صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


میلاد النبی، ایک تحقیقی مطالعہ

عادل سہیل ظفر

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

احکام شریعت جاننے کی کسوٹیاں

بہت سی عجیب و غریب عادات میں سے ایک یہ بھی ہم مسلمانوں میں داخل ہو چکی ہے کہ دِین کے معاملات اپنی اپنی طرف سے مقرر کی گئی کسوٹیوں پر پرکھ کر اپنا لیتے ہیں،  یا چھوڑ دیتے ہیں،  اپنے اپنے طریقے،  اپنے اپنے قوانین،  اپنے اپنے ڈھب و مسلک،  کے مطابق شریعت کے حکم لیے جاتے ہیں،  یا رد کر دیے جاتے ہیں،  عقائد بنا لیے جاتے ہیں،  اپنا لیے جاتے ہیں،  اور عِبادات بنا لی جاتی ہیں،  پھر اُن کے ذریعے اللہ کی رضا کے حصول کے لیے عمل کیا جاتا ہے،  اور بظاہر ہر گروہ کا عنوان،  "قرآن و سنّت "ہوتا ہے، اور اس عنوان سے مطابقت قائم رکھنے کے لیے اپنی بات،  اپنے عقیدے،  و عبادات کی لیے کوئی نہ کوئی دلیل کسی نہ کسی طرح قرآن و سنّت سے نکال بھی لی جاتی ہے،  اگر ہر کسی کی بات کی دلیل قرآن و سنت میں ہے تو پھر کہیں کوئی غلط نہیں ! اور یہ نا مکمن ہے کیونکہ کسی ایک معاملے میں،  کسی ایک مسئلے کے حل میں حق دو کے پاس نہیں ہو سکتا،  پس قرآن و سنّت کو سمجھنے اور جاننے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک کسوٹی بھی مقرر فرمائی ہے جِسے چھوڑنے کی وجہ سے ہم لوگ بالکل بنیادی،  عقائد،  اور عِبادات میں بھی اِختلاف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں،


میں پہلے بھی کئی دفعہ عرض کر چکا ہوں کہ،  قُرآن اورسُنّت کو سمجھنے کے لیے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال و افعال کی حدود میں رہنا لازم ہے،  خاص طور پر عقیدے اور عِبادات میں،  اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ نے ہم سب کے لیے اِیمان اور فہمِ دِین کے لیے ایک کسوٹی، اور ایک معیار مقرر فرمایا،  اور یہود و نصاریٰ کو جواب دِلواتے ہوئے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور اُن کے اصحاب کو حُکم دِیا قُولُوا آمَنَّا بِاللّہِ وَمَا اُنزِلَ اِلَیْْنَا وَمَا اُنزِلَ اِلَی اِبرَاہِیمَ وَاِسمَاعِیلَ وَاِسحَاقَ وَیَعقُوبَ وَالاَسبَاطِ وَمَا اُوتِیَ مُوسَی وَعِیسَی وَمَا اُوتِیَ النَّبِیُّونَ مِن رَّبِّہِم لاَ نُفَرِّقُ بَینَ اَحَدٍ مِّنہُم وَنَحنُ لَہُ مُسلِمُونَ O فَاِن آمَنُوا بِمِثلِ مَا آمَنتُم بِہِ فَقَدِ اہتَدَوا وَّاِن تَوَلَّوا فَاِنَّمَا ہُم فِی شِقَاقٍ فَسَیَکفِیکَہُمُ اللّہُ وَہُوَ السَّمِیعُ العَلِیمُ  (تُم سب (رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کے ساتھی) کہو ہم اِیمان لائے اللہ پر اور جو ہماری طرف اُتارا گیا اُس پر،  اور جو اِبراہیم اور اِسماعیل اور اِسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) اور اپنے پوتوں پر اُتارا گیا اُس پر،  اور جو کچھ دِیا گیا موسی اور عیسی اور (دوسرے)نبیوں (علیہم السلام اجمعین) کو اُن کے رب کی طرف سے دِیا گیا اُس پر،  ہم نبیوں میں سے کِسی میں فرق نہیں کرتے (یعنی سب کی نبوت پر اِیمان رکھتے ہیں) اور ہم اللہ (اور اس کے احکام) کے لیے سر نگوں ہیں O اور اگر (اِس پیغام کے بعد) یہ تُم لوگوں کی طرح اِیمان لاتے ہیں تو پھر یہ ہدایت پائے ہوئے ہیں اور اگر منہ پھیرتے ہیں تو وہ کھُلے اِختلاف میں ہیں اور جلد ہی اللہ آپ (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو اِس سے کفایت فرما دے گا اور اللہ سب کچھ سننے والا اور مکمل علم رکھنے والا ہے ۔ سورت البقرۃ / آیت ١٣٦،١٣٧)


اور مزید فرمایا  وَمَن یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الہُدَی وَیَتَّبِع غَیرَ سَبِیلِ المُؤمِنِینَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصلِہِ جَہَنَّمَ وَسَاء ت مَصِیراً ۔۔ (اور ہدایت (یعنی اللہ کی طرف سے ارسال کردہ احکامات و ہدایت) واضح ہو جانے کے بعد بھی جو کوئی رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو الگ کرے گا اور "المؤمنین"  اہل سنت و الجماعت کے تمام مسلکوں کا اِس پر اتفاق ہے کہ "المؤمنین "صحابہ رضوان اللہ علیہم ہیں تو جو کوئی اُن) کے راستے کے علاوہ کِسی بھی اور کی اتباع (پیروی) کرے گا تو ہم اُسے اُسی طرف چلا دیں گے جِس طرف اُس نے رخ کیا ہے اور ہم اُسے جہنم میں داخل کریں گے (کیونکہ یہ ہی اس کے اپنائے ہوئے راستے کی منزل ہے) اور جہنم کیا ہی بُرا ٹھکانہ ہے   سورت النساء /آیت ١١٥،)


آگے چلنے سے پہلے،  ایک گذارش ہے کہ اِس دوسری مذکورہ بالا آیت کی طرف ذرا خصوصی توجہ فرمایئے کہ اِس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے دو دفعہ جمع کا صیغہ اِستعمال فرمایا ہے،  اِس لیے اگر کوئی اور اللہ تعالیٰ کا ذِکر جمع کے صیغے میں کرتا ہے تو وہ خِلاف توحید نہیں،  بلکہ اللہ کی کبریائی اور قوت و قدرت کی بڑائی اور عظمت کے لیے ہے اور اللہ کی طرف سے اجازت شدہ ہے،  جی ہاں قُرآن میں تو اللہ نے یہ ہی سکھایا ہے،  اب اپنی ذاتی آراء یا غیر مسلم مستشرقین کے فلسفے کو کسوٹی بنا کر یا اُس کی مدد سے قرآن کو سمجھا جائے تو پھر دِین میں کچھ بھی کہا اور بنایا جا سکتا ہے، ایسی حرکات بھی اسی بات کی ایک دلیل ہیں کہ اللہ کی مقرر کردہ کسوٹیوں کو چھوڑ کر دِین کے معاملات سمجھنا سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اُس کے احکام اور دین کے معاملات سمجھنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات پاک کے ساتھ ساتھ اُن کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی معیار اور کسوٹی مقرر فرمایا،  اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ یہود و نصاریٰ کے لیے ہے،  بلکہ ہر ایک اِنسان کے لیے کہ اگر اُس کا اِیمان و عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اُن کے اصحاب رضی اللہ عنہم اجمعین کی اتباع میں ہو گا تو وہ ہدایت والا ہوگا اور اگر نہیں تو وہ گمراہی والا ہوگا،  اور یہ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے،  ہر فرقہ مذہب و مسلک ظاہری طور پر قُرآن و حدیث کا نام لیوا ہوتا ہے،  لیکن جب اِن دنوں کو وہ اپنی عقل کے مُطابق سمجھتا اور سمجھاتا ہے،  صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال و افعال کو ترک کر دیتا ہے تو پھر وہیں پہنچتا ہے جہاں کی خبر اللہ نے اِس مندرجہ بالا آیات مُبارکہ میں فرمائی،  مزید وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اِس معروف حدیث میں ملتی ہے کہ  اِنَّ بَنِی اِسرَائِیلَ افتَرَقَت علی اِحدَی وَسَبعِینَ فِرقَۃً وَاِنَّ اُمَّتِی سَتَفتَرِق ُ علی ثِنتَینِ وَسَبعِینَ فِرقَۃً کُلُّہَا فی النَّارِ اِلا وَاحِدَۃً وہی الجَمَاعَۃُ ۔۔ (یقیناً بنی اِسرائیل (یہودی) ٧١ فرقوں میں بٹے اور میری اُمت٧٢ فرقوں میں بٹے گی،  سب کے سب فرقے جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے،  اور وہ فرقہ (جو جنّت میں جائے گا) الجماعت ہے   حدیث صحیح ہے اور سنن ابن ماجہ،  سنن ابی داؤد،  المستدرک الحاکم،  مُسند احمد،  سنن البیہقی الکبریٰ اور حدیث کی دیگر کتابوں میں ابو ہُریرہ،  انس ابن مالک،  عبداللہ ابن مسعود،  عوف بن مالک،  معاویہ بن ابی سُفیان،  ابو اُمامہ،  عبداللہ ابن عباس،  رضی اللہ عنہم اجمعین سے روایت کی گئی ہے،  اور المستدرک الحاکم اور سنن الترمذی کی ایک روایت میں نجات پانے والے کامیاب ہونے والے فرقے کے بارے میں فرمایا  مَا اَنا عَلیہِ و اَصحَابی الیَوم ۔۔ (جِس پر میں اور میرے صحابہ آج کے دِن ہیں  ،  حدیث کا درجہ صحت "حسن "ہے

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول