صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
مظہر الایمان
محمد سلیم قادری
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اللہ اور بندے کا تعلق
دنیا کا ہر واحد عنصر دراصل مرکب کا حامل ہوتا ہے۔ جیسے ریت کا ایک ذرہ جو بظاہر مفرد یا واحد نظر آتا ہے اس میں بھی کئ چیزوں کی آمیزش ہوتی ہے۔ کوئی واحد اور منفرد (مخلوق میں سے) آمیزش سے خالی نہیں۔ صرف اللہ تعالی کی ذات ہی واحد، احد، یکتا و یگانہ و بے مثل و بے نظیر ہے۔ وہ ایسا واحد اور احد ہے جو آمیزش سے پاک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ فطری طور پر ناممکنات میں سے ہے۔ ہمارے پروردگار کا ذاتی نام (اسم اللہ) ہی وحدانیت کا حامل ہے۔
اسم اللہ کے حروف ایک ایک
کر کے ہٹانے بھی آخری حرف تک اس کا نام اور ذات باقی رہتے ہیں۔ دنیا میں
کسی بھی مخلوق کا نام لے لیجۓ اس کا ایک یا دو حروف ہٹانے سے نہ تو اس کا
صحیح نام رہتا ہے اور نہ ذات کے ساتہ تعلق باقی رہ سکتا ہے مثلاً نذیر کا
"ن" دور کرنے سے زیر رہ گیا۔ اب نہ اسم نذیر ہی رہا اور نہ ہی ذات کے ساتھ
زیر کا کوئی تعلق رہ گیا۔ تمام مخلوق کے ناموں کا یہی حال ہے۔ لیکن اسم
اللہ کا ایک ایک حرف ہٹا کر دیکھۓ۔ نام بھی باقی رہے گا اور ذات سے تعلق
بھی قائم رہے گا۔
مثلاً اسم اللہ کا الف دور کرنے
سے "للہ" رہ جائیگا۔ نام بھی پورا ہے اور ذات سے تعلق بھی موجود ہے۔ جیسے
لِلَّہِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ۔ اب "للہ" کا "ل" دور کرنے سے
"لہ" رہ جائیگا۔ جیسے قرآن پاک میں ہے لَہُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ
وَالْأَرْضِ۔ اب اس کی ذات سے تعلق بھی قائم ہے اور نام بھی ظاہر ہوتا ہے۔
اب "ل" ہٹانے سے "ہ" (ہو) باقی رہ جائیگا جیسے قرآن پاک میں ہے ہُوَ
اللَّہ الَّذِي لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ۔ اب ہُوَ جو ضمیر متصل ہے اپنی ذات
کی طرف راغب ہے۔ پس ثابت ہوا کہ باری تعالی کا نام ہی اپنی ہی وحدانیت کا
علمبردار ہے۔
اب روح "امر ربی" ہے جو مخلوق کی طرف
راغب ہے۔ جب اللہ تعالی نے آدمی کو پیدا فرمایا تو اس میں اپنی روح پھونکی
جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے "وَنَفَخْت فِيہِ مِنْ رُوحِي"۔ یعنی میں نے پھونک
دی اس میں اپنی روح۔ اب چونکہ روح اللہ تعالی کی ہے اس لئے اللہ تعالی
فرماتا ہے كَيْف تَكْفُرُونَ بِاللَّہِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا
فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْہِ
تُرْجَعُونَ (سورة البقرة 28) یعنی تم کیسے اللہ کے منکر ہو جاؤ گے
حالانکہ تم مردہ تھے اس نے تم کو زندہ کیا پھر تم کو مارے گا، پھر تمہیں
زندہ کرے گا پھر تم اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
پس
ثابت ہوا کہ آدمی کا آنا اللہ تعالی کی طرف سے ہے۔ اور واپس لوٹنا بھی
اللہ تعالی کی طرف ہے۔ تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کی طرف رغبت اور محبت
کے سوا چارہ نہیں۔ جتنی زیادہ محبت اتنا ہی اپنے اصل کی طرف راجع، جتنی
محبت کم اتنا ہی اصل سے دور، جس نے بالکل ہی چھوڑ دیا، اس نے گویا اپنے
اصل کو چھوڑ دیا اور اپنی جان پر ظلم کیا۔ اس لئے دوزخ لازم آئے گا۔
کیونکہ اس نے اپنی جان کو اپنے اصل سے جدا کیا۔ اگر اپنے اصل کی طرف رغبت
کی تو کامیابی، عزت اور وقار اس کے قدموں پر ہے۔
چونکہ
انسان کا اصلی جوہر روح ہے اور روح اللہ تعالی کا امر ہے اس لئے نہ خالق
ہے نہ مخلوق ہے۔ یہ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان واسطہ ہے۔ گویا خالق
اور مخلوق کے درمیان امر اس کا واسطہ ہے اس لئے اس کو افضل المخلوق کہا
گیا ہے۔ اور سب سے بڑا واسطہ، سب سے بڑا تعلق اللہ اور بندے کے درمیان روح
ہی ہے۔ اسی واسطے سے بندہ اللہ تعالی تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ اور جتنی
روحانی قوت یا روحانیت کمزور ہو گی اتنا ہی اپنی اصل یعنی اللہ تعالی سے
دور ہوتا چلا جائیگا۔ پس ثابت ہوا کہ انسان کا وقار، عزت، دین و دنیا سب
کچھ روحانیت ہی پر منحصر ہے۔
٭٭٭