صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
میری دعا ہی اور ہے
شہزاد احمد
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
جسے بار بار ملے تھے تم ، وہ میرے سوا کوئی اور تھا
مرے دل کو تاب نظر کہاں ، تمہیں دیکھتا کوئی اور تھا
گل تازہ یہ ترا رنگ و بو ، ہوا سب سے بڑھ کے ترا عدو
کسی اور نے تجھے چن لیا ، تجھے چاہتا کوئی اور تھا
سبھی ربط بے سر و پا ہوئے ، نہ ملے نہ تجھ سے جدا ہوئے
نہ الگ تھا تیرا جہاں کبھی ، نہ مرا خدا کوئی اور تھا
کھلا ہمدموں پہ راز کب کہ میں ایک عمر سے جاں بلب
مجھے روز ملتے تھے لوگ سب مگر آشنا کوئی اور تھا
کبھی روشنی مجھے کی عطا ، کبھی سائے ساتھ لگا دیے
کبھی سب چراغ بجھا دیے ، وہ تمہی تھے یا کوئی اور تھا
٭٭٭
گلے ہزار سہی، حد سے ہم بڑھیں گے نہیں
ہے کوئی بات مگر آپ سے کہیں گے نہیں
ہم اس لڑائی کو شرطِ ادب سمجھتے ہیں
وہ سامنے بھی اگر آگیا، ملیں گے نہیں
جو بات دل میں ہے، خود اپنے کان میں کہہ لے
یہ گفتگو در و دیوار تو سنیں گے نہیں
جہاں میں کوئی بھی شے بے سبب نہیں ہوتی
سبب کوئی بھی ہو، انکار ہم سنیں گے نہیں
عجب نہیں کہ اسی بات پر لڑائی ہو
معاہدہ یہ ہوا ہے کہ اب لڑیں گے نہیں
کسی بھی خوف سے کیوں چھوڑ دیں تری قربت
کہیں بھی جائیں، اس الزام سے بچیں گے نہیں
جو ہم نے دیکھا ہے لفظوں میں کیسے آئے گا
و نقش دل میں ہیں، وہ ریت پر بنیں گے نہیں
ہوا کے ساتھ لپکتی ہے تیرگی شہزاد
چراغ ہوں بھی تو اس رات میں جلیں گے نہیں
٭٭٭