صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
میر تقی میرؔ کی جمالیات
شکیل الرّحمٰن
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
میر تقی میرؔ ’شرِنگار رَس‘ کے ایک ممتاز شاعر ہیں!
ہندوستانی جمالیات میں ’شرِنگار رَس‘ تمام رسوں کا سرچشمہ تصوّر کیا گیا ہے، یہ رس محبت اور غم کے جذبوں سے پیدا ہوتا ہے اور فن میں ان جذبوں کا جمالیاتی تجربہ بن جاتا ہے۔
’عشق‘ ہی محبت کے جذبے کا جمالیاتی تجربہ ہے، عشق ہی ’شرِنگار رَس‘ کا مرکز ہے، اسی کے تحرّک سے یہ رَس اُبلتا ہے، اپنی شیرینی اور مٹھاس عطا کرتا ہے، غمناکی لیے ہوئے یہ رَس قاری کے جذبے کو صرف متاثر ہی نہیں کرتا بلکہ قاری کے باطن میں ’کتھارسس‘ کی کیفیت بھی پیدا کر دیتا ہے، شعور، احساس، تخیل سب متاثر ہوتے ہیں۔
’شرِنگار رَس‘ کی اصطلاح کے متعلق ایک خیال یہ ہے کہ اس کا تعلق ’شِر‘ (Sr) سے ہے جس کے لغوی معنی ہیں ’مارنا‘، ’ماردینا‘۔ Sr himsayamمفہوم ہے ’’اس شخصیت کا خاتمہ کہ جسے عشق کا تجربہ حاصل ہوا!‘‘ مطلب یہ ہے کہ جس نے عشق کیا، جو محبت میں گرفتار ہوا وہ ختم ہو گیا، عشق ختم کر دیتا ہے، مار ڈالتا ہے!
معروف عالم جمالیات ابھی نو گپت نے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ لفظ ’شرِنگار‘ دراصل ’سرِنگا‘ (Srnga) سے نکلا ہے کہ جس کا مفہوم ہے ’’جس کا گہرا اثر ’سیکس‘ کی جبلت پر ہو!‘‘ --- وہ تجربہ جو عشق سے حاصل ہو اور ’سیکس‘ کی جبلت کو متاثر کرے وہی شرِنگار ہے!
دونوں مفاہیم اہم ہیں۔ دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے، لفظ جہاں کا بھی، جس طرح بھی پھوٹا ہو دونوں مفاہیم مل کر شرِنگار کی اصطلاح کی معنویت میں کشادگی پیدا کر دیتے ہیں۔
غزل کے پیشِ نظر ’شرِنگار‘ کے دونوں مفاہیم بلاشبہ اہمیت رکھتے ہیں۔ میر تقی میرؔ کی غزل تڑپتے ہوئے، زخمی، قتل ہوتے، عشق کے مارے ہوئے عاشق کی بھی کہانی ہے اور عشق اور جنس کی جبلت کی کشش اور ان کی جانب جھکاؤ کا بھی فسانہ ہے۔
عشق ’شرِنگار‘ کا بنیادی جذبہ ہے اور میرؔ کی شاعری عشق کے جذبے کی ایک ایسی شاعری ہے کہ جسے ٹھٹھک کر دیکھتے رہنے کی خواہش ہوتی ہے۔ میرؔ کا ’تجربہ‘ بھی یہی ہے کہ عشق ختم کر دیتا ہے، جو محبت میں گرفتار ہوا وہ گیا:
پہلے دیوانے ہوئے پھر میرؔ آخر مر گئے
ہم نہ کہتے تھے کہ صاحب عاشقی تم مت کرو
----------
آشنا ہو اس سے ہم مر مر گئے آئندہ میرؔ
جیتے رہئے، تو کسو سے اب نہ یاری کیجیے
حیراں گم سم پیکر کی یہ تصویر دیکھئے:
خدا جانے کہ دل کس خانہ آباداں کو دے بیٹھے
کھڑے تھے میرؔ صاحب گھر کے دروازے پہ حیراں سے
عشق کیا اور جہاں سے گزر گئے:
رفتۂ عشق کیا ہوں میں اب کا
جا چکا ہوں جہان سے کب کا
چراغِ گور کی مانند تنہا جلتے رہے:
گو بے کسی سے عشق کی آتش میں جل بجھا
میں جوں چراغِ گور اکیلا جلا کیا
منظر دیکھئے اور گفتگو کا انداز ملاحظہ کیجیے:
قتل کیے پر غصہ کیا ہے لاش مری اُٹھوانے دو
جان سے بھی ہم جاتے رہے ہیں، تم بھی آؤ جانے دو
عشق میں محبوب دل کلیجہ نکال لیتا ہے:
جس کا خوباں خیال لیتے ہیں
دل کلیجہ نکال لیتے ہیں
٭٭٭