صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


میری کہانی

پروفیسر ڈاکٹر محمود علی شاہ

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                           ٹیکسٹ فائل

اقتباس۔ دو سفر

میں نے نوتال سے گنداواہ تک دو سفر پیدل کیے، ایک سردی میں ایک گرمی میں۔  پہلا سفر ۱۶۹۱ئ کے اگست کے مہینے میں کیا۔  میرے بہنوئی قلات میں پٹواری تھے۔  گرمیوں میں ، میں ان کے پاس گیا۔  اگست کے مہینے میں وہاں سے میں واپس ہوا۔  کیونکہ گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد سکول کھل رہے تھے اور جھل مگسی جا کر میں نے سکول میں حاضر ہونا تھا۔  میں نوتال پہنچا جہاں سیگنداواہ جانے کے لیے سوائے پیدل جانے کے کوئی صورت نہیں تھی۔  ایک اونٹ والا نوتال سے سامان لے کر فقیر صاحب کی لانڈی کو جا رہا تھا جو نوتال سے پندرہ میل کے فاصلے پر ہے۔  ہم کوئی ۹ بجے روانہ ہوئے اونٹ پہ سامان لدا ہوا تھا۔  اونٹ کی مہار اس شخص کے ہاتھ میں تھی اور ہم دونوں پیدل تھے میں اُس سے اس کے پاس ایک مشکیزہ بھی تھا۔  مجھے بار بار پیاس لگ رہی تھی اور میں ساربان سے مشکیزہ لے کر پانی پی رہا تھا۔  جب آگے جا کر میں نے اس سے پانی مانگا، تو اس نے کہا کہ میں ابھی آپ کو پانی نہیں دیتا آگے چل کر پی لینا۔  میرے دل میں خیال آیا کہ اس کی نیت خراب ہو گئی ہے اب یہ مجھے پانی نہیں دے گا اور مجھے پیاسا ہی مرنا ہے۔  تھوڑا سا چلنے کے بعد میں نے اس سے پانی مانگا، اس نے مشکیزہ میرے حوالے کیا اور کہا کہ پی لو۔  پانی بہت تھوڑا تھا میں نے پی لیا اور پھر سفر شروع کیا۔  ایک دو کلومیٹر چلنے کے بعد مجھے پھر پیاس لگی میں نے پانی مانگا، تو اس نے مجھے کہا کہ وہ سامنے آپ کو درخت نظر آ رہے ہیں ہمت کرو اور وہاں تک پہنچو کیونکہ مشکیزہ اب خالی ہے گرنا نہیں۔  بہرحال ہمت کر کے وہاں تک ہم پہنچے تھوڑا سا پانی بہت چھوٹے سے تالاب کی صورت میں موجود تھا۔  مٹی کی وجہ سے اس کا رنگ چائے جیسا تھا اور گرم بھی چائے جتنا ہی تھا۔  میں وہاں سے چلو بھر کے پانی پی بھی رہا تھا اور یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اس جوہڑ میں جانوروں نے بھی پانی پیا ہو گا۔  شاید کتے بھی گھسے ہوں ، لیکن مجبوری تھی۔  اس اونٹ کے مالک نے راستے میں شاید ایک دو دفعہ تھوڑا سا پانی پیا۔  کچی ’بھنگ‘ ایک نشہ آور بوٹی اس کے منہ میں تھی جسے وہ چباتا ہوا آ رہا تھا اور اس وجہ سے اسے پیاس نہیں لگ رہی تھی۔  ہم دوپہر کے قریب لانڈھی شریف پہنچے، لانڈی کے فقیر ایک چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے۔  ان سے چالیس پچاس آدمی نیچے چٹائیوں پر بیٹھے تھے۔  میں نے ان کے ساتھ اپنا تعارف کروایا کہ میں تیمور کا چھوٹا بیٹا ہوں۔  وہ میرے ساتھ گلے ملے اور مجھے چارپائی پر سرہانے کی طرف بٹھایا۔  میں شرمندہ بھی ہو رہا تھا اور بات بھی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔  بعد میں شعور آنے پر پتا چلا کہ وہ یہ خیال داری میری وجہ سے نہیں کر رہا تھا بلکہ سید ہونے کے ناتے یہ سب کر رہا تھا کیونکہ اللہ والے اللہ کے رسولﷺ کی خاطر اس کی اولاد کا خیال رکھتے ہیں۔

یہاں سے میں دو میل دور ایک اور گاؤں مروڑ گیا۔  وہاں پر کچھ ایسے گھرانے تھے جو ہمارے رشتے داروں کے مرید تھے۔  میں ایک رات ان کے پاس رہا۔  انہوں نے مجھے کالی جوار کی روٹی گڑ کے ساتھ پیش کی کیونکہ ان غریبوں کے پاس اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔  بہرحال میں نے گنداواہ کا یہ سفر تین دن میں طے کیا۔  تیسرے دن مغرب کے وقت گنداواہ پہنچا اور پھر جھل مگسی چلا گیا۔  میرے پاؤں پھٹ چکے تھے لہٰذا میں تین مہینے تک بوٹ استعمال نہ کر سکا صرف باٹا کے ہوائی چپل پہنا کرتا تھا۔

دوسرا پیدل سفر مجھے ۱۹۶۹ء  میں کرنا پڑا۔  اس وقت میں کراچی یونیورسٹی میں ایم اے سال دوم کا طالب علم تھا۔  یہ رمضان کے آخری دن تھے اور ہم عید منانے کے لیے گنداواہ جا رہے تھے۔  نوتال پر آ کر معلوم ہوا کہ سیلاب آیا ہوا ہے اور راستہ مکمل طور پر بند ہے۔  چونکہ اس وقت کوئی ڈیم نہیں تھے لہٰذا سردیوں اور گرمیوں میں دو ایک مہینوں کے لیے راستے سیلاب کے باعث مکمل بند ہوا کرتے تھے۔  میرے شہر کے کافی دوسرے لوگ بھی آئے ہوئے تھے۔  مجھے اس سفر کی تکلیف کا اندازہ تھا لہٰذا میں واپس جانا چاہتا تھا، لیکن انہوں نے مجبور کیا کہ ہم پیدل چلیں گے۔  لہٰذا مجبوراً ان کا ساتھ دینا پڑا۔  نوتال سے ہم لانڈی شریف آئے اور وہاں سے پھر اسی چھوٹے دیہات مروڑ میں پہنچے جو ہیگن ندی سے دو تین کلومیٹر پہلے ہے۔  سردی بہت سخت تھی۔  ہم سب ایک کمرے میں تھے اور درمیان میں درخت کا ایک تنا جل رہا تھا۔  کھانے کو کچھ نہیں تھا، جوار کی روٹی کے ساتھ ہم امرود کھا رہے تھے۔  رمضان کا مہینہ تھا۔  مسئلہ یہ تھا کہ روزہ کیسے رکھیں تین چار آدمیوں کے سوا سب نے یہ کہا کہ ہم روزہ نہیں رکھیں گے۔  رات کا کوئی نو دس بجے کا ٹائم تھا اور تقریباً ہم سب رضائیوں میں جا چکے تھے کہ ایک صاحب تشریف لائے۔  انہوں نے پوچھا کہ محبوب علی پٹواری کہاں ہے۔  ہم نے انہیں بتایا کہ وہ چارپائی پہ سوئے ہوئے ہیں۔  وہ ان پٹواری کے پرانے واقف کار تھے، خود وہاں کے زمین دار تھے، پٹواری سے حال احوال پوچھا اور ان سے کہا کہ آج آپ کی میرے ہاں دعوت ہے۔  جونہی ہم سب مسافروں نے یہ گفتگو سنی، تو سب اپنی رضائیوں سے باہر نکل آئے کیونکہ یہ ایک غیبی امداد لگتی تھی۔  جہاں جوار کی روٹی امرود کھانا پڑے وہاں مرغی، گندم کی روٹی بہشتی خوراک ہی لگ رہی تھی۔  اس سردی میں دودھ کی چائے ایک خدائی نعمت تھی۔  وہ رئیس صاحب یہ تمام چیزیں گھر سے لے آئے پہلے ہم نے چائے بنا کے پی، اس کے بعد سالن تیار کیا اور یہ سب کرتے ہوئے سحری کا ٹائم ہو گیا، ہم نے روزہ رکھا اور پھر صبح کو آگے کے سفر پر چل پڑے۔

سارے دن کے سفر کے بعد ایک سیلابی ندی کے پاس پہنچے جسے مقامی زبان میں ہینگن کہا جاتا ہے۔  یہ دریائے ناڑی کا علاقائی نام ہے۔  یہ ندی اپنے کناروں سے باہر بہ رہی تھی۔  پانی اتنا ٹھنڈا تھا کہ ٹانگوں پہ جہاں لگتا تھا ایسے معلوم ہوتا تھا کہ کوئی چاقو کے ساتھ جسم چیر رہا ہے۔  اس ندی کو اس حالت میں پار کرنا ناممکن نظر آتا تھا۔  ندی کے اس پار ایک چھوٹا سا دیہات تھا جسے اوڈھانہ کہتے ہیں۔

موت صاف نظر آ رہی تھی۔  لہٰذا میں نے اپنے ہی چچازاد بھائی انور شاہ سے کہا کہ اب راستے دو ہیں ، بہادری کی موت یا بزدلی کی، اور فیصلہ کیا کہ ندی تیر کر پار کریں گے۔  ہم لوگ اچھے تیراک تھے کیونکہ بچپن ہی سے اپنے شہر کی دریائے مولا کی سیلابی ندی میں گرمیوں کے تین مہینے مچھلی کی طرح تیرا کرتے تھے۔  بہرحال ہم نے ندی تیر کر پار کی۔  دوسری طرف ہمارے ہی گاؤں کے ماسٹر عبدالعزیز وہاں تعینات تھے، ان کے پاس گئے کیونکہ ہم کپڑوں سمیت تیرے تھے اور سردی کی وجہ سے کانپ رہے تھے۔  وہ اپنے کپڑے لائے، تو ہم نے کپڑے بدلے اور سکول کے کمرے میں ایک موٹے درخت کا تنا جلایا۔  اس آگ کے باعث کافی گھنٹوں کے بعد ہمارے جسم کی سردی ختم ہوئی۔  ہمارے باقی ساتھیوں کی تعداد تقریباً دس تھی مجھے یقین تھا کہ یہ کل کو ہمیں زندہ نہیں ملیں گے، کیونکہ یہ جنوری کی رات تھی اور ان کے پاس اوڑھنے کو کچھ نہیں تھا۔  چاروں طرف گیلی زمین تھی۔  مجھے یاد ہے کہ میں نے منت مانی کہ کل صبح اگر میں نے انہیں زندہ دیکھا، تو پانچ روپے خیرات کروں گا جو اس وقت کے حساب سے بڑی رقم تھی۔  دوسرے دن یہ زندہ ہی ملے۔  سیلاب کا پانی اُتر چکا تھا۔  ہم نے ندی کے دونوں کناروں پر رسی باندھ کران کے سہارے اور دوسرے تیراکوں کے ذریعے باقی ساتھیوں کو ندی پار کروائی۔  دو دن کا مزید سفر کر کے ہم گنداواہ پہنچے راستے میں کیچڑ اور سردی کے سوا کچھ نہیں تھا۔  یہ میرے دو پیدل یادگاری سفر تھے جو نوتال سے گنداواہ تک پینتالیس میل پر محیط تھے۔

اقتباس)

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                           ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول