صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
میر ببر علی انیس
نیر مسعود
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
۱۸۷۴ء میر ببر علی انیس کی زندگی کا آخری سال تھا جس کے آخری مہینے میں ان کی وفات ہو گئی۔ (۲۹ شوال ۱۲۹۱ھ)۔ مرض الموت میں وہ اپنے منجھلے بھائی میر مہر علی اُنس سے آزردہ تھے۔ اسی زمانے میں میر انس نے انیس کے ایک عقیدت مند حکیم سید علی کو خط میں لکھا:
میر ببر علی
صاحب کی طبیعت بہت علیل ہے۔ رجب کے مہینے سے ماندے ہیں۔ میں نے جانے کا
قصد کیا تھا لیکن فرمایا کہ اگر وہ آئیں گے تو میں چھُریاں اپنے مار لوں
گا۔ اور میرے جنازے پر بھی آئیں گے تو جب تک وہ نہ جا لیں گے تو اگر تین
دن گذر جائیں تو میرا جنازہ نہ اٹھانا۔ اور اس طرح بہت کلمات کہلا بھیجے
ہیں۔ میں ابھی تک نہیں گیا مگر میرا دل نہیں مانتا۔(۱)
کچھ دن بعد انھیں حکیم سید علی کو میر اُنس نے لکھا:
تمام
ماہِ رمضان میں دن بھر تو میں اپنے حال میں بہ سبب صوم گرفتار رہتا تھا
اور بعد افطار کے بھائی صاحب کی علالت کی خبر سن سن کر رویا کرتا تھا اور
دعائیں پڑھ پڑھ کر نصف شب کو ان کی صحت کی دعائیں کیا کرتا تھا اور بے تاب
ہو کر مَیں میر نواب سے کہتا تھا کہ "بھائی، اب میں گھٹ گھٹ کے ان سے پہلے
مر جاؤں گا۔" تو وہ کہتے تھے کہ "خدا کے واسطے آپ نہ جائیے ، کس واسطے کہ
وہ اپنے لڑکوں سے وصیت کر چکے ہیں کہ میر مہر علی کو میرے جنازے پر نہ آنے
دینا۔" یہ سن کے میں چپ ہو رہتا تھا۔ عید کے دن میر نواب میرے پاس آئے تو
میں مثل بیماروں کے منھ لپیٹے پڑا تھا۔ جب وہ آئے تو میں اٹھا اور بھائی
کا حال میں نے پوچھا۔ انھوں نے کہا کہ "میں وہیں سے آتا ہوں، آج نہایت غشی
ہے کہ آنکھ نہیں کھولتے اور پاؤں پر نہایت ورم آ گیا ہے۔" بس یہ سنتے ہی
میں قریب تھا غش کھا کر گر پڑوں اور اس طرح میرا خون اَونٹا کہ میں چیخیں
مار مار کر رونے لگا۔ ساری گھر کی عورتیں بھی رونے لگیں۔ جب بعد دیر کے
میرا دل تھما تو میں نے میر نواب سے کہا کہ "بھائی، اب مجھ کو تاب نہیں
ہے۔ آج شام کے قریب میں ضرور جاؤں گا۔" الغرض چار پانچ گھڑی دن رہے ، میں
عالمِ بے تابی میں اپنے گھر سے چلا تو بہ خدائے لم یزل، راہ میں بھی میرے
آنسو بہے چلے جاتے تھے۔ جب پہنچا تو میں دیوان خانے میں دَم بھر بیٹھا اور
میر خورشید علی کو اور عسکری کو ان کے گھروں سے بلوا بھیجا۔ جب وہ آئے تو
سہمے ہوئے تھے۔ میر خورشید علی کا بھی رنگ فق ہو گیا اور عسکری کا بھی۔
میں نے پہلے کیفیت مزاج کی پوچھی تو کہا کہ "آج غشی بہت ہے۔" میں نے کہا
کہ "کوئی چھپنے والا تو نہیں ہے ؟" کہا کہ "فقط خالہ آپ سے چھپتی ہیں۔"
میں نے کہا کہ "تم بڑھو اور ان سے فقط کہہ دو کہ ہٹ جائیں، اور کچھ اطلاع
بھائی سے نہ کرنا۔" وہ اندر گئے اور میں بھی اندر گیا تو تینوں لڑکے دوسرے
دالان میں مارے خوف کے چھپ گئے اور بہنیں میری بھی ہٹ گئیں۔ الگ الگ سب
تھر تھر کانپتے تھے کہ دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ غرض جہاں بھائی کا پلنگ تھا
وہاں میں گیا تو دیکھا میں نے کہ آنکھیں بند کیے ہیں۔ میں نے سرہانے بیٹھ
کے گال پر گال رکھ کے رو رو کے کہا کہ "میں اس نقاہت کے تصدق ہو گیا ہوتا
اور میری آنکھیں اندھی ہو گئی ہوتیں کہ یہ حال نہ دیکھتا۔ برائے خدا
آنکھیں کھولیے کہ میں مہینا بھر سے تڑپتا ہوں۔" یہ جو میں نے چلّا چلّا کے
کہا اور عالمِ بے تابی میں منھ سے منھ مَلا تو گو غشی میں تھے مگر میری
آواز پہچانی اور ایسا روئے کہ آنسو تکیے پر ٹپکنے لگے اور میں نے رو رو کر
عالم بے تابی میں کہا کہ "خداوندا، واسطہ اپنی خدائی کا، مجھ سے ان کی
نقاہت کی صورت نہیں دیکھی جاتی، ان سے پہلے مجھ کو اٹھا لے !" تو پھوٹ
پھوٹ کر خود بھی رونے لگے اور آہستہ فرمایا کہ "ارے بھائی، کیوں اپنے تئیں
مارے ڈالتے ہو، میں تو اب اچھا ہوں، اور میرے سر کی قسم، سکوت کرو نہیں تو
میرا دم اُکھڑ جائے گا۔" اس مابین میں تینوں لڑکے اور لڑکیاں اور بہنیں،
سب کا ہجوم ہوا۔ بس پھر میں چپ ہوا تو آہستہ آہستہ ساری حقیقت مجھ سے کہی۔
پاؤں کا ورم دکھلایا۔ دس بجے شب تک میں بیٹھا رہا اور باتیں رہیں۔ پھر مجھ
سے کہا کہ "رات بہت آتی ہے۔ گھر دور ہے ، اب تم جاؤ۔" میں گھر پر آیا۔ عید
کے دن سے میں سہ پہر کو جاتا ہوں اور دس بجے شب کو آتا ہوں۔(۲)
اِس
بیان سے انیس کی نازک مزاجی کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کے اس رعب اور دبدبے
کا بھی اظہار ہوتا ہے جو مرض الموت کی بے بسی میں بھی برقرار تھا۔ یہ انیس
کی شخصیت کے نمایاں عناصر تھے جنھوں نے ان کے دوسرے اوصاف خصوصاً شاعرانہ
کمالات کے ساتھ مل کر ان کو ایک بادشاہ کی سی حیثیت دے دی تھی۔ انیس کی اس
شخصیت کی تعمیر فیض آباد سے شروع ہوتی ہے۔ جہاں ۱۸۰۳ء (۱۲۱۸ھ) میں ان کی
ولادت ہوئی۔
انیس کے والد مستحسن خلیق، دادا میر حسن اور پردادا میر ضاحک اردو ادب کی معروف شخصیتیں ہیں۔ میر ضاحک اردو اور فارسی کے اچھے شاعر تھے ، لیکن ان کی انفرادیت یہ تھی کہ انھوں نے معیاری اور ٹکسالی اردو کو مسخ کر کے ایک مہمل نما زبان اختراع کی تھی جس میں وہ مزاحیہ اور ہجویہ شاعری کرتے تھے۔ میر حسن بہت عمدہ غزل گو اور اردو شاعروں کے ایک اہم تذکرے کے مصنف تھے ، لیکن ان کا شاہکار ان کی مثنوی "سحر البیان" تھی جو آج بھی اردو کی بہترین مثنویوں میں شمار ہوتی ہے۔ میر خلیق نے غزل گو کی حیثیت سے شہرت اور استادی کا درجہ حاصل کیا۔ ان کے بہت شاگرد تھے (جن میں نواب سید محمد خاں رِند اور میر علی اوسط رشک بھی شامل تھے )، لیکن خلیق کے اصل جوہر مرثیہ گوئی میں کھل کر سامنے آئے۔ انھوں نے میر ضمیر، مرزا فصیح اور میاں دلگیر کے ساتھ مل کر اردو مرثیے کو ایک ادبی صنفِ سخن کی حیثیت سے احسان بخشا، اور مرثیے کے ان چاروں ستونوں میں خلیق کی زبان سب سے مستند سمجھی جاتی تھی۔
٭٭٭