صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
منٹو کے چار ڈرامے
یک بابی ڈراموں کا انتخاب
منٹو
سید معز الدین احمد فاروق، اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
چوڑیاں
سعادت حسن منٹو
افراد :
حامد:کالج کا ایک جوان طالب علم طبیعت شاعرانہ
سعید:حامد کا دوست
ڈپٹی صاحب:حامد کے والد
ثریا:حامد کی بہن
حمیدہ:حامد کی بہن
ماں:حامد کی ماں
دوکان دار۔ حمیدہ کی ایک اور سہیلی۔ تار والا اور ایک ملازم
پہلا منظر
(کالج ہوسٹل کا ایک کمرہ۔ ہر چیز قرینے سے رکھی ہے بہت کم فرنیچر ہے لیکن ٹھکانے سے رکھا ہے اور بہت خوبصورت دکھائی دیتا ہے پلنگ کی چادر اجلی ہے ، بے داغ، میز کا کپڑا بھی صاف ستھرا ہے دیواروں پر صرف دو تصویریں نظر آتی ہیں۔ چغتائی کی جن کے فریم بہت ہی نازک ہیں۔ میز پر کچھ کتابیں رکھی ہیں جن میں سے اکثر شاعروں کے دیوان ہیں۔ حامد آرام کرسی میں پورے لباس میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہے اور اس کا دوست سعید لوہے کے پلنگ پر لیٹا دو نرم نرم تکیوں پر کہنی جمائے۔ ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے رکھے حامد کی طرف دیکھ رہا ہے۔ جو اخبار پڑھنے میں مصروف ہے۔)
حامد :(اخبار کے پیچھے سے)اپنے عزیزوں اور دوستوں کو تحفے دیجئے۔ ہیں بھئی۔۔۔ اشتہار کی سرخی دلچسپ ہے۔۔۔ ‘‘اپنے دوستوں اور عزیزوں کو تحفے دیجئے۔۔۔ ‘‘شادی بیاہ اور سالگرہ اور اسی قسم کی دوسری تقریبوں پر حسین تحفے ہی دینے چاہئیں۔ آپ کا دیا ہوا آئینہ، آپ کا پیش کردہ پھولدان، آپ کا بھیجا ہوا ہار۔ ذرا غور فرمائیے۔ ان حسین تحفوں میں کتنی شاعری ہے۔ ہمارے شوروم میں تشریف لائیے اور اپنے دوست اپنے عزیز یا اپنے۔۔۔
(سعید کھانستا ہے۔)
حامد :کوئی تحفہ دینے کے لئے اپنے دل پسند شعر انتخاب فرمائیے۔
سعید :لائیے اخبار میرے حوالے کیجئے۔۔۔ میں جنگ کی تازہ خبریں پڑھنا چاہتا ہوں۔
حامد :(اخبار چہرے پرسے ہٹاتے اور اسے تہہ کرتے ہوئے)آپ کو جنگ سے اتنی دلچسپی کیوں ہے ؟
سعید :اس لئے کہ میں بہت صلح کن آدمی ہوں۔
حامد :یہ جنگ بھی صلح کن آدمی ہی کر رہے ہیں (اخبار تہہ کرتا اٹھتا ہے)خیر ہٹائیے اس قصے کو۔۔۔ میں آپ سے یہ عرض کرنے والا تھا کہ میں ایک حسین تحفہ خریدنا چاہتا ہوں۔
سعید :(کروٹ بدل کر)کس کے لئے ؟
حامد :(اخبار میز پر پھینکتے ہوئے) اس کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا؟
سعید :خوب!
حامد :تحفہ لے آؤں تو بعد میں فیصلہ کر لیا جائے گا۔
سعید :(اٹھ کے پلنگ پر بیٹھ جاتا ہے)ٹھیک۔۔۔ لیکن آپ کا کوئی دوست۔۔۔ کوئی عزیز۔۔۔ ؟۔۔۔ کوئی۔۔۔ ؟
حامد :یہاں آپ کے سوا کوئی نہیں۔
سعید :(خوش ہو کر)تو۔۔۔
حامد :جی نہیں۔ تحفہ میں آپ کو نہیں دینا چاہتا۔
سعید :کیوں ؟
حامد :(کرسی لے کر سعید کے پاس بیٹھ جاتا ہے) اس لئے کہ آپ کو اپنی تاریخ پیدائش ہی معلوم نہیں۔۔۔ فرمائیے آپ کب پیدا ہوئے تھے۔
سعید :ایسی چیزیں کون یاد رکھتا ہے۔
حامد :اب آپ کی سالگرہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
سعید :جی ہاں۔ بالکل پیدا نہیں ہوتا۔
حامد :رہی آپ کی شادی تو اس کے متعلق مجھے یقین ہے کہ کبھی ہوہی نہیں سکتی۔
سعید :یعنی اس معاملے میں آپ مجھ سے کہیں زیادہ نا امید ہو چکے ہیں۔
حامد :جی ہاں۔۔۔ اس لئے کہ آپ کبھی یہ فیصلہ نہیں کر سکیں گے کہ آپ کو پچاس برس کی عورت چاہئے جس میں سولہ برس کی الھڑ لڑکی کی خادم کاریاں ہوں یا آپ کو سولہ برس کی لڑکی چاہئے جس میں پچاس برس کی عورت کی پختہ کاریاں موجود ہوں۔۔۔ لیکن میرا نقطہ نظر بالکل جدا ہے۔
سعید :(پلنگ پرسے اٹھ کر آرام کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ جہاں پہلے حامد بیٹھا تھا)جو مجھے اچھی طرح معلوم ہے لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ تحفہ خریدنے کے بعد ہی شادی کے مسئلے پر غور کریں گے۔
حامد :غالباً ایسا ہی ہو گا۔
سعید :تو ظاہر ہے کہ آپ کوئی زنانہ تحفہ خریدیں گے۔
حامد :بالکل ظاہر ہے (پلنگ پر لیٹ جاتا ہے اسی طرح سعید لیٹا ہوا تھا۔) میں نے اگر کوئی مردانہ تحفہ خریدا تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ میں بہت خودغرض اور کمینہ ہوں۔
سعید :کیا شک ہے۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔
حامد :آپ کا مطلب ٹھیک ہے اس لئے کہ تحفہ میری طرف سے میری طرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے کہ میں اپنی سالگرہ منالوں۔ کیونکہ مجھے اپنی تاریخ پیدائش اچھی طرح یاد ہے۔۔۔ میرا مطلب ہے زبانی یاد نہیں لیکن نوٹ بک میں لکھی ہوئی موجود ہے۔
سعید :اس صورت میں بھی آپ کا تحفہ آپ کی طرف سے آپ ہی کی طرف ہو گا۔
حامد :(بستر پر اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے)ارے ہاں۔۔۔ یہ تو ہو گا۔ تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ تحفہ خریدنے کے بعد مجھے کوئی عورت۔۔۔
سعید :(اٹھ کھڑا ہوتا ہے) یا لڑکی کی تلاش کرنا پڑے گی جس کے ساتھ آپ شادی کر سکیں۔
حامد :ہاں ایسی عورت۔۔۔
سعید :یا لڑکی!
حامد :یا لڑکی۔۔۔ مجھے ہر حالت میں تلاش کرنا پڑے گا۔
سعید :ہر حالت میں کیوں ؟
حامد :ہر حالت میں نہیں۔ صرف اس حالت میں جب میں نے تحفہ خرید لیا ہو گا۔
سعید :یہ حالت بہت ہی قابل رحم ہو گی۔
حامد :کچھ بھی ہو۔۔۔ میں تحفہ خریدنے کا فیصلہ کر چکا ہوں۔۔۔ اب یہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ آئیے چلیں۔۔۔
(حامد ٹوپی پہنتا ہے۔۔۔ سعید ذرا آئینے میں اپنے بال درست کرتا ہے۔ حامد میز پرسے اخبار اٹھاتا ہے۔)
حامد :چلئے !
سعید :چلئے !
(دونوں باہر نکل جاتے ہیں۔)
دوسرا منظر
.............. نا مکمل
٭٭٭
حامد:کالج کا ایک جوان طالب علم طبیعت شاعرانہ
سعید:حامد کا دوست
ڈپٹی صاحب:حامد کے والد
ثریا:حامد کی بہن
حمیدہ:حامد کی بہن
ماں:حامد کی ماں
دوکان دار۔ حمیدہ کی ایک اور سہیلی۔ تار والا اور ایک ملازم
پہلا منظر
(کالج ہوسٹل کا ایک کمرہ۔ ہر چیز قرینے سے رکھی ہے بہت کم فرنیچر ہے لیکن ٹھکانے سے رکھا ہے اور بہت خوبصورت دکھائی دیتا ہے پلنگ کی چادر اجلی ہے ، بے داغ، میز کا کپڑا بھی صاف ستھرا ہے دیواروں پر صرف دو تصویریں نظر آتی ہیں۔ چغتائی کی جن کے فریم بہت ہی نازک ہیں۔ میز پر کچھ کتابیں رکھی ہیں جن میں سے اکثر شاعروں کے دیوان ہیں۔ حامد آرام کرسی میں پورے لباس میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہے اور اس کا دوست سعید لوہے کے پلنگ پر لیٹا دو نرم نرم تکیوں پر کہنی جمائے۔ ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے رکھے حامد کی طرف دیکھ رہا ہے۔ جو اخبار پڑھنے میں مصروف ہے۔)
حامد :(اخبار کے پیچھے سے)اپنے عزیزوں اور دوستوں کو تحفے دیجئے۔ ہیں بھئی۔۔۔ اشتہار کی سرخی دلچسپ ہے۔۔۔ ‘‘اپنے دوستوں اور عزیزوں کو تحفے دیجئے۔۔۔ ‘‘شادی بیاہ اور سالگرہ اور اسی قسم کی دوسری تقریبوں پر حسین تحفے ہی دینے چاہئیں۔ آپ کا دیا ہوا آئینہ، آپ کا پیش کردہ پھولدان، آپ کا بھیجا ہوا ہار۔ ذرا غور فرمائیے۔ ان حسین تحفوں میں کتنی شاعری ہے۔ ہمارے شوروم میں تشریف لائیے اور اپنے دوست اپنے عزیز یا اپنے۔۔۔
(سعید کھانستا ہے۔)
حامد :کوئی تحفہ دینے کے لئے اپنے دل پسند شعر انتخاب فرمائیے۔
سعید :لائیے اخبار میرے حوالے کیجئے۔۔۔ میں جنگ کی تازہ خبریں پڑھنا چاہتا ہوں۔
حامد :(اخبار چہرے پرسے ہٹاتے اور اسے تہہ کرتے ہوئے)آپ کو جنگ سے اتنی دلچسپی کیوں ہے ؟
سعید :اس لئے کہ میں بہت صلح کن آدمی ہوں۔
حامد :یہ جنگ بھی صلح کن آدمی ہی کر رہے ہیں (اخبار تہہ کرتا اٹھتا ہے)خیر ہٹائیے اس قصے کو۔۔۔ میں آپ سے یہ عرض کرنے والا تھا کہ میں ایک حسین تحفہ خریدنا چاہتا ہوں۔
سعید :(کروٹ بدل کر)کس کے لئے ؟
حامد :(اخبار میز پر پھینکتے ہوئے) اس کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا؟
سعید :خوب!
حامد :تحفہ لے آؤں تو بعد میں فیصلہ کر لیا جائے گا۔
سعید :(اٹھ کے پلنگ پر بیٹھ جاتا ہے)ٹھیک۔۔۔ لیکن آپ کا کوئی دوست۔۔۔ کوئی عزیز۔۔۔ ؟۔۔۔ کوئی۔۔۔ ؟
حامد :یہاں آپ کے سوا کوئی نہیں۔
سعید :(خوش ہو کر)تو۔۔۔
حامد :جی نہیں۔ تحفہ میں آپ کو نہیں دینا چاہتا۔
سعید :کیوں ؟
حامد :(کرسی لے کر سعید کے پاس بیٹھ جاتا ہے) اس لئے کہ آپ کو اپنی تاریخ پیدائش ہی معلوم نہیں۔۔۔ فرمائیے آپ کب پیدا ہوئے تھے۔
سعید :ایسی چیزیں کون یاد رکھتا ہے۔
حامد :اب آپ کی سالگرہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
سعید :جی ہاں۔ بالکل پیدا نہیں ہوتا۔
حامد :رہی آپ کی شادی تو اس کے متعلق مجھے یقین ہے کہ کبھی ہوہی نہیں سکتی۔
سعید :یعنی اس معاملے میں آپ مجھ سے کہیں زیادہ نا امید ہو چکے ہیں۔
حامد :جی ہاں۔۔۔ اس لئے کہ آپ کبھی یہ فیصلہ نہیں کر سکیں گے کہ آپ کو پچاس برس کی عورت چاہئے جس میں سولہ برس کی الھڑ لڑکی کی خادم کاریاں ہوں یا آپ کو سولہ برس کی لڑکی چاہئے جس میں پچاس برس کی عورت کی پختہ کاریاں موجود ہوں۔۔۔ لیکن میرا نقطہ نظر بالکل جدا ہے۔
سعید :(پلنگ پرسے اٹھ کر آرام کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ جہاں پہلے حامد بیٹھا تھا)جو مجھے اچھی طرح معلوم ہے لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ تحفہ خریدنے کے بعد ہی شادی کے مسئلے پر غور کریں گے۔
حامد :غالباً ایسا ہی ہو گا۔
سعید :تو ظاہر ہے کہ آپ کوئی زنانہ تحفہ خریدیں گے۔
حامد :بالکل ظاہر ہے (پلنگ پر لیٹ جاتا ہے اسی طرح سعید لیٹا ہوا تھا۔) میں نے اگر کوئی مردانہ تحفہ خریدا تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ میں بہت خودغرض اور کمینہ ہوں۔
سعید :کیا شک ہے۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔
حامد :آپ کا مطلب ٹھیک ہے اس لئے کہ تحفہ میری طرف سے میری طرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے کہ میں اپنی سالگرہ منالوں۔ کیونکہ مجھے اپنی تاریخ پیدائش اچھی طرح یاد ہے۔۔۔ میرا مطلب ہے زبانی یاد نہیں لیکن نوٹ بک میں لکھی ہوئی موجود ہے۔
سعید :اس صورت میں بھی آپ کا تحفہ آپ کی طرف سے آپ ہی کی طرف ہو گا۔
حامد :(بستر پر اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے)ارے ہاں۔۔۔ یہ تو ہو گا۔ تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ تحفہ خریدنے کے بعد مجھے کوئی عورت۔۔۔
سعید :(اٹھ کھڑا ہوتا ہے) یا لڑکی کی تلاش کرنا پڑے گی جس کے ساتھ آپ شادی کر سکیں۔
حامد :ہاں ایسی عورت۔۔۔
سعید :یا لڑکی!
حامد :یا لڑکی۔۔۔ مجھے ہر حالت میں تلاش کرنا پڑے گا۔
سعید :ہر حالت میں کیوں ؟
حامد :ہر حالت میں نہیں۔ صرف اس حالت میں جب میں نے تحفہ خرید لیا ہو گا۔
سعید :یہ حالت بہت ہی قابل رحم ہو گی۔
حامد :کچھ بھی ہو۔۔۔ میں تحفہ خریدنے کا فیصلہ کر چکا ہوں۔۔۔ اب یہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ آئیے چلیں۔۔۔
(حامد ٹوپی پہنتا ہے۔۔۔ سعید ذرا آئینے میں اپنے بال درست کرتا ہے۔ حامد میز پرسے اخبار اٹھاتا ہے۔)
حامد :چلئے !
سعید :چلئے !
(دونوں باہر نکل جاتے ہیں۔)
دوسرا منظر
.............. نا مکمل
٭٭٭