صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
موت جدائی گاتی ہے
ابرار عمر
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
نظم/غزل
مگر تم نے
ابھی تو داستاں کو خال و خد ملنے تھے
ہاتھوں کو نئی رت نے ہرے گجرے سجانے تھے
شکستہ روح کو تعبیر کا اعجاز ملنا تھا
ابھی افسوس کی آنکھوں نے اپنے ہاتھ ملنے تھے
ابھی تو فاصلے کے چاند کی مہکی زمینوں سے
ہوائیں چلنے کا موسم بھی آنا تھا
ابھی لہروں کی آوازوں پہ ساحل پر
ہوا کا رقص ہونا تھا
ابھی فصلِ ضرورت میں خبر کے پھول کھلنے تھے
ابھی دل کی سماعت نے خوشی کا شور سننا تھا
محبت نے نئے رستوں پہ چلنا تھا
ابھی جسموں کی نیلاہٹ گلابی آگ بننا تھی
ابھی حرفِ محبت نے مِری تصویر کی صورت
تِری آنکھوں کے رستے سے زمینِ دل پہ بہنا تھا
تجھے سیراب کرنا تھا
ابھی رنگِ دعا نے رحمتوں کا رُخ بدلنا تھا
ابھی شاید کی آوازوں سے میری آنکھ روشن تھی
ابھی منظر سے موسم کا کوئی بھی رابطہ کب تھا
مگر تم نے
مگر تم نے
٭٭٭
جب بھی ملتا ہے اپنی کہتا ہے
میری باتیں کہاں وہ سنتا ہے
شہر والو اسے نہ جانے دو
اس سے میرا سراغ ملتا ہے
پیار اس کو بھی ہو گیا ہوگا
وہ کتابوں میں پھول رکھتا ہے
لوگ باتیں بنا رہے ہیں کیوں
وہ تو گھر سے نہیں نکلتا ہے
چند لمحوں کو زندگی دے کر
پھر وہ صدیوں کے بعد ملتا ہے
رات بھی گھور کر سُلاتی ہے
دن بھی باتیں سنا کے ڈھلتا ہے
اس کا چہرہ گلاب کیوں نہ ہو
وہ تو میرے لہو پہ پلتا ہے
٭٭٭