صفحہ اول

کتاب کا نمونہ پڑھیں



موجوں کا اضطراب

خود سوانح
ڈاکٹر محمد شرف الدین ساحلؔ

ڈاؤن لوڈ کریں 

  ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

باب۔۲

میرا شہر ناگپور، سنتروں کا شہر ہے۔ اس کا پُر امن ماحول تین سو سال کی مخلصانہ سرگرمیوں کا  آئینہ دار ہے۔ اس کی تشکیل میں ہندو اور مسلمان دونوں کی مشترکہ کوششیں شامل ہیں۔ یہ علاقہ سولہویں صدی میں سوائے جنگلات کے کچھ نہ تھا۔ گونڈ حکمرانوں کے زیرِ اقتدار تھا اور ان کی حکومت (حکومتِ دیو گڑھ) کی سرحد پر واقع تھا۔ چنانچہ حکومت کے بانی راجہ جاٹبا نے جو اکبر اعظم کا معاصر و مطیع تھااپنی حکومت کی حفاظت کے لیے ان جنگلات میں پتھروں کا ایک عظیم الشان مضبوط قلعہ تعمیر کروایا جس میں اس کی فوج رہا کرتی تھی۔ اسی قلعہ پر شاہجہاں کے سپہ سالار خان دوراں نے ۱۶ جنوری ۱۶۳۷ء کو زبردست حملہ کیا تھا اور سرنگ لگا کر اس کے تین برج اڑادیے تھے۔ اس کا تفصیلی ذکر عبدالحمید لاہوری نے بادشاہ نامہ میں کیا ہے۔ گونڈ حکمراں مغلوں کو سالانہ خراج دیا کرتے تھے۔ یہ حملہ خراج نہ دینے کی پاداش میں تھا۔

اسی خاندان کے ایک گلِ سرسبد راجہ بخت بلند شاہ نے اٹھارہویں صدی کے آغاز میں قلعہ کے چاروں طرف مضبوط فصیل تعمیر کرواکے ناگپور شہر کی بنیاد ڈالی اور اسے اپنی حکومت کا صدر مقام بنایا۔ راجہ بخت بلندشاہ ، اورنگ زیب کا ہم عصر تھا۔ وہ اس کے دربار میں کئی سال مقیم رہا۔ وہیں اسلامی تعلیم و تہذیب سے متاثر ہو کر اس نے اسلام قبول کیا۔ لہٰذا ناگپور شہر کی بنیاد کے ساتھ ہی یہاں خدا کی عبادت و بندگی کے لیے مسجد تعمیر ہوئی۔ گویا اس شہر کا بنیادی پتھر ہی اسلامی تہذیب وثقافت پر رکھا گیا۔ اب راج دربار میں فارسی کے انشا پردازوں کو جگہ ملی۔ یہاں علما و صلحا کے قدم آئے۔

راجہ بخت بلند شاہ کی وفات (۱۷۰۹ء)کے بعد اس کے بیٹے راجہ چاند سلطان شاہ نے تقریباً چھبیس (۲۶) سال حکومت کی۔ اس نے اس شہر کے خاکے میں کئی رنگ بھرے۔ جمعہ دروازہ، جمعہ تالاب، جمعہ مسجد، اور پتھر پھوڑ کی مسجد اسی کے دور کی تعمیرات ہیں۔ لیکن یہ اسلامی ریاست اس کی وفات (۱۷۳۵ء) کے بعد خانہ جنگی کاشکار ہوگئی۔ اس کا فائدہ ایک مرہٹہ سردار رگھوجی بھوسلہ کو ملا۔ اس نے اپنی زبردست حکمتِ عملی سے ۱۷۴۸ء میں اس حکومت کو اپنی تحویل میں لے لیا اور راجہ چاند سلطان شاہ کے بیٹے راجہ برہان شاہ کے اخراجات کے لیے تین لاکھ روپے سالانہ پنشن مقرر کی۔ اسے ناگپور کے قلعہ میں اپنی نگرانی و حفاظت میں رکھا۔ یہیں سے اس علاقے میں مرہٹوں کا دورِ حکومت شروع ہوتا ہے۔

ناگپور میں بھوسلہ خاندان ۱۸۵۳ء تک حکمراں رہا۔ اس اثنا میں راجہ رگھوجی بھوسلہ کے بعد چھ راجہ یکے بعد دیگرے تخت نشین ہوئے۔ یہ سب غیر متعصب ، منصف مزاج اور انسانیت نواز تھے لہٰذا دکن اور شمالی ہند کے کئی مسلم خاندان ان کی پالیسی سے متاثر ہوکر ناگپور آئے اور انتظامیہ میں معززوممتاز عہدوں پر فائز ہوئے۔ بھوسلہ فوج میں بھی مسلم سپاہیوں کی کثیر تعداد تھی۔ ان کے راج دربار میں فارسی کو زبردست اہمیت حاصل تھی۔ ان حالات سے یہاں اسلامی تہذیب و ثقافت اور مسلم سماج کو پروان چڑھنے کا خوب موقع ملا۔ ان کے کئی محلے وجود میں آئے۔ مسجدیں، مدارس اور مکاتب تعمیر ہوئے۔ فارسی وار دو زبان و ادب کو فروغ ملا اور بلند پایہ ادبا وشعرا کے علمی و ادبی کارنامے سامنے آئے۔ لالہ پیم چند، عاصی، فیض محمد فیض، مولانا غلام رسول غمگین، سید عباس علی شہرت، سید عبدالعلی عادل اور غلام عبدالقادر خان زلفی اسی عہدکے باکمال اہلِ قلم تھے جن کے روشن کارناموں سے ناگپور کی ادبی تاریخ جگمگارہی ہے۔ یہی موجودہ ادبی ماحول کا سنگِ اساسی ہے۔

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

  ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول