صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
میں مٹی کی مورت ہوں
فہمیدہ ریاض
جمع و ترتیب:: زرقا مفتی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
پتھر کی زبان
اسی اکیلے پہاڑ پر تُو مجھے مِلا تھا
یہی بُلندی ہے وصل تیرا
یہی ہے پتھر مری وفا کا
اُجاڑ، چٹیل اُداس ویراں
مگر میں صدیوں سے ،اس سے لپٹی ہوئی کھڑی ہوں
پھٹی ہوئی اوڑھنی میں سانسیں تری سمیٹے
ہوا کے وحشی بہاؤ پر اُڑ رہا ہے دامن
سنبھالا لیتی ہوں پتھروں کو گلے لگا کر
نُکیلے پتھر
جو وقت کے ساتھ میرے سینے میں اتنے گہرے اُتر گئے ہیں
کہ میرے جیتے لہو سے سب آس پاس رنگین ہو گیا ہے
مگر میں صدیوں سے اس لپٹی ہوئی کھڑی ہوں
اور ایک اونچی اُڑان والے پرندے کے ہاتھ
تُجھ کو پیغام بھیجتی ہوں
تُو آ کے دیکھے
تُو کتنا خوش ہو
کہ سنگریزے تمام یاقوت بن گئے ہیں
دمک رہے ہیں
گُلاب پتھر سے اُگ رہا ہے
٭٭٭