صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


صَداۓ موسِم گل

طارق بٹ


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

غزلیں

وہی آہٹیں درو بام پر ، وہی رت جگوں کے عذاب ہیں
وہی ادھ بجھی مری نیند ہے ، وہی ادھ جلے مرے خواب ہیں

مرے سامنے یہ جو خواہشوں کی ہے دھند حدِّ نگاہ تک
پرے اس کے، جانے، حقیقیتں کہ حقیقتوں کے سراب ہیں

مری دسترس میں کبھی تو ہوں جو ہیں گھڑیاں کیف و نشاط کی
ہے یہ کیا، کہ آئیں اِدھر کبھی تو لگے کہ پا بہ رکاب ہیں

کبھی چاہا خود کو سمیٹنا تو بکھر کے اور بھی رہ گیا
ہیں جو کرچی کرچی پڑے ہوئے مرے سامنے مرے خواب ہیں


یہ نہ پوچھ کیسے بسر کیے ، شب و روز کتنے پہر جیے
کسے رات دن کی تمیز تھی ، کسے یاد اتنے حساب ہیں

اُنہیں خوف رسم و رواج کا ، ہمیں وضع اپنی عزیز ہے
وہ روایتوں کی پناہ میں ، ہم انا کے زیرِ عتاب ہیں

ابھی زخمِ نو کا شمار کیا ، ابھی رُت ہے دل کے سنگھار کی
ابھی اور پھوٹیں گی کونپلیں ، ابھی اور کھلنے گلاب ہیں


*

بھولی ہوئی راہوں کا سفر کیسا لگے گا
اب لوٹ کے جائیں گے تو گھر کیسا لگے گا !

ہنگامۂ ہستی سے نپٹ کر جو چلیں گے
وہ نیند کا خاموش نگر کیسا لگے گا

اُس نے تو بلا یا ہے، مگر سوچ رہا ہوں
محفل میں کوئی خاک بسر کیسا لگے گا

اندھے ہیں جو دنیا کی چکا چوند سے اُن کو
سورج کا سوا نیزے پہ سر کیسا لگے گا

جس روز کہ خوابوں میں کوئی شکل نہ ہوگی
بے چہرگیِ خواب سے ڈر کیسا لگے گا

*

ہے کس کا انتظار ! کھلا گھر کا در بھی ہے
اور جلتا اک چراغ سرِ رہ گزر بھی ہے

ہر لمحہ گھر کو لوٹ کے جانے کا بھی خیال
ہر لمحہ اس خیال سے دل کو حذر بھی ہے

تنہائیاں پُکارتی رہتی ہیں: آؤ ، آؤ
اے بیکسی بتا ! کہیں اِس سے مفر بھی ہے؟

کس طرح کاٹی ، کیسے گزاری تمام عمر
وہ مِل گیا تو ایسے سوالوں کا ڈر بھی ہے

کیوںکر نہ زندگی میں رہے وحشتوں سے کام
ہر لحظہ جب گماں ہو کوئی بام پر بھی ہے

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول