صفحہ اول
کتاب کا نمونہ پڑھیں
میری آنکھوں سے دیکھو
فیصل عظیم
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
خاموشی
میں تو چپ تھا
لیکن میری آوازوں پر پہرہ تھا
میں تو چپ تھا
لیکن میری فکر کا سایہ گہرا تھا
میں تو چپ تھا
لیکن میرے دل کی دھڑکن ڈولی تھی
میں تو چپ تھا
لیکن خاموشی خود مجھ میں بولی تھی
میں تو چپ تھا
لیکن یہ سنّاٹے چیخا کرتے تھے
میں تو چپ تھا
لیکن سب اس خاموشی سے ڈرتے تھے
میں تو چپ تھا
لیکن درد صدا دیتا تھا سینے میں
میں تو چپ تھا
لیکن کوئی بولتا تھا آئینے میں
میں تو چپ تھا
لیکن میرے اندر حشر سا برپا تھا
میں تو چپ تھا
لیکن میں اس خاموشی سے ڈرتا تھا
میں تو چپ تھا
لیکن اک تہذیب کے ہاتھوں مرتا تھا
میں تو چپ تھا
لیکن میں اس چپ سے باتیں کرتا تھا
میں تو چپ ہوں
لیکن اب چپ رہنے میں دشواری ہے
میں تو چپ ہوں
لیکن اب ان آوازوں کی باری ہے
***
غزل
گریں گی جتنی دیواریں اٹھا لو
چلو اب یوں بھی ہم کو آزما لو
ہماری خودسری ہے روزِ روشن
تم اپنے چاند تاروں کو سنبھالو
تماشہ ہوں، تماشائی نہیں ہوں
مجھے آئینہ خانے سے نکالو
چھلک جائے نہ پیمانہ کسی دم
صراحی چھوڑ دو، مجھ کو سنبھالو
مری آنکھوں میں خوابوں کا نشہ ہے
یہ سرخی تم بھی آنکھوں میں سجالو
مرے جوہر امانت ہیں تمہاری
میں پتھر ہوں مجھے شیشہ بنا لو
غضب کا اب کے احساسِ زیاں ہے
حصارِ ذات سے مجھ کو نکالو
یہ کس کے نقشِ پا لو دے رہے ہیں
یہ شمعیں اپنی راہوں میں جلالو
میں کیوں اپنے ہی لفظوں میں گھرا ہوں
مجھے آفاق کے مصرعوں میں ڈھالو!
***