صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


موت کے بعد لوگوں کے احوال

خالد بن عبدالرحمٰن الشایع 

ترجمہ:  طالبات،گرلز وَیکَیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ، ہاسن(۲۰۰۴ء)

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

 بعث ونشر کے وقت ذلت واذیت اور گھبراہٹ

کفار قیامت کے دن انتہائی ذلت واذیت کا سامنا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
 ترجمہ: ’’اس دن قبروں سے تیزی کے ساتھ نکل پڑیں گے، اس طرح بھاگ رہے ہوں گے جیسے کسی نشان پر دوڑتے ہوں، ان کی آنکھیں جھکی ہوں گی ان پر ذلت چھائی ہو گی، یہی وہ دن ہے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا۔‘‘(سورۂ معارج/۴۳/۴۴)،،
  مفسرین اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہیں کہ قیامت کے دن کفار  قبروں سے تیزی کے ساتھ کسی پکارنے والے کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے عاجزی کے ساتھ نظریں جھکائے ہوئے نکل پڑیں گے ، جیسے کسی نشان پر دوڑ رہے ہوں۔ ایسا محسوس ہو گا جیسے کہ وہ لوگ جھنڈے کے پیچھے چلے جا رہے ہیں، وہ لوگ نہ تو داعی کی نافرمانی پر قادر ہوں گے اور نہ ہی آواز لگانے والے کی آواز سے پہلو تہی کر سکیں گے، بلکہ ذلیل و مغلوب ہو کر رب العالمین کے حضور جمع ہو جائیں گے۔
ان کی آنکھیں جھکی ہوں گی، ذلت و پریشانی ان کے دلوں پر سوار ہو گی ، نقل و حرکت رک جائے گی اور ان کی زبانیں گنگ  ہو جائیں گی ۔ کافروں کی یہی صورتِ حال ہو گی اور یہی ان کا انجام ہو گا، اور یہی وہ دن ہو گا جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا ،اور اللہ کے وعدے کا پورا ہونا ضروری ہے۔
قیامت کے روز کی اس گھبراہٹ کے متعلق ذرا غور کیجیے جو کافروں پرمسلط کی جائے گی جس کے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے:  ’’وانذرہم یوم الآزفۃ اذ القلوب لدی الحناجر کاظمین‘‘ ترجمہ : ’’اور جلد آنے والے دن کے بارے میں ان کو ڈر سنا دو، جب مارے غم کے کلیجے منہ کو آ رہے ہوں گے، ظالموں کا کوئی دوست یا سفارشی نہ ہو گا جس کی بات مان کر ان کو نجات دی جائے گی۔‘‘(سورۂ غافر /۸ا)۔
’’آزفہ‘‘ قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے،  آزفہ کے معنی قریب آ نے والے کے ہیں چوں کہ قیامت قریب ہے اس لئے اس کو اس نام  سے موسوم کیا گیا ہے، جیسا کہ خود فرمان باری تعالی ہے : ازفت الآزفۃ۔۔۔۔۔۔’’ آنے والی بہت نزدیک آ پہونچی، اللہ کے علاوہ کوئی نہیں ہے جو اس کے آنے کو کھول سکے۔‘‘(سورۂ نجم /۵۷،۵۸)
آگے اللہ تعالی فرماتے ہیں: اذ القلوب لدی الحناجر کاظمین۔ ترجمہ:  ’ ’ جب کلیجے (دل) حلق (نرخروں) میں خوف کی وجہ سے رک جائیں گے، نہ وہاں سے نکلیں گے اور نہ ہی اپنی جگہ پر واپس جا سکیں گے۔‘‘
مذکورہ آیت میں لفظ ’’کاظمین‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس طرح سے خاموش ہوں گے کہ ان سے کوئی بھی بغیر اجازت بات بھی نہ کر سکے گا ، بعض حضرات نے ’’کاظمیں ‘‘کا معنی باکین سے کیا ہے یعنی وہ زار و قطار رو رہے ہوں گے۔

محشر میں کفار کے ساتھ سختی اور ذلت کا معاملہ

قیامت کے روز کافروں کو بیڑیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر لایا جائے گا، ان پر تارکول ڈالا جائے گا اور ان کے چہروں پر آگ لپٹی ہو گی۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ’’یوم تبدل الارض غیر الارض۔۔۔۔‘‘ ترجمہ: ’’جس دن زمین کا تمام ڈھانچہ دوسری زمین کی طرح بدل دیا جائے گااور آسمان بھی اپنی جگہ چھوڑ چکے ہوں گے، اور یہ تمام لوگ اللہ واحد قہار کے حضور کھڑے ہو جائیں گے، اوراس دن تم مجرموں کو دیکھو گے زنجیروں میں ایک ساتھ کئی کئی جکڑے ہوئے بندھے ہوں گے ، ان کے کرتے کپڑے ڈامر کے ہوں گے اور ان کے چہروں پر آگ لپٹی ہو ئی ہو گی۔ ‘‘ (سورۂ ابراہیم /۴۸،۴۹،۵۰)
اس بھیانک دن میں جب زمین کو کچھ کا کچھ کر دیا جائے گا اوراس کی پہلی سی مانوس صورت نہ رہ جائے گی ، جیسا کہ صحیحین میں مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’قیامت کے دن لوگ ایک صاف شفاف سرخی مائل سفید زمین پر جمع کئے جائیں گے، جس میں کسی قسم کا کوئی نشان نہ ہو گا، اور اس دن لوگ پل صراط پر ہوں گے۔‘‘
صحیح مسلم کی ایک حدیث میں بھی اس طرح کا مضمون آیاہے، عائشہؓ سے مروی ہے کہ میں تمام لوگوں میں پہلی عورت ہوں جس نے’’ یو م تبدل الارض غیر الارض‘‘ کی آیت کے سلسلے میں رسول اللہﷺ سے سوال کیا کہ ’’اے اللہ کے رسولﷺ اس دن مجرم کہاں ہوں گے؟ ‘‘ آپﷺ نے فرمایا کہ پل صراط پر۔‘‘ اور اس ہیبت ناک دن میں وہ لوگ جنہوں نے کفر وفساد کیا ہو گا ان کو اس حال میں دکھا یا جائے گا کہ وہ سب کے سب ایک ساتھ بندھے ہوئے ہوں گے ، ہر قسم کے مجرم اپنے قسم کے دوسرے مجرموں کے ساتھ جکڑے ہوئے ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ’’ احشروا الذین ظلمو ا و ازواجہم ‘‘ ترجمہ :’’ حکم ہو گا کہ گھیر گھار کر جمع کر لیا جائے تمام ظالموں کو اور ان کے جوڑوں کو ۔‘‘
اور یہ ظالم لوگ اس حال میں ہوں گے کہ ان کے ہاتھ اور پیر زنجیروں میں جکڑے ہوں گے ۔
ان کے لباس کے تعلق سے اللہ تعالیٰ ارشاد فر ماتے ہیں ’’ سرابیلہم من قطران ‘‘ ترجمہ : ان کے کرتے کپڑے ڈامر کے ہوں گے یعنی ان کے کپڑے جنہیں وہ پہنے ہوں گے، تارکول کے ہوں گے، قطران وہ ایک ایسا سیال مادہ ہے جو لکڑی اور کوئلہ وغیرہ سے نکا لا جاتا ہے اور لکڑی وغیرہ کی حفاظت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔  بعض کے قول کے مطابق قطران گرم یا پگھلائے ہوئے تانبے کو کہتے ہیں ۔ اور ان کے چہروں پر آگ لپٹی ہو ئی ہو گی جو ان کو جلا دے گی۔
 ***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول