صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


اللہ میاں کے مہمان

اعجاز عبید

حج ۱۹۹۷ء کا سفر نامہ

ڈاؤن لوڈ کریں 

     ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

اقتباسات


ہم پائے کے ادیب ہیں

بنگلور ۔ 27 مارچ 97ء ۔

40 ۔ 1 بجے دو پہر

بہت سے قارئین کرام نے شاید ہمارا نام بھی پڑھا یا سنا نہ ہوگا اور اگر یہ کتاب بھی شائع نہ ہوئی تو آئندہ بھی نہ سنیں گے۔ مگر یقین مانئے کہ ہم پائے کے ادیب ہیں۔ ’پائے کے ادیب ‘ کا ارتقاء، ہمارا مطلب ہے اس محاورے کا ارتقاء کس طرح ہوا، ہمارا ناقص علم اس سلسلے میں معذور ہے۔ واللہ اعلم یہاں ’پائے‘ سے کیا مراد ہے ؟ ویسے پائے بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ عالمِ حیوانات کے دو پایوں اور چار پایوں کے علاوہ، جن میں ہمارا بھی شمار ہونا چاہئے (مطلب اوّل الذکر میں)۔ بقول مشتاق یوسفی، ایسے بھی پائے ہوتے ہیں جن کو چوڑی دار پاجامہ پہنانے کو جی چاہے۔ ہمارا، بلکہ مشتاق یوسفی کا اشارہ چارپائی کے پایوں کی طرف ہے اور ان ہی کے بقول وہ پائے بھی ہوتے ہیں جن کو انھوں نے سریش سے تشبیہ دی ہے اور جسے ان کے یار غار اور ہمزاد مرزاعبدالودود بیگ دہلں کی تہذیب کی نشانی گردانتے ہوئے نوشِ جان کرتے ہیں۔ یہ نہاری پائے تو ہم کو بھی عزیز ہیں بشرطیکہ اس میں کام و دہن کی آزمائش نہ ہو۔ بہرحال اب ہم نے جب یہ فقرہ لکھ ہی دیا ہے تو امید ہے کہ آپ بھی اس کے معنی وہی سمجھیں گے جو ہم نے مراد لئے ہیں۔ اور اگر نہ سمجھیں تو ہماریے لئے وہی مثال ہو گی کہ نہ پائے ماندن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

معاف کیجئے، جملہ معترضہ کچھ ’پیرا معترضہ ‘ ہو گیا۔ خدا نہ کرے کہ یہ کتاب ہی معترضہ ہو جائے۔

ہمارا مطلب دراصل یہ ہے کہ نظم و نثر میں خامہ فرسائی کرتے ہوئے اس حقیر فقیر بندہ پر تقصیر کو کم و بیش 30 سال گزر چکے ہیں۔ جو لکھا اس میں مشتے از چھپا بھی ہے چنیدہ چنیدہ رسائل (یعنی جن رسائل نے ہم کو چنا) میں۔ احباب کو بہر حال علم ہے کہ ہماری تخلیقات چھپیں یا نہ چھپیں، ہمارے ادبی قدوقامت میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ بطور شاعر ہم ضرور زیادہ جانے پہچانے گئے ہیں مگر نثر .....اللہ اکبر۔ افسانہ ناول کے علاوہ ہم چاہے تنقید لکھیں، خاکے لکھیں (یا اڑائیں) ، تاریخ یا سائنس کے موضوع پر قلم اٹھائیں، ہماری حسِ مزاح بری طرح پھڑک جاتی ہے۔ بلکہ در اصل یہ رگِ جان سے قریب ہی کوئی رگ واقع ہوئی ہے جو دھڑکن کے ساتھ دھڑکتی ہے۔

چار پانچ دن پہلے ہی یہ خیال آ یا کہ سفر بیت اللہ کے تاثرات پر مبنی کچھ لکھا جائے۔ رپورتاژ، سفر نامہ، ڈائری۔ جو بھی کہہ لیجیے ۔ جب حرمین میں داخل ہوں گے اس وقت کے تاثرات ممکن ہے کہ سنجیدہ ہوں، لیکن عام حالات میں (ابھی تو احرام سے بھی باہر ہیں۔ ویسے مزاح تو احرام کی حالت میں بھی حرام تو نہیں ہو گا) سنجیدگی کا دامن ـــ..... مگر یہ سنجیدگی کون ہے......؟

کیا ہم سنجیدہ ہو سکیں گے؟

جب قلم ہاتھ میں آتا ہے تو جیسا موڈ ہوگا، وہی زبانِ قلم سے ادا ہونا چاہئے۔ یہی سچّے ادیب کی پہچان ہے (کیا ہم یہ دعویٰ بھی کرنے لگے؟)۔ ہم عام حالات میں بھی طنزومزاح کے شکار اسی طرح رہتے ہیں جیسا کھانسی اور دمے کے۔ کیسی بھی پریشانی اور تکلیف ہو ، اس کی شدّت کا اثر زائل ہوکر جیسے ہی نارمل ہوتے ہیں، سنجیدگی دامن چھڑا کربھاگ جاتی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ اس ماڈرن لڑکی کا نام ہے جس کے پیچھے پیچھے یا ساتھ ساتھ بھاگتے بھاگتے ہم اس کا دامن پکڑنے (اور اگر ہاتھ آجائے تو تھامے رہنے ) کی کوشش کرتے ہیں کہ بس اسٹاپ آجاتا ہے اور متعلقہ نمبر کی بس آ کر رکتے ہی چل دیتی ہے اور ہم انگریزی محاورے کے مطابق بَس بھی مِس کر دیتے ہیں اور اس ِمس پر بھی بسَ نہیں چلتا۔

جب ہم حج کے اجتماع کا حصہ بن جائیں گے تو اْس وقت کے تاثرات میں شاید مزاح دامن چھڑا کر بھاگ جائے (ویسے اس کی امید کم ہی ہے)۔ اپنی طرف سے یہ کوشش تو کر ہی سکتے ہیں کہ جو کچھ اس سفر میں لکھتے جا رہے ہیں، بعد میں فرصت نکال کر کانٹ چھانٹ کریں۔ معلومات والے حصّے حج گائڈ پڑھنے والوں کے لیے علیٰحدہ ، بصیرت افروز (اور بصیرت انگیز) حصّوں کا الگ انتخاب کریں اور رطب و یابس کو الگ چھان پھٹک کر نکال دیں (کنول مگر کیچڑ میں ہی کھلتا ہے)۔ لیکن اگر کوشش نہ کی جا سکے تو بھی قارئین خود سمجھ دار ہیں، یہ خدمت انجام دے سکتے ہیں کہ جس موقعے پر جو چاہیں پڑھیں۔ یہ بات تو بہر حال طے ہو گئی کہ ہم پائے کے ادیب ہیں، جو بھی لکھیں گے، اس کے معیاری ہونے میں چہ شک!!

ہم ہندوستان میں رہتے رہتے حاجی ہو گئے

تقریباً دو ماہ سے ہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے پیارے اردو اخبار والے ـ’زائرینِ حج‘ اور ’عازمینِ حج‘(جو بلا شک و شبہ ہم ہیں) کے علاوہ ہم جیسے مسافروں کو ’حجاجِ کرام‘ بلکہ بنگلور کے حج کیمپ میں ہی جا بجا لگے پوسٹروں پر ’حاجیاں‘ کے نام سے یاد کئے جانے لگے ہیں جو کہ ہمارا مستقبل ہے دراصل، بلکہ انشاء اللہ۔ مگر حج سے پہلے ہم کو حاجی بنا دیا گیا ہے۔ یہ کچھ غوروفکر کا مقام ہے۔ یہی حال یہاں نظر آنے والی کاروں کا ہے جس پر اردو میں ’حجاجِ کرام‘ لکھا ہے (انگریزی میں Haj Pilgrimsاور ہندی میں محض ’حج یاتری‘)۔ خدا ان کی نیک دعائیں ہمارے حق میں قبول کرے اور ہم واقعی ‘حجاجِ کرام‘ بن کر لوٹیں۔ مگر یہ سوال اپنی جگہ باقیست کہ کیا عازمینِ حج کو حجاجِ کرام کہا جا سکتا ہے؟

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

     ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول