صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
مضامینِ ناظر
عبداللہ ناظرؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
رباعیات
رباعی
کے وزن کے تعلّق سے میں نے حسبِ استطاعت رومن میں تشریح کی تھی لیکن اوزان
کے بارے میں صرف مولوی عبدالحق کی مرتّبہ کتاب ( قواعدِ اردو ) کا حوالہ
دیا تھا۔ اب خیال آیا کہ اس موضوع پر کیوں نہ مزید تشریح کی جائے۔۔
یہاں
میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک بہت ہی مفید کتاب کا ذکر کیا جائے جس کا نام
ہے ( آہنگ اور عروض) جو کمال احمد صدّیقی کے نام سے "ترقّی اردو بیوریو ۔
نئی دہلی " سے ۱۹۸۹ ء میں شائع ہوی ۔۔ یہ کتاب علمِ عروض پر بہت ہی قابلِ
اعتماد کتاب ہے جس کی قیمت گو کہ ۳۰ روپیہ ہے لیکن اس کی علمی قیمت اس سے
استفادہ حاصل کرنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں ۔۔ میں صفحہ نمبر ۲۶۷ سے ۲۷۳ تک
ہی صرف رباعی کے باب پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا اس بات کا اعتراف
کرتے ہوے کہ ساری باتیں اس کتاب سے نقل کی جائیں گی سوائے تھوڑی سی اضافی
تشریح کے جس کے الفاظ کو میں ایک خاص رنگ میں ظاہر کرنے کی کوشش
کروں گا ۔۔۔ چلیئے اب میں کتاب سے نقل کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔
رباعی چار
مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے ۔۔ پہلے ، دوسرے اور چوتھے مصرعے لازمی طور پر
مردّف اور ہم قافیہ ہوتے ہیں ۔ تیسرا مصرع بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے (ہم
ردیف اور ہم قافیہ ) ۔ آزاد سے مراد ہے کہ ردیف اور قافیہ کا پابند نہ ہو
۔ دونوں کی مثالیں ۔۔۔
۱) الجھا الجھا سا جو ہے یہ وقت کا جال
دوش و فردا کا بھی ہے اس میں احوال
ماضی کو سمجھ لے گا ، تو سمجھے گا حال
جو نقش ہوا ہے دھندلا اس کو اُجال
۲) اے سرخیِ آفتاب ، زندہ رہنا
اے نعرۂ انقلاب ، زندہ رہنا
ہے تشنہ لبی یاد مجھے مستی میں
اے میرے حسیں خواب ، زندہ رہنا
یہ
تو رباعی کی ظاہری (اصلی ) شکل ہوئی لیکن ہر چار مصرعے جو معنوی طور پر
مربوط ہوں اور اس فارم (شکل میں مگر بحر کے لحاظ سے الگ ) ہوں ضروری نہیں
کہ رباعی ہوں ( مثال کے طور پر ) :
میرے جذبات کی نوخیز کنواری کلیاں
جن کی ہر پتّی پہ سوتی ہیں ہزاروں صدیاں
رنگِ خاکستر و خاشاک پہ جانے والے
ابدیّت کے خزانے بھی مقیّد ہیں یہاں
اب
آپ پوچھیں گے کہ فرق کیا ہے ، رباعی کے چار مصرعوں میں اور بظاہر اسی طرح
کے مربوط چار مصرعوں میں ؟ اچھا ہوا کہ یہ سوال آپ نے پوچھ لیا ۔۔ میں تو
بتاتا ہی لیکن آپ کے سوال سے عروض میں آپ کی گہری دلچسپی واضح ہوئی، تو
آئیے یہ نکتہ سمجھ لیں ۔۔۔
رباعی کے اوزان کا استخراج بحرِ ہزج کے
ارکان سے ہوتا ہے صدر ابتدا ( مصرع کا پہلا حصّہ ) لازمی طور سے یا
تو مفعولُ ( اخرب ہوں گے یا مفعولُن ۔ اخرم ) ( وزن کے پہلے رکن کا حصّہ
یا تو بر وزنِ مفعولُ جو "مفاعیلن" پر خرب کے زحاف کے اثر سے اخرب۔"مفعولُ
" ہو گا یا پھر خرم کے اثر سے "اخرم ۔ مفعولن " ہو گا ) ۔۔۔ ( پہلے مصرع
کو تین حصّوں میں یوں تقسیم کیجئے صدر ۔ حشو ۔ عروض اور دوسرے مصرع
کے آخری حصّہ کو ضرب کہا جائے گا ) اسی طرح سے عروض / ضرب لازمی طور سے
فعَلُ "مجبوب" یا ابتر فَع یا اہتم فعُولُ یا ازل فاع میں سے ہوں گے " حشو
میں سالم "مفاعیلن " اشتر ""فاعلن " مقبوض "مفاعلن " اور مکفوف " مفاعیلُ
" مختلف ترتیبوں سے آتے ہیں ، بارہ ترتیبیں اخرم ۔ مفعولن سے اور بارہ
اخرب ۔ مفعولُ سے شروع ہوتی ہیں ۔ عروضیوں نے اخرب اور اخرم کے الگ الگ دو
دائرے بنائے ہیں اور کچھ نے یہ قید بھی رکّھی ہے کہ ان دو دائروں کے
اوزان کا خلط ایک رباعی میں نہ ہو ۔ لیکن اس اصول کی پابندی پر کم اور اس
سے انحراف پر زیادہ عمل ہوا۔۔۔
٭٭٭