صفحہ اول

کتاب کا نمونہ پڑھیں


مٹی کا سفر

ڈاکٹر نگہت نسیم

ڈاؤن لوڈ کریں 

  ورڈ فائل                                                   ٹیکسٹ فائل

مجبورِ سفر ہوں

اقتباس

    مجھے رات بہت اچھی لگتی ہے۔
    پُر سکون سی۔۔۔
    ہلکی ہلکی سی۔۔۔
    نیند کی طرف دھکیلتی ہوئی۔۔۔ نرم نرم سی۔۔۔
    اگر رات نہ ہوتی تو شاید دنیا میں کوئی آرام کو نہ پہچان پاتا۔ شاید اسی لیے ہزاروں بیماریوں کی ابتداء اسی کے اُڑ جانے سے ہوتی تھی۔۔۔ اس لیے بھی
    مجھے رات بہت پسند تھی کہ اکثر کوئی کام نہیں کرنا پڑتا۔ ا سکول کالج بند ہو جاتے ہیں۔۔۔ آفس میں کام ختم کر دِیا جاتا ہے۔ گھروں میں بھی سب اپنے اپنے کمروں میں آرام کرنے چلے جاتے ہیں۔ ہاں البتہ!
    کچھ آفس پھر بھی چلتے رہتے ہیں۔ فیکٹریاں شفٹ ورک کے ہیر پھیر میں انسانوں کو اُلجھا کر منافع کمانے کی سر توڑ کوشش میں لگی رہتی ہیں۔
    سارے بالا خانے آباد ہو جاتے ہیں۔ رات کا فائدہ اُٹھا کر سب اُجلی باتیں ، اُجلے کردار، اغلاف، ہنر سب کے سب کالے اور دھندلے ہو جاتے ہیں۔ اسی رات کا جادو کبھی ایسا چلتا ہے کہ انسان تمام عمر سونا اور آرام کرنا بھول جاتا ہے۔
    ڈاکٹر کہتے ہیں کہ رات ایک سُچل اور قدرتی انمول تحفہ ہے جو رّب نے انسان کو عطا کیا ہے۔ جو اس کو نہیں سنبھال کر رکھتا وہ بے چین رہتا ہے۔۔۔
    شاید رات مجھے اس لیے بھی پسند تھی کہ اس کا تعلق چیَن سے تھا۔ آرام سے تھا۔۔۔ میں اکثر جب ہسپتال میں ڈیوٹی پر ہوتی ہوں تو رات کو ضرور وارڈ کا چکر لگاتی ہوں۔۔۔ دیکھوں کہ کون آرام اور چَین سے سو رہا ہے۔
    اور پھر میں کئی لمحے تک ان کے پُر سکون چہرے دیکھتی رہتی ہوں جو دِن کے اُجالے میں حرماں نصیبی کی تصویر ہوتے تھے۔۔۔ دُکھ اور کرب ہر طرف کُرلایا کرتا ہے۔ ہسپتال کے ہر وارڈ میں کرب اور دُکھ برستے رہتے ہیں۔ خاص طور پر میں جہاں کام کرتی تھی۔ یہ نفسیاتی ہسپتال تھا۔۔۔ حال ہی میں میرا تبادلہ یہاں ہوا تھا۔ اس سے پہلے میں سرجری کے شعبے میں تھی اور اس سے پہلے میڈیسن اور گائنی میں۔۔۔ سو میری یہ چوتھی Rotation تھی۔اکثر رات کی ڈیوٹی لگتی رہتی تھی اور ہسپتال میں بھی رات آتی تھی مگر صرف ان لوگوں کے لیے جو چین اور آرام کی منزل کو یاد رہے ہوتے تھے۔ ہاں البتہ ڈاکٹروں کا تعلق بے چین، بے آرام سے لوگوں سے تھا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ اس بے چینی کے اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ رات کو بھی اُٹھ اُٹھ کر مریضوں کو دیکھتے ہیں اور ان کے پُر سکون سوئے ہوئے چہروں کے باوجود ان کی نبضیں ٹٹول رہے ہوتے ہیں اور کبھی کمر لگا کر بیٹھ بھی جائیں تو نئے آنے والے مریض کی اطلاع ان کو حیران اور پریشان نہیں کرتی بلکہ دوڑ پڑتے ہیں۔ اُنہیں بے سکونی اور بے آرامی سے بچانے کے لیے۔
