا رہی ہے اُن کے
آنکھوں میں چھپی ہوئی شرارت
کیا جانئے راہِ زندگی میں
یہ ہم سے زیادہ سرخ رو ہوں
انکو بھی ملے سخن کی دولت
اور ان کی صدائیں چار سو ہوں
ان کو بھی مجالِ گفتگو ہو
ان میں بھی بہادری کی خو ہو
اس دستِ فراق ہی سے سلجھے
رشتے جوسبھی اُلجھ گئے تھے
اشکوں ہی سے دھُل کے جگمگائے
وہ عہد جو خاک میں چھپے تھے
ٹوٹا ہوا تار زندگی کا
تدبیرِ رفو سکھا گیا ہے
جھومر یہ نگارِ زندگی کا
بکھرا تو کہاں کہاں سجا ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