صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


ہے وہی مزاجِ صحرا

عبید الرحمٰن عبید

جمع و ترتیب:اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

غزلیں

ہے وہی مزاجِ صحرا، وہی ریت جل رہی ہے

نہ یہ جسم موم کا ہے، نہ یہ دھوپ ہی نئی ہے


وہ الگ ہی آسماں ہے، کوئی اور ہے زمیں بھی

جہاں فکر میں مری ماں، مری راہ دیکھتی ہے


یہ جو پیڑ جل رہا ہے، کڑی دھوپ میں مسلسل

یہی میرا استعارہ، یہی میری زندگی ہے


یہ جو پیاس کی ہے شدت، ہے یہی عطائے صحرا

جو پڑے گلے میں کانٹے، یہی فصلِ تشنگی ہے


وہ گھنیری پلکیں اب بھی، شب و روز بھیگتی ہیں

جہاں یاس جاگتی ہے، جہاں آس سو گئی ہے


جو چراغ بجھ گیا ہے، سرِ شام میرے گھر کا

اُسے کیا خبر ہے پوری مجھے رات کاٹنی ہے


شب و روز ہی پریشاں، ہے عبید آج انساں

یہ جو مرگ ہر نفس ہے، یہی مرگِ زندگی ہے

٭٭٭




بجا کہتے ہو تم، اچھا نہیں ہوں

میں جو کچھ ہوں مگر دھوکا نہیں ہوں


نسیمِ نرم بھی سایہ صفت بھی

فقط جلتا ہوا صحرا نہیں ہوں


ترا غم ہوں مثالِ اشکِ لرزاں

مگر میں آنکھ سے چھلکا نہیں ہوں


بدن میں پڑتی جاتی ہیں دراڑیں

ابھی تک ٹوٹ کہ بکھرا نہیں ہوں


بھُلا دوں اُن کو یہ کیسے ہے ممکن

کرم فرمائیاں بھولا نہیں ہوں


میں جلتا ہوں چراغِ یاد بن کر

اندھیری رات کا حصہ نہیں ہوں


جھکا دوں سر تو میری ہے یہ دنیا

مگر میں اس پہ آمادہ نہیں ہوں


کوئی ایسی خبر جو موم کر دے

بہت دن ہو گئے رویا نہیں ہوں


عبید اپنی حقیقت سے ہوں واقف

فریبِ ذات میں زندہ نہیں ہوں

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول