صفحہ اول
کتاب کا نمونہ پڑھیں
انتخابِ کلامِ میرؔ دیوانِ اوّل
میر تقی میرؔ
غزلیں
ہوتا ہے یاں جہاں میں ہر روز و شب تماشا
دیکھا جو خوب تو ہے دنیا عجب تماشا
ہر چند شورِ محشر اب بھی ہے در پہ لیکن
نکلے گا یار گھر سے ہووے گا جب تماشا
طالع جو میرؔ خواری محبوب کو خوش آئی
پر غم یہ ہے مخالف دیکھیں گے سب تماشا
****
کل چمن میں گُل و سمن دیکھا
آج دیکھا تو باغ بَن دیکھا
کیا ہے گلشن میں جو قفس میں نہیں
عاشقوں کا جلا وطن دیکھا
ذوقِ پیکانِ تیر میں تیرے
مدتوں تک جگر نے چَھن دیکھا
ایک چشمک دو صد سنانِ مژہ
اُس نکیلے کا بانکپن دیکھا
حسرت اُس کی جگہ تھی خوابیدہ
میرؔ کا کھول کر کفن دیکھا
***
جدا جو پہلو سے وہ دلبرِ یگانہ ہوا
تپش کی یاں تئیں دل نے کہ دردِ شانہ ہوا
جہاں کو فتنے سے خالی کبھی نہیں پایا
ہمارے وقت میں تو آفتِ زمانہ ہوا
خلش نہیں کسو خواہش کی رات سے شاید
سرشکِ یاس کے پردے میں دل روانہ ہوا
ہم اپنے دل کی چلے دل ہی میں لیے یاں سے
ہزار حیف سرِ حرف اس سے وا نہ ہوا
کھلا نشے میں جو پگڑی کا پیچ اُس کی میرؔ
سمند ناز پہ ایک اور تازیانہ ہوا
دیکھا جو خوب تو ہے دنیا عجب تماشا
ہر چند شورِ محشر اب بھی ہے در پہ لیکن
نکلے گا یار گھر سے ہووے گا جب تماشا
طالع جو میرؔ خواری محبوب کو خوش آئی
پر غم یہ ہے مخالف دیکھیں گے سب تماشا
****
کل چمن میں گُل و سمن دیکھا
آج دیکھا تو باغ بَن دیکھا
کیا ہے گلشن میں جو قفس میں نہیں
عاشقوں کا جلا وطن دیکھا
ذوقِ پیکانِ تیر میں تیرے
مدتوں تک جگر نے چَھن دیکھا
ایک چشمک دو صد سنانِ مژہ
اُس نکیلے کا بانکپن دیکھا
حسرت اُس کی جگہ تھی خوابیدہ
میرؔ کا کھول کر کفن دیکھا
***
جدا جو پہلو سے وہ دلبرِ یگانہ ہوا
تپش کی یاں تئیں دل نے کہ دردِ شانہ ہوا
جہاں کو فتنے سے خالی کبھی نہیں پایا
ہمارے وقت میں تو آفتِ زمانہ ہوا
خلش نہیں کسو خواہش کی رات سے شاید
سرشکِ یاس کے پردے میں دل روانہ ہوا
ہم اپنے دل کی چلے دل ہی میں لیے یاں سے
ہزار حیف سرِ حرف اس سے وا نہ ہوا
کھلا نشے میں جو پگڑی کا پیچ اُس کی میرؔ
سمند ناز پہ ایک اور تازیانہ ہوا
***