صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
میرے اندر ایک سمندر
ڈاکٹر ستیہ پال آنند
ترتیب : اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
آخری کوس/ آزمائش شرط تھی
آخری کوس مجھے آج ہی طے کرنا ہے
اور اس لمبے سفر کا یہ کڑا کوس مجھے
اس قدر لمبا بڑھانا ہے کہ اب سے پہلے
جو بھی کچھ گذرا ہے ماضی میں ، اسے پھر ا ک بار
’’حاضر‘‘ و ’’ناظر‘‘ و ’’موجود‘‘ سا میں جھیل سکوں
عرصۂ غائب و معدوم سے اس لمحے تک!
وادیاں ، جھرنے، چراگاہیں ، مویشی، پنچھی
کھیت، کھلیان، چھپر کھٹ، مرے گھر کا دالان
گاؤں کی گلیاں ، مکاں ، لوگ، دکانیں ،بازار
اور پھر شہر کی سڑکیں ، بسوں ،کاروں کا شور
عمر بڑھتی ہوئی بچپن سے لڑکپن کی طرف
اور لڑکپن کی وہ نا پختہ بلوغت جس میں
مجھ کو احساس ہوا تھا کہ کوئی اور بھی ہے
زندگی ساری جسے ساتھ مرے چلنا ہے!
کیسا شوریدہ سر طوفان تھا، طغیانی تھی
جس نے اک باؤلے انسان کو بے رحمی سے
دور انجانے سے پردیس میں لا پٹخا تھا
اور پھر پا بہ رکاب آگے ہی آگے کی طرف
سر پہ سامان اٹھائے ہوئے بنجاروں سا
ڈنڈی، پگڈنڈی، سڑک ،نقل و حمل ،حرکت و کوچ
کیسی آیند و رود تھی یہ مہم جُو ہجرت
جس میں سیماب قدم چلتا رہا ہوں برسوں
ایک کوس اور مجھے آج کی شب چلنا ہے
اور اس رات فقط اپنی ہی صحبت میں اگر
جو بھی میں بھوگ چکا ہوں اسے صہبا کی طرح
آخری کوس کے اس جام میں بھر کر آنندؔ
ایک لمحہ بھی توقف نہ کروں ، ہاتھ میں لوں
اور اک گھونٹ میں پی جاؤں تو میرا یہ سفر
سرخروئی سے مکمل ہو، مجھے سیر کرے !
آخری کوس مجھے آج ہی طے کرنا ہے!!
٭٭٭
آزمائش شرط تھی
زندہ رہنا سیکھ کر بھی میں نے شاید
زندگی کو دُردِ تہہ تک
پی کے جینے کی کبھی کوشش نہیں کی!
پیاس تھی ۔۔پانی نہیں تھا
صبر سے شکر و رضا کے بند حجروں میں بندھا
بیٹھا رہا ۔۔۔اور حلق میں جب پیاس کے کانٹے چبھے، تو
سہہ گیا میں !
میرے گھر والوں نے، میرے بیوی بچوں نے بھی
جلتے ہونٹ سی کر ،پیاس کے کانٹوں کو سہنے
صبر سے شکر و رضا کے بند حجروں میں
تڑپنے کا سبق سیکھا مجھی سے!
یہ سراسر بزدلی تھی ، اُن سے دھوکا تھا
کہ میں نے خود کو پہچانا نہیں تھا!
میں بھی موسیٰ کی طرح
غصّے میں اپنی آستینوں کو چڑھاتا
اور عصا کی ایک کاری چوٹ سے
چٹّان کے ٹکڑے اگر کرتا
تو شاید بازیابی کے عمل میں مجھ پہ کھلتا
رہبری کا فن ۔۔۔نبوّت کا کرشمہ
پیاس سے ہلکان لوگوں کے لیے پانی کا چشمہ!
آزمائش شرط تھی
میں نے کبھی پوری نہیں کی
٭٭٭