    ان کے سکون اور رات کے تحفظ کے لیے ، ساری رات ، بے سکون ہو کر بِتا دیتے ہیں۔۔۔ پھر بھی اکثر لوگ یہی کہتے تھے کہ آخر ڈاکٹر نے کیا کیا؟؟
    میں شاید کبھی نہ بتا سکوں گی کہ اس دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کو اپنی راتیں بانٹ دیتے ہیں صرف اُنہیں رات کا سُکھ دینے کے لیئے۔۔۔
    کتنے لوگ تھے جو ایسا ظرف رکھتے تھے ؟
    جبھی تو رات کی عبادت کا ثواب بھی دو گنا تھا۔
    اس رات کے آرام کی قربانی کا احساس تو میرے رب کو بھی تھا۔۔۔ جبھی تو اِس کی قدردانی میں جنت رکھی ہے۔
    بے شک اِنسان نا شکرا رہے۔۔۔ اپنے رب کا بھی۔۔۔ جس نے رات کو آرام کے لیے بنایا اور پھر اس انسان کا بھی ، جس نے اُسے رات کا سکون دوبارہ لوٹایا۔۔۔
    یہ رات کتنی کرشمہ ساز ہے۔۔۔ کسی کو راتوں رات ولی بنا دیتی ہے اور کسی کو راتوں رات فقیر کر دیتی ہے۔۔۔ اور اگر کبھی رات کو کھڑکی سے پردہ اُٹھا کر باہر دیکھو تو اس کالے اژدھے کی طرح ڈرا دیتی  ہے جس کا تصور امی جی نے ہزاروں بار ہمیں نماز نہ پڑھنے پر شہر میں ملنے والی سزاؤں میں سے ایک کا ذکر کیا تھا۔۔۔
    تو کیا رات کالے اژدھے کی طرح ایک سزا بھی تھی؟؟؟
    شاید اُن لوگوں کے لئے جنہیں آرام نہیں تھا۔۔۔سکون نہیں تھا۔۔۔ چین نہ تھا۔۔۔ جنہیں نیند نہیں آتی۔۔۔
    رات کی اس جادو گری سے میں حیران سی رہتی تھی۔
    اللہ پاک کی کروڑوں نعمتوں میں سے ایک تھی۔۔۔
    کسی کو میسر تھی۔۔۔
    کسی سے چھین لی گئی تھی۔۔۔
    کسی کے لئے نایاب سی تھی۔۔۔
     کسی کے لئے مصنوعی طریقے سے خریدی جا رہی تھی۔۔۔
    اور کسی کو کہیں سے بھی نہیں مل رہی تھی۔ایک عذابِ مسلسل کی طرح جگا رہی تھی۔
    انہی راتوں میں خوف اور دہشت و وحشت پلتی تھی۔ تو میں کبھی انہی وارڈز میں گھومتے ہوئے سوچتی تھی ، ہر انسان کی رات اپنی ذاتی ہوتی ہے۔۔۔
    اس کے لئے سونا کیا تھا صرف وہی جانتا تھا۔۔۔ اس کے خواب صرف اُسی کے تھے۔۔۔ اس کا آرام و چین سبھی کچھ اس کا اپنا تھا۔۔۔
    جہاں میں کھڑی تھی وہاں سے صرف مجھے ان کے معصوم چہروں پر پھیلی ہوئی معصوم سی خواہش نظر آتی تھی۔ جنہیں پڑھنے کے لئے میں اکثر بے چینی سے وارڈز کے چکر لگایا کرتی تھی۔
    کبھی ان کے معصوم چہروں پہ ہلکی سی مسکراہٹ آ جاتی جیسے اُن کے خواب درد اور کرب سے آزاد ہو رہے ہوں۔۔۔ اور کبھی ان کے آنسو پلکوں سے ٹکراتے رہتے اور یونہی گرتے رہتے۔۔۔ جیسے ان کو سحر کی اُمید ہی نہ تھی۔۔۔ اور کبھی وہ ایسے ڈر کر اُٹھ جاتے جیسے رات کالے اژدھے کی طرح انہیں نگلنے کے لئے چلی آ رہی تھی۔
    رات اور موت میں کیا فرق تھا۔۔۔ شاید لمحوں کا فاصلہ تھا۔ یا پھر پل پل دعا دینے والی موت بانگِ دہل رات کے قدموں میں لوٹ رہی ہوتی تھی۔ اسے بھی معلوم تھا کہ راتوں کو کون جاگتا ہے۔۔۔ کون پکارتا ہے۔۔۔ کون آتا ہے مدد کو۔۔۔ کون سُنتا ہے۔۔۔ ہاں ! پکارتا تو وہی ہے جو لو لگا لیتا ہے۔۔۔
    سلگتا ہے پل پل۔۔۔ لمحہ لمحہ۔۔۔ گھلتا رہتا ہے۔۔۔اپنے ہی دُکھوں میں ، اپنے ہی واہموں میں ، خود ہی سے ہارتا رہتا ہے۔
    لیکن ہاں ! ایک ہے جو مدد کو آتا ہے ، وہ رب ہے جو سدا سے جاگ رہا تھا۔ اس کے لیئے ہی دِن رات کا فرق نہیں تھا شاید صرف اس لیئے کہ کوئی اسے پکار نہ لے۔۔۔مدد مانگنے نہ آ جائے۔۔۔ رات کی عبادت ساری عبادتوں سے افضل تھی۔
    انسان سے ولی تک کا سفر رات کا سفرِ مسلسل تھا۔لیکن یہ کیسی رات تھی بے قرار سی ، لمبی اژدھے جیسی زہریلی۔ جس کا زہر جاگنے پر بھی رہ جاتا ہے۔ یہ اس رات کی بات تھی جس کے رتجگے میں نہ تو ہجر تھا نہ وصال۔۔۔ بس خون اور وحشت کی طرح مسلط کر دی جاتی ہے۔ کسی امیر کی طرف سے کسی بھی غریب پر اور کبھی بڑے ملک چھوٹے ملکوں کی نیندیں اُڑا دیتے  ہیں ، اس میں بسنے والے ہر انسان کی رات چُرا لیتے ہیں۔ اس میں خون،  ہراس، دہشت، وحشت، بے یقینی اور بے چینی بھر دیتے ہیں۔ کتنے ظالم ہوتے ہیں وہ لوگ جو دوسرے لوگوں کی راتیں چُرا لیتے ہیں۔۔۔ ان سے چین اور آرام چوری کر لیتے ہیں ، ان کے سکون اور خواب لوٹ لیتے ہیں ، کتنے ہی بہانوں سے۔۔۔ اِنسان اُجاڑ دیتے ہیں۔ پھر باقی کیا بچتا ہے ان کے پاس؟ ؟؟
Stress سٹریس،  Depressionڈپریشن۔۔۔ یہ سب کیا تھا ؟؟؟
    کسی کو نیند نہیں آتی تھی؟ نہ قدرتی ، نہ مصنوعی۔۔۔ اعصاب شکن راتوں کے عذاب کیوں کچھ انسانوں پر مسلط کر دیئے جاتے ہیں۔ بے قصور، مظلوم اور لاچار انسان۔۔۔
    میں نیندیں کہاں سے لاؤں ؟؟؟ میرے رب! میرے ہاتھوں کو جادوؤں سے بھر دے کہ میں ان بے خواب تھکی آنکھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دوں اور وہ پل بھر میں سو جائیں۔ آرام کی وادیوں میں بے فکر اُڑیں ، لہرائیں ، گھومیں ، ناچیں۔۔۔ خواب، جو مدتوں سے نہیں دیکھے وہ ایک پل میں سارا سفر کر لیں۔۔۔
    اے رب! مجھے پور پور جادو کر دے۔
    کہ میں ان کا یقین اور بھروسہ لوٹا دوں۔۔۔ کہ وہ سب ایک دفعہ ہوش میں رہنا سیکھ لیں۔۔۔ہم سب بہت عام سے انسان ہیں۔۔۔ ہم ولی نہیں بن سکتے۔ ہم یہ ریاضت نہیں کر سکتے۔ ہمیں نہ آزما۔۔۔ ہمیں ہماری نیندیں ، ہماری راتیں لوٹا دے۔میں نے اپنی دھندلی اشک بار ا آنکھوں سے مسز ڈینی کو دیکھا جو بار بار آنکھیں بند کرتی اور کبھی اپنے بازو اپنی آنکھوں پر رکھ لیتی۔ سلیپنگ پلز کے باوجود نیند ان کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
    ’’تھوڑی دیر میں نیند آ جائے گی ، بس یونہی آنکھیں بند رکھو۔ ‘‘ میں نے آہستگی سے انگریزی میں اس سے کہا تو وہ ہنس پڑی۔ مجھے لگا جیسے میرا مذاق اُڑا رہی ہو۔
    ہر تکلیف میں سب سے پہلے نیند کا ہی انجکشن دینا پڑتا تھا۔ میں سوچے بنا نہ رہ سکی۔
    اگر میرے سارے مریضوں کو ان کی نیندیں واپس مل جائیں تو میرا سارا وارڈ خالی ہو جائے شاید۔۔۔ میں اپنے تجزیہ پر فور۱ً ہی ہنس پڑی۔
    سڈنی کے اس ٹیچنگ ہسپتال میں سائیکاٹری کے لئے پچاس بیڈ کا یہ ہسپتال میرے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر تھا۔ اور جب مجھے یہاں جاب ملی تھی میں سمجھی تھی کہ لاٹری کھل گئی تھی۔ لیکن ہر صبح کو جب سوا آٹھ بجے ان سڑکوں پر گاڑیوں کا سیلاب آتا تو میں تیرتے تیرتے ہسپتال پہنچتی اور پندرہ15 منٹ کا راستہ پینتالیس 45منٹ میں طے ہوتا تو ہر روز سوچتی کہ سنٹرل کوسٹCentral Coastکی جاب اچھی تھی۔ ایک گھنٹہ کا سفر اُڑتے اُڑتے 45منٹ میں طے کرتی تھی اور سارے راستے صرف وہی سوچتی جو میں سوچنا چاہتی تھی۔ اس وقت صرف ان 45منٹوں میں نہ تو میں ڈاکٹر ہوتی تھی اور نہ ہی رشتے میں کسی کی کچھ لگتی۔۔۔ ان45منٹوں کا سفر مجھے بے حد عزیز تھا لیکن یہ 15منٹ کا سفر 45 منٹوں میں کرنا اچھا نہ لگتا تھا۔ کار پارکنگ سے وارڈ تک کا سفر مزید 10منٹ میں گزرتا۔ یہ بھی گراں تھا۔ بڑے ہسپتالوں کی بڑی کہانیاں ہوتی ہیں۔ انڈر شیڈ کار پارکنگ، اوپن پارکنگ۔۔۔ اور دونوں کے لئے مہینوں الیکٹرانک کارڈ کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور اس دوران پارکنگ نے جان نکالے ہی رکھی ہے۔۔۔ اگر اِدھر اُدھر پارک ہو جاتی تو فائن کا انتظار الگ سے کرنا پڑتا ہے۔ خدا خدا کر کے الیکٹرانک کارڈ ملا تھا۔ لیکن اب گاڑی کے دھوپ میں کھڑی کرنے کا قلق تھا۔ بہر حال ہم کسی حال میں خوش نہیں رہ سکتے۔
    پچاس بیڈ کے سائیکاٹری وارڈ کے دو حصے تھے۔ ان پچاس بیڈ میں 4تو ایمرجنسی میں تھے۔ 14ہائی ڈپینڈنسی یونٹ کے تھے جسے ہم HDOکہتے تھے۔ جہاں پر مریضوں کو Intensive Careمیں رکھا جاتا تھا اور ہر پندرہ 15منٹ میں باقاعدہ انہیں دیکھا جاتا تھا کہ کہیں وہ اُلٹے سیدھے کام نہ کر رہے ہوں۔
    نرسنگ اسٹیشن ڈبل گلاس کورڈ تھا ہر طرف سے۔۔۔ تاکہ کوئی اندر نہ آ سکے۔ اگر کوئی آتا تو چابی کا استعمال کرتا۔ سائیکاٹری وارڈز کا یہ رونا ہر جگہ ہی تھا۔ ہر دروازہ مقفل رکھا جاتا۔ سب چابیوں کے گچھے کمر سے یا گلے میں لٹکائے پھرتے اور چھم چھم کرتے جاتے جہاں جاتے۔ہفتہ وار گرینڈ راؤنڈ میں سب کو پتہ لگ جاتا کہ سائیکاٹری ٹیم آ رہی ے چھم چھم کرتی۔۔۔ ہمارے دوست ساتھی سب مینٹل ڈاکٹر کہا کرتے تھے جو مجھے کبھی برا نہ لگتا۔۔۔ اور میں بڑے مان سے سرجن فلپ سے کہتی۔۔۔ تمہیں معلوم ہے کہ ہم لوگ تمہاری سوچیں اور تمہارے خیال پڑھ سکتے ہیں۔
    اُس نے میرا نام Brainy Doctorدماغی ڈاکٹر رکھ دِیا اور کچھ ہی عرصے میں مجھے سب اِسی نام سے پکارنے لگے۔ میرے بہت سے مریض یہی سمجھتے تھے کہ میرا نام برینی ہے۔ لیکن میں یہ کیسے سب کو یقین دِلاتی کہ دماغ ایک مسٹریMistryہے ، عجوبہ ہے۔ آج تک ہمارے حضورﷺ کے علاوہ کسی نے 1/7.44 سے زیادہ دماغ نہیں کیا ہے۔ جن میں وہ Scientistبھی آتے ہیں جنہیں ہم آئن سٹائن، گلیلیو، مارکونی وغیرہ کے ناموں سے جانتے ہیں اور نہ جانے کتنے فلاسفر بھی۔۔۔
    مجھے اپنے برینی ہونے پر ناز تھا۔۔۔
    مجھے اپنے کام سے عشق تھا۔۔۔
    پیار کرنا کوئی بُری بات تھوڑی ہے۔۔۔
    کوئی پانے کی خاطر پیار کرتا ہے۔ میں تو کھوئے ہوئے لوگوں کو پانے کے لئے پیار کرتی تھی۔۔۔ یہ سارے لوگ کھوئے ہوئے تھے۔۔۔ اپنی سمجھ، اپنی عقل، اپنا چے َن، اپنے دِن رات۔۔۔ اُنہیں کچھ بھی نہ ملتا تھا۔
    اوپن وارڈ کے بیچوں بیچ نرسنگ اسٹیشن تھا۔ جس میں چاروں طرف شیشے لگے ہوئے تھے تاکہ ہم سب آتے جاتے ان پر نظر رکھ سکیں اور اپنا کام بھی کرتے جائیں۔ میں ابھی اپنی کالی الیکٹرانک چابی لگا ہی رہی تھی کہ میرا Razer Beepکرنے لگا۔۔۔ نمبر دیکھا تو ایمرجنسی کا تھا۔

    رات کے تین بجے۔۔۔ یقیناً لڑائی ہوئی ہو گی کلب میں۔ لڑا ئی کا چکر، شراب یا پھر ڈرگ۔۔۔ ہمیں اکثر ایسے لوگ بھی ڈیل کرنے پڑتے تھے اس لیئے کہ یہ بھی تو ایک سائیکی تھی۔ان چیزوں میں پناہ ڈھونڈنے والے کب نارمل ہوتے ہیں۔
    اور ستم یہ کہ یہ ویسٹرن کلچر کا ایک حصہ ہے بڑا لازم و ملزوم سا۔۔۔
    جانے میں کیا کیا سوچتے زینہ اُتری۔ بڑی سی راہداری کو پار کر کے پھر ایک اور کورویڈور میرا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے ایمرجنسی سٹاف سے بات کرتے وقت تیس منٹ میں پہنچنے کا وعدہ کیا تھا کیونکہ سب سے پہلے وارڈ میں بتانا پھر اپنے کمرے سے ضروری فائلیں اُٹھانی پھر ایمرجنسی تک کا سفر پندرہ منٹ تک بڑے ہسپتالوں میں نہ ہونے کے برابر تھا۔
    راستے پر بہت کچھ سوچتے ہوئے ایمرجنسی پہنچی۔
    سوشی میرا انتظار کر رہی تھی۔ وہ سینئر نرس کنسلٹنٹ میرے ساتھ ہی ڈیوٹی پر تھی۔ وہ مریض پہلے سے دیکھ چکی تھی۔ وہ جلدی جلدی سب کچھ بتانا چاہتی تھی۔ اور شاید اسی رات کی وجہ سے میں ذرا سی سست ہو رہی تھی۔ اُلجھ پڑی۔
    ’’پلیز سوشی! آہستہ آہستہ بولو یا فائل مجھے دے دو۔۔۔‘‘
    اُس نے پھر دوبارہ آہستہ آہستہ بتاتے ہوئے اس کی فائل مجھے دیدی۔
    چوّن 54سالہ عورت نے اینٹی ڈپریسنٹ کھا کر خود کشی کی کوشش کی تھی۔ بروقت طبی امداد ملنے سے بچ گئی تھی اور اب تک میڈیکل ٹیم کی نگرانی میں تھی۔
    ’’اگر وہ  Medically Clearanceمیں ہے تو مجھے کیوں بلایا ہے ؟ ‘‘
    ’’شاید مسز کونگ بہت Distressمیں ہیں۔‘‘
    ’’شاید ہم کچھ سنبھال سکیں اس لئے۔۔۔‘‘ سوشی دور کی کوڑی لائی تھی۔
    ’’شاید۔۔۔ ‘‘
    ’’جانے کیوں خود کشی کا رواج سا ہو گیا ہے۔ ‘‘
    ’’آسان سا اور سستا سا نسخہ۔۔۔ ہر چیز کا علاج۔۔۔‘‘ ابھی کچھ دِن پہلے والی ایمرجنسی ٹیم کے ساتھ ہونے والی میٹنگ میں ایک نرس نے کہا تھا۔
    ایک سائیکالوجسٹ چیخ پڑی۔
    ’’نہیں یہ غلط ہے۔ جب انسان کے نزدیک جینے اور مرنے میں فرق مٹ جائے تب وہ خود کشی کرتا ہے۔ کہ اب چلتے ہیں ، بہت ہو گیا، بہت سہہ لیا۔ ‘‘
    اس عمر میں یعنی 54سال کی عمر میں خود کشی۔۔۔تنہا ہے تو سمجھ آ جاتی ہے لیکن فیملی کے ساتھ۔۔۔ Unbelievable۔۔۔ یقیناً سیریس بات ہے۔۔۔ ‘‘ ایمرجنسی میں دائیں بائیں قطار سے بیڈ لگے ہوئے تھے۔ ایک طرف نرسنگ اسٹیشن اور ایک طرف ڈاکٹر اسٹیشن تھا۔ ہر طرف رش سا لگا ہوا تھا۔ باہر انتظار کرنے والوں کی بھیڑ۔ کبھی آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھ جاتے اور کچھ دوسروں کے کندھے پر سر رکھ کر بے خبر سو رہے تھے۔ رات اپنے جلووں کے ساتھ حشر برپا کیے ہوئے تھی۔
    ہر شخص کی اپنی داستان تھی۔۔۔ ہر شخص کے جاگنے رونے کی ایک وجہ تھی۔ ہسپتال میں کام کرنے والا سارا عملہ اوپر سے لے کر نیچے تک اسی کوشش اور تگ و دو میں تھا کہ آخر اِتنے سارے لوگ بے چین کیوں ہیں ؟ جاگ کیوں رہے ہیں ؟ رو کیوں رہے ہیں ؟ دُکھ اور کرب میں کیوں ہیں ؟ اِنہی لوگوں میں مسز کونگ بھی تھی۔۔۔بے چین ، بے قرار،  زرد سے چہرے والی۔۔۔ آکسیجن ما سک لگا ہوا تھا۔ دونوں بازوؤں پر ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ہارٹ مانیٹر ہو رہا تھا تو کبھی بلڈ پریشر اور نبضیں گنی جا رہی تھیں۔۔۔ زرد چہرے والی مسز کونگ اپنی عمر سے تقریباً پندرہ سال چھوٹی لگ رہی تھیں۔ ان کا حلیہ اور بالوں کا سٹائل بتا رہا تھا کہ وہ Asianہیں اور یہ بھی پتہ لگ رہا تھا کہ وہ کتنی اچھی فیملی سے تعلق رکھتی تھیں۔ سرہانے پر جو چوبیس پچیس سال کا لڑکا تھا، یقیناً اُن کا بیٹا ہو گا اور دائیں بائیں دو نازک اور پیاری سی لڑکیاں ان کی بیٹیاں لگ رہی تھیں اور کرسی پر بیٹھا بُردبار سا آدمی یقیناً مسٹر کونگ ہو گا۔ ورجینا کا شوہر۔۔۔ مسٹرکونگ نے اِنتہا کی انکساری سے اپنا تعارف میرے تعارف کے جواب میں کروایا۔ سب سے تعارف کے بعد میں مسزکونگ کے پاس آئی۔
    ’’ہیلو مسز کونگ۔ ‘‘ میں نے ان کے قریب آتے ہوئے کہا۔
    نقاہت سے اُنہوں نے آنکھیں کھول دیں اور مجھے یوں دیکھا جیسے مجھے چیلنج کر رہی ہوں کہ دیکھتی ہوں کہ تم میری مسیحا کیسے بنتی ہو۔
    ’’میرے کئی سوالوں کے جواب میں اُن کی پلکیں اُٹھتیں اور جھک جاتیں۔۔۔ شاید تھک گئی تھیں۔ بول نہ پا رہی تھیں۔
    ’’Al right میں صبح آپ سے ملوں گی۔اس وقت انہیں آرام کرنے دیں۔۔۔ اوکے !! ‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے مسز کونگ کو دیکھا۔ اُنہوں نے میرا ہاتھ محبت سے تھام لیا اور کچھ منٹ تک تھامے رکھا پھر مجھے ایک نظر دیکھا اور پھر ہاتھ بھی چھوڑ دِیا اور آنکھیں بھی بند کر لیں۔ جیسے جانے کی اِجازت دے دی ہو۔۔۔
    ’’اگر آپ لوگ بات کرنا چاہتے ہیں تو ہم Quiteروم میں بات کر سکتے ہیں۔‘‘ میں اس کمرے کی طرف بڑھ آئی جہاں ہم سب لواحقین سے بات کیا کرتے تھے۔
    ’’ڈاکٹر ہم کیا بات کریں۔ ہم تو خود حیران ہیں کہ آخر ورجینا نے خود کشی کی کوشش کیوں کی ؟ ہم سب سکون سے رہ رہے ہیں۔ بچے پڑھ لکھ رہے ہیں۔ روپے پیسے کی کمی نہیں ہے پھر کیا ہوا ہے اِسے ؟‘‘
    ’’کوئی لڑائی۔۔۔ ناراضگی کسی سے ؟ ‘‘ میں نے حیرانگی میں شامل ہوتے ہوئے پوچھا۔
    دیکھئے ڈاکٹر ! چھوٹے بڑے مسئلے ہوتے رہتے ہیں گھر میں۔ مگر ایسا ہر گز نہیں ہے کہ ایسا Reactionہو۔ ‘‘
    ’’آپ کا تعلق کس جگہ سے ہے ؟ ‘‘
    ’’کمبوڈیا(Combodia)سے۔ ‘‘
    ’’اور ہم کہمر(Cohmer)بولتے ہیں۔ ‘‘
    ’’اور ممکن ہے کہ کل جب آپ ورجینا سے بات کریں گی تو انٹر پرئیرکی ضرورت پڑے گی۔ ‘‘
    ’’اور کچھ؟ ‘‘
    ’’جب سے ہمارا بیٹا ملبورن یونیورسٹی گیا ہے تب سے زیادہ اُداس رہنے لگی ہے ورجینا۔ ‘‘
    ’’یہی کوئی دو مہینوں سے۔۔۔‘‘
    ’’کسی ڈاکٹر کو دکھایا آ پ نے ؟‘‘
    ’’جی آ ج ہی جمعے کی شام کو۔۔۔‘‘ مسٹر کو نگ نے بتایا۔
    ’’کیا کہا انہوں نے ؟‘‘   
    ’’بس کہا کہ ڈپریشن ہے اور جو دوائی لکھ کر دی تھی ، پوری کی پوری کھا کر خودکشی کی کوشش کی تھی۔۔۔‘‘اب مسٹر کونگ کی آنکھوں میں شکست میں اتر آ ئی تھی۔ چھبیس سالہ ازدواجی زندگی کو شکست ہو رہی تھی۔
    انہیں پتہ نہیں لگ رہا تھا کہ ورجینا  کا کیا مسئلہ تھا۔
    اس کے دکھ کا سرا کیا تھا۔
    اس کی خاموش اذیت کیا تھی۔
    اس نے ابھی تک کس کو اپنا ہمراز کیا تھا۔
    تنہا چلتے چلتے تھک سی گئی تھی۔

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

  ورڈ فائل                                                   ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول