صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


میر عربﷺکو آئی ٹھنڈی ہو ا جہاں سے

فضہ پروین

ؔ

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

                       اقتباس

C تہذیبی سطح پر یہ اتصال مقامی باشندوں کے لیے ایک حوصلے اور امید کی کرن  اور روشن مستقبل کا نقیب ثابت ہوا۔ بادی النظر میں یہ تبدیلی وقتی نوعیت کی تھی لیکن اس کے جو دوررس اثرات مرتب ہوئے اس نے حالات کا رخ بدل دیا۔ سندھ سے شروع ہونے والے روشنی کے اس سفر نے ملتان اور شورکوٹ تک کے علاقے کو منور کر دیا۔ مقامی تہذیب و ثقافت پر اسلامی تہذیب کو غلبہ حاصل ہو گیا اس کے بعد دو تہذیبوں کے امتزاج سے  ایک بالکل نئی تہذیب و ثقافت کی نمود یقینی ہو گئی۔ تہذیبی ارتقا کا یہ سلسلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ سر حد، پنجاب اور میرٹھ و نواح دہلی تک پہنچ گیا۔ (4)بر عظیم میں اسلامی تہذیب و ثقافت کو بے حد پذیرائی ملی۔ 771ء میں کثیر تعداد میں سندھی علما نے بغداد کے کتب خانوں سے استفادہ کیا۔ تراجم کے ذریعے دو تہذیبوں کو قریب تر لانے کا سلسلہ جاری رہا۔ مشہور عرب ریاضی دان ابراہیم فرازی نے’’سدھانت ‘‘ کا  ’’السند ہند ‘‘ کے نام سے عربی میں ترجمہ کیا۔ عرب ماہرین لسانیات نے بر عظیم کے علوم پر خصوصی توجہ دی اور علم ہیئت کی دو اہم کتب ’’کھنڈ کھا دیک ‘‘ اور ’’آریہ بھٹییا‘‘ کا عربی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ عربی کی وہ کتب جن کا سنسکرت سے ترجمہ کیا گیا ان میں سنستان، ندان، سسرو اور آیورویدک قرابادین قابل ذکر ہیں۔ کہانیوں پر مشتمل کتاب’’ کلیلہ و دمنہ ‘‘ کا بھی عربی میں ترجمہ کیا گیا۔ قرآن حکیم کا مقامی دیسی زبان میں 883ء میں ترجمہ کیا گیا۔ (5) بر عظیم میں مسلمان صوفیا اور سلاطین نے اسلامی تہذیب و ثقافت کے فروغ کے لیے جو خدمات انجام دیں وہ تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو چکی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے 712ء تا 1398ء کے عرصے میں بر عظیم میں بتدریج  تہذیبی اور ثقافتی سطح پر ایک ہمہ جہت انقلاب کی راہ ہموار ہوتی چلی گئی۔ مسلم معاشرے کی تشکیل کا عمل در اصل تاریخ کے ایک پیہم اور غیر مختتم عمل  کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ بدھ مذہب نے سب سے پہلے اسلام کے آفاقی پیغام پر لبیک کہا۔ بدھ مذہب کے پیروکار برامکہ جو بنو عباس کے عہد میں بہت بڑی قوت رکھتے تھے مسلمان ہو چکے تھے۔ سندھ کے علاقے سے کئی نامور اہل علم و دانش نے اپنی  علمی فضیلت کا لوہا منوایا ان میں ابو معشر نجیع کو بہت عزت و مقبولیت نصیب ہوئی۔ انھوں نے حضور ختم المرسیلن ﷺ کی سیرت لکھ کر اسلام اور  حضور  ختم المرسلین ﷺ کے ساتھ اپنی والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کا ثبوت دیا۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک ممتاز شاعر ابو العطا کی ملی شاعری کو بہت پذیرائی ملی۔ عربوں کی آمد کے بعد ملتان میں  اخلاقیات، مذہب، فنون لطیفہ، علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کے فروغ پر بھر پور توجہ دی گئی۔ ملتان میں شمس سبز واری  نے  علم و ادب کی شمع فروزاں کی۔ ملتان میں جب معز الدین محمد بن سام غوری کے ایک غلام ناصر الدین قباچہ (عہد حکومت 1203 تا1228)کی حکومت تھی تو اس عرصے میں ملتان کو ایک اہم علمی م کز کی حیثیت حاصل تھی۔ اسی عہد میں شیخ بہا الدین زکریا، شیخ صدر الدین اور شیخ رکن الدین  نے اس علاقے میں اپنی تبلیغی مساعی سے اس علاقے میں ایمان و ایقان کی جو روشنی پھیلائی، اس کے اعجاز سے یہاں اسلامی تعلیمات کو فروغ ملا۔ حضرت جلال بخاری (متوفی :1291ء)نے ملتان اور سندھ کے وسیع علاقوں میں اپنی تبلیغی مساعی کا سلسلہ جاری رکھا۔ عربوں کی بر عظیم میں آمد کے ساتھ ہی اس خطے میں فکر و نظر کی نئی دنیا وجود میں آ گئی۔ شیخ شہاب الدین نے بھکر سے اپنے ایک فطین  اور عقیدت مند شاگرد شیخ نوح کو اندرون سندھ روانہ کیا۔ اس علاقے میں ان کی تبلیغی مساعی ثمر بار ہوئیں اور اسلام کا پیغام دور دراز علاقوں تک پہنچ گیا۔ سیہون میں مخدوم لال شہباز قلندر، اچھ میں سید جلال الدین بخاری، لاہور میں شیخ عثمان بن علی ہجویری (داتا گنج بخش )اور سید احمد (سلطان سخی سرور لکھ داتا )نے اس خطے میں توحید و رسالت کا پیغام گھر گھر پہنچا کر عقیدت مندوں کے دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے اور حریم کبریا سے آشنا کرنے کی مقدور بھر سعی کی۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول