صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


مرے خواب ریزہ ریزہ
مضامین

محمد خلیل الرحمٰن

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

شہر آشوب

کلاچی کی ایک مسکراتی شام کا ذکر ہے، روما شبانہ نائٹ کلب کے چمکتے ہوئے فرش پر تھرکتی ہوئی جوانیاں، بانہوں میں بانہیں ڈالے، فانی انسان اور غیر فانی دیوتا، آج یوں شیر و شکر ہو چلے تھے، کہ فانی اور غیر فانی، انسان اور دیوتا، آقا اور غلام کا فرق گویا مٹ سا گیا تھا۔ بار بار ڈانس کے پارٹنرز بدلے جا رہے تھے۔ خوشی اور مسرت کا ایک طوفان آیا ہوا تھا، سبھی مست تھے، ہنس رہے تھے، رقص میں محو تھے۔ رات بھی بھیگ چلی تھی لیکن رقص و مسرت کے اس طوفان میں وقت گویا تھم گیا تھا۔ نو بیاہتا جوڑے کی خوشی تو اور بھی دوچند تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں گم، ڈانس فلور پر جھومے جا رہے تھے۔ ۔ ہر بار جونہی آرکسٹرا ایک نئی تان چھیڑتا، یہ دونوں بھی ایک انگڑائی لے کر اٹھ کھڑے ہوتے، ہر لے پر تھرکتے، ہر تان پر جھومتے، ہر سر انھیں اپنے دل کی دھڑکنوں میں شامل محسوس ہوتا۔ آج کی رات ان سے منسوب تھی۔ آج صبحِ کاذب تک یا پھر صبحِ صادق کی پہلی جھلک تک وہ یونہی ایک دوسرے کی بانہوں میں تھرکتے ہوئے گزارنا چاہتے تھے۔


یکایک ڈانس فلور پر نور کا ایک جھماکا سا ہوا۔ محوِ رقص جوڑے چونک کر ادھر ادھر سمٹ گئے اور انھوں نے صبحِ صادق کی طرح نمودار ہونے والی اس دیوی کو گھیرے میں لے لیا۔ رقص تھم گیا، موسیقی رک گئی۔ قرب و جوار میں سناٹا چھا گیا۔ دیوی نے ایک بار اپنے ہاتھ فضا میں بلند کیے، روشنی کا ایک اور جھماکا ہوا، ایک کڑک سنائی دی اور دیوی کے ہاتھوں میں ایک سنہری سیب نمودار ہوا۔ دیوی کے مرمریں ہونٹ کھلے اور اس نے اپنی غیر مرئی آواز میں کہا۔


’’ اس محفل کی سب سے حسین خاتون کے لیے ‘‘۔


اور سیب کو ہوا میں اچھالتے ہوئے وہ غائب ہو گئی۔


ایک طوفانِ بد تمیزی بپا ہو گیا۔ خواتین ایک دوسری کو نوچ رہی تھیں، کھسوٹ رہی تھیں۔ ایک دوسری کے بال کھینچے جا رہے تھے، کپڑے پھاڑے جا رہے تھے۔ ہر دیوی چاہتی تھی کہ سیب اس کی گرفت میں آ جائے۔


صدرِ محفل سے رہا نہ گیا، اس نے آخر کار اپنی گرج دار آواز میں کہا۔ ’’ بیبیو! کیوں لڑتی ہو؟ اس تنازعہ کے حل کے لیے کسی کو حکم کیوں نہیں مقرر کر لیتیں۔ اچھا! میں تمہاری یہ مشکل آسان کیے دیتا ہوں۔ جاؤ! بار میں دولت شاہ بیٹھا پینے میں مشغول ہے، میں اسے ثالث مقرر کیے دیتا ہوں۔ وہ جسے چاہے یہ سیب دے دے۔ ‘‘


کپڑے درست ہوئے۔ میک اپ سنوارا گیا۔ بال پھر سے بنائے گئے اور دیویاں بار کی طرف دوڑی گئیں۔ دولت شاہ نے مخمور آنکھوں سے حسن کے ان جلووں کو دیکھا تو اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور یہ شرط عائد کر دی کہ جنھیں اپنے حسن پہ ناز ہے، اور اپنی خوبصورتی کا غرور ہے، وہ کیٹ واک پر چلتی ہوئی میرے سامنے سے گزریں، مجھے اپنا حالِ دل سنائیں۔ کچھ اپنی کہیں کچھ میری سنیں۔ ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا۔ چارو ناچار وہ مان گئیں۔ پھر کیٹ واک پر اپنی ہرنی جیسی چال اور اپنی کافر اداؤں کا مظاہرہ کیا اور آخر میں گفت و شنید، باری باری دولت شاہ کے حضور میں حاضری۔ جب حسن کی دیوی کی باری آئی، اس نے اپنی کھنکھناتی ہوئی آواز میں دولت شاہ کے کان میں سرگوشی کی۔ ’’ میں تمہیں اس سیب کے بدلے میں ملکہ اقتدار اور سرے محل دیتی ہوں۔ زر و جواہر، اطلس و کمخواب کے انبار، ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں، اربوں، کھربوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘


دولت شاہ نے اپنا مدعا پا لیا۔ سیب حسن کی دیوی کے حوالے کیا اور ’’ میں نے پا لیا۔ میں نے پا لیا‘‘ کہتا ہوا بھاگ کھڑا ہوا۔


حسن کی دیوی نے ایک ادائے دلبرانہ کے ساتھ ساتھیوں کی طرف دیکھا اور سنہری سیب اچھالنے لگی۔ عقل و دانش کی دیوی نے جو آہنی فوجی لباس میں ملبوس تھی، اور ملکہ دیوی نے قہر آلود نگاہوں سے بھاگتے ہوئے دولت شاہ کو گھورا اور پیر پٹختی ہوئی ایک طرف کو نکل لیں۔ حسن کی دیوی کے چہرے پر ایک فتح مندانہ مسکراہٹ کھیلنے لگی۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول