صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


میرا جی
دیدہ ور نقادوں کی نظر میں 

ڈاکٹر محمد یحیٰ صبا

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

اقتباس

روز ازل سے تغیر و تبدل قدرت کا خاصہ ہے اور ابد تک رہے گا۔ اس عمل کی تکمیل میں ہم انسانوں کا کلیدی رول کارفرما رہا ہے۔اس کی وجہ ہے کہ انسانی وجود جس اربع عناصر کی خمیر سے وجود میں آیا ہے۔ان چاروں چیزوں کی خاصیت مسلسل رواں دواں ہے۔جس کے نتیجہ میں تغیر و تبدل کا یہ قدرتی نظام جاری و ساری رہتا ہے۔ہر عہد کی اپنی قدریں اور تقاضے ہوتے ہیں۔ جو بتدریج بدلتے ہوئے عہد کے ساتھ تبدیل بھی ہوتے رہتے ہیں۔ قدروں اور تقاضوں کی یہ تغیر پذیری ایک طرف رجحانات و میلانات کی تبدیلی کا سبب بنتی ہے تو دوسری طرف سیاسی و سماجی حالات اور فکری تخلیقی عمل کا تعین بھی کرتی ہے۔لہٰذا تغیر و تبدل کا فرق تو نہ صرف موضوعاتی سطح پر نمایاں ہوتا ہے بلکہ اس کی جھلک ہیئتی سانچوں میں بھی دکھائی دیتی ہے۔اس ضمن میں اردو شعر و ادب بہت ہی متحرک اور فعال رہا ہے۔یونان کے کلاسیکی تحریک سے لے کر اب تک وجود میں آنے والے تحریکات اس کا زندہ مثال ہے۔جس کے ذریعہ دنیا کے بیشتر ممالک اور سماجی تعمیر اور امن و امان کو اپنا نصب العین بنا یا۔

ہمارے ملک ہندوستان میں آزادی کی تحریک ہندوستانی عوام کو امن و امان عطا کرنے کی غرض سے شروع ہوئی جس کا آغاز تو خوشنما تھا مگر انجام اچھا نہیں ہوا۔نتیجہ ہمارے سامنے بر صغیر ہند و پاک کی شکل میں ہے۔تقسیم کو آج 65سال ہو چکے ہیں۔ اس کا مفید و مضر ہمارے سامنے ہے کہ تقسیم ہند کے تہذیبی و معاشرتی مسائل کی پیچیدگیاں بدلتے  ہوئے سیاسی حالات کے پیش نظر نہ صرف قومی ہم آہنگی اور اتحاد باہمی کے لیے وقتاً فوقتاً خطرہ بن جا تے ہیں بلکہ سیاسی معاشی و سماجی قدروں کی شکست و ریخت کا موجب بھی بنتے رہتے ہیں۔ ہمارے شعرا و ادبا خواہ دنیا کے کسی بھی خطے عرض پر بستے ہوں وہ اس طرح کے نفرت و نفاق اور پیچیدگیوں سے مبرا زندگی گزارتے ہیں اور اپنے تخلیقات عوام الناس کی مسائل کو پیش کر تے رہتے ہیں۔ دنیا کے تمام شعرا و ادبا نے بین الاقوامی سطح پر ذات، مذہب، ملت اور جغرافیائی حدود سے مبرا ہو کر اپنے تفکرات کو قلم بند کر تے ہیں۔ ہمارے 20ویں صدی کے افق پر ابھر تے ہوے نہایت ہی روشن خیال شاعر میراجیؔ اسی قبیل کے اہم شخصیات میں سے ایک ہیں۔ جس کی کوئی نظیر نہیں ہے۔زیر نظر مضمون میں شامل اقتباسات ویسے تو عموماً میرے تحقیق و تفحص اور عمیق مطالعہ و مشاہدہ کا نتیجہ ہے۔ خصوصاً ’’میرا جیؔ شخصیت اور فن مرتبہ کمار پاشی زیر اہتمام پریم گوپال متل‘‘ سے نقول کر دہ ہیں۔ میرے اس مضمون کے مطالعہ سے میراجیؔ کی شخصیت اور فن کس قدر اجاگر ہوا ہے اس کا فیصلہ قاری کرے گا مگر میرے  اندازے کے مطابق میں نے بین الاقوامی سطح پر میراجیؔ کی شخصیت فن اور تفکرات کو اعلیٰ سطحی پر بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے اور اردو ادب کے بڑے ادبا شعرا اور شخصیات کے اقوال کی روشنی میں جس کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے ثابت کیا ہے کہ میرا جیؔ کس قدر حد درجہ بلند مرتبہ کی شخصیت کے مالک تھے۔موصوف کی زندگی اور ادبی کارناموں کے حوالے سے قومی مجلس برائے تعلیمی تحقیق، نئی دہلی سے شائع شدہ مضمون میں بنیادی معلومات کچھ یوں فراہم کیا گیا ہے۔

٭


 کہ میراجی  کا اصلی نام ثناء اللہ ڈار تھا۔وہ ایک کشمیری خاندان میں گوجر انوالہ(اب پاکستان)میں پیدا ہوئے۔ان کا زیادہ وقت لاہور، دلّی اور ممبئی میں گزرا۔ممبئی میں ہی ان کا انتقال ہوا۔وہ انتہائی ذہین انسان تھے۔مطالعہ کا شوق بے حد تھا اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے مختلف زبانوں کی شاعری کے تراجم کئے اور ان پر تحقیقی و تنقیدی مضامین لکھے۔جدید تنقید میں میراجی کا نام بہت بلند ہے۔ انہوں نے بہت سے قدیم و جدید ہندوستانی اور پوری شعرا پر  تنقیدی مقالات لکھے۔ان کی شاعری کا ایک بڑا حصہ مبنی خیالات و تجربات پر مشتمل ہے۔

وہ لاہور کی ایک مشہور ادبی انجمن’’ حلقہ ارباب ذوق‘‘ کے بانیوں میں تھے جس نے بہت سے ذہنوں کو متاثر کیا اور شاعری میں جدید رجحانات کو فروغ دیا۔ انہوں نے اختر الایمان کے ساتھ مل کر رسالہ خیال نکالا۔

میراجی کی’’ نظموں ‘‘ کے کئی مجموعے مثلاً، میرا جی کی نظمیں، اور گیتوں کا مجموعہ ’’گیت ہی گیت‘‘ ان کی زندگی میں شائع ہوئے۔ایک مجموعہ، پابند نظمیں ‘اور انتخاب ’تین رنگ‘ بعد میں شائع ہوئے بہت بعد میں پاکستان سے ’’کلیات میرا جی‘‘(مرتبہ جمیل جالبی)اور باقیات میرا جی، (مرثیہ شیما مجید)شائع ہوئے۔ نثر  میں دو کتابیں ’مشرق و مغرب کے نغمے‘ اور’ اس نظم میں‘ شائع ہوئیں۔

جامع اردو انسائیکلو پیڈیا میں میراجی کے سلسلے میں اہم معلومات موجود ہے۔

میراجی کا نام ثناء اللہ ڈار تھا۔ان کے والد منشی مہتاب الدین ریلوے انجینئر تھے۔ملازمت کی وجہ سے مختلف جگہوں پر قیام رہا۔میراجی کی تعلیم بھی مختلف مقامات پر ہوئی اور ادھوری رہی۔شعر گوئی کا شوق بچپن سے تھا۔پہلے سامری تخلص کرتے تھے۔ لاہور کے قیام کے دوران ان کی زندگی ایک انقلاب سے دوچار ہوئی۔میرا سین نامی ایک لڑکی سے عشق نے انہیں میراجی بنا دیا۔وہ مولانا صلاح الدین کے رسالہ ادبی دنیا سے وابستہ ہو گئے۔وہاں سے دہلی آئے تو آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت اختیار کر لی۔یہاں چند سال کے ممبئی واپس چلے گئے۔ممبئی کے ایک اسپتال میں انتقال کیا۔

میراجی کی زندگی نفسیاتی الجھنوں کا شکار رہی۔وہ سماج کی مروجہ اقدار سے منحرف تھے۔میراجی اردو شاعری میں ایک تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے شاعری میں ایک نئی روایت قائم کی۔ان کا سارا زور انسان کی باطنی شخصیت اور انفرادی تجربوں پر تھا۔تحلیل نفسی سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ہندی فلسفے، اساطیر اور موسیقی سے بھی متاثر تھے۔دنیا بھر کی عشقیہ شاعری کا بغور مطالعہ کیا۔ خاص طور پر فرانس کے انحطاطی شعرا کا انہوں نے تفصیلی مطالعہ کیا تھا۔میراجی کی اہمیت ایک خاص طرز احساس کے علاوہ ہیئت کے تجربوں کی وجہ سے بھی ہے۔وہ طبعاً ایک باغی شاعر تھے۔ میراجی کی شاعری کا ایک پہلو وہ بھی ہے جسے اشاریت اور ابہام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔نظموں اور غزلوں کے علاوہ میراجی کے گیت اور ان کی تنقیدی تحریریں بھی اہم ہیں۔ نثری مضامین کے مجموعے اس نظم میں اور مشرق و مغرب کے نغمے، کے نام سے شائع ہوئے۔

(جامع اردو انسائیکلو پیڈیا حصہ اول ادبیات، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، صفحہ533)

 ۔۔۔ اقتباس

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

  

 ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول